Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سیاست دان ایک بار پھر ناکام

بہت سے لوگ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ نواز شریف کو اپنے ہی پیر پر کلہاڑی مارنے کا بہت شوق ہے
* * * صلاح الدین حیدر* * *
میرے آج کے موضوع پر اعتراض تو ہوسکتا ہے اس لئے کہ میں نے قریباً سارے ہی سیاست دانوں کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنے کی جسارت کی ہے جو خود میری نظر میں نامناسب ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ عمومی طور پر پاکستانی سیاست دان جان بوجھ کر یا انجانے میں ایسی غلطیاں کر بیٹھتے ہیں جو بعد میں اُن کیلئے مشکلات کا سبب بن سکتی نہیں بلکہ اکثر و بیشتر بن جاتی ہے۔ تو پھر ایسی بات ہی کیوں کی جائے جس سے شرمندگی اُٹھانی پڑے، یا جو آپ کے سیاسی معاملات پر اثرانداز ہو۔ عمران خان نے کئی مرتبہ یہ غلطیاں کیں اور آج اُن کی مقبولیت 2013 سے کہیں زیادہ کم ہے۔2018 تک وہ اپنی ساکھ بحال کرلیں یہ اور بات ہے۔سیاست کسی کی میراث نہیں ہوتی۔ صحیح فیصلے کریں گے آپ کو فائدہ ہوگا، غلطیاں کریں گے، ظاہر ہے نقصان اُٹھانا پڑے گا۔ اب نواز شریف کو کون سمجھائے کہ وہ جو اَب تک کرتے آئے ہیں، اُن سب باتوں سے اُنہیں کافی نقصان پہنچ چکا ہے۔
بہت سے لوگ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ نواز شریف کو اپنے ہی پیر پر کلہاڑی مارنے کا بہت شوق ہے۔ میری نظر میں یہ کسی حد تک صحیح بھی ہے، لیکن دراصل نواز شریف میں انا بہت ہے، بازاری زبان میں اسے گردن اکڑانا کہتے ہیں۔ جو کچھ بھی ہو، 3 اکتوبر کو اُنہوں نے قومی اسمبلی میں اپنے ارکان کی عددی برتری کی بناء پر انتخابی اصلاحات بل2017 منظور کرالیا اور اپنی ہی پارٹی کے آئین میں تبدیلی کرکے کسی نااہل ہونے والے شخص کو دوبارہ صدر یا اہم عہدوں پر بحال کرنے کی اجازت دلوادی۔ انتخابی اصلاحات بل جس کے بارے میں شبہ ہے کہ پیپلز پارٹی نے اُن کا ساتھ دیا اور نواز اور زرداری میں خفیہ معاہدہ ہے کہ دونوں مل کر فوج کی سیاست میں مداخلت کو کم سے کم کرسکیں اور آہستہ آہستہ اُسے بالکل ہی ختم کردیں۔ یہ بات کوئی مشکل بھی نہیں ۔
تاریخ پر نظر ڈالیں تو پیپلز پارٹی کے بانی مرحوم ذوالفقار علی بھٹو نے افواجِ پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کو آرمی کے کنٹرول سے نکال کر وزیراعظم کے ماتحت کردیا تھا۔ بھٹو صاحب کو کسی بھی سطح پر مخالفت کا سامنا نہیں کرنا پڑا، لیکن اُن کی موت کے بعد آئی ایس آئی زور پکڑتی چلی گئی، اُس کا درجہ بھی بڑھادیا گیا اور اب وہ ایک تین ستارے والے جنرل کے ماتحت ہوتی ہے۔ کہتے ہیں کہ منہ کو خون لگ جائے تو پھر اُس کا نشہ ہی اور ہوتا ہے۔شاعر نے کہا تھا نا کہ چھٹتی نہیں ہے منہ کو یہ کافر لگی ہوئی۔
یہی مصرعہ یہاں پوری طرح صادق آتا ہے۔ بھٹو صاحب کے بعد میں آنے والی ہر حکومت نے آئی ایس آئی کو کنٹرول کرنے کی کوشش تو کی، لیکن جن ایک مرتبہ بوتل سے باہر آجائے تو اُس کا واپس اندر جانا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوجاتا ہے۔آئی ایس آئی آج قریباً 45/50 سال سے سیاسی لوگوں پر بھی نظر رکھتی ہے اور آرمی اگر خود برسراقتدار نہ ہو تو بھی پسِ پردہ اقتدار پر قابض ہی رہتی ہے۔ یہ سلسلہ آج بھی جاری و ساری ہے۔ میری بات میں کتنا وزن ہے یہ آپ خود ہی اندازہ لگالیں۔ حالات و واقعات شاہد ہیں کہ کوئی بھی سیاست دان، بے نظیر اور نواز شریف سمیت اہم ملکی معاملات میں خود فیصلہ نہیں کرسکتا، اُسے آئی ایس آئی کے زیر اثر رہنا پڑتا ہے۔
یہ سب جانتے ہوئے بھی اور سپریم کورٹ سے نااہل ہونے کے باوجود میاں نواز شریف نے اپنے مزاج میں تبدیلی لانے کے بجائے، انا اور اکڑ کو ہی فوقیت دی۔ اُنہوں نے نہ صرف انتخابی اصلاحات کے نام پر ایک نیا قانون منظور کروالیا جس پر صدر مملکت نے بھی مہر ثبت کردی اور اس قانون میں ایک اہم شق، 203 ایک پلان کے تحت ڈالی گئی کہ نااہل ہونے والا شخص بھی دوبارہ پارٹی کا صدر بن سکتا ہے۔ یاد رہے کہ نواز شریف سپریم کورٹ سے نااہل ہونے کے بعد بھی پارٹی کے اجلاس کی صدارت کرتے رہے تھے، جس کا الیکشن کمیشن نے نوٹس ہی نہیں لیا بلکہ نواز شریف کو لکھ کر بھیج دیا کہ آپ فوری طور سے (ن) لیگ کی صدارت سے مستعفی ہوجائیں اور سیاست میں حصّہ لینے سے باز رہیں لیکن جس ملک میں قوانین کی اہمیت ہی نہ ہو، وہاں جس کی لاٹھی اُس کی بھینس یا پھر یوں کہہ لیجیے کہ جنگل کا قانون ہی اصل قانون ہوتا ہے۔ پاکستان میں بھی بدقسمتی سے ایسا ہی ہے۔
نواز شریف نے عہدے پر دوبارہ منتخب ہونے کے بعد ایک دھواں دھار تقریر کر ڈالی جس کا لب لباب سپریم کورٹ پر پھبتی کسنااور افواج پاکستان کو بھی پیغام دینا تھا کہ اب سیاسی رہنما ہی ملک کے اصل مالک ہیں۔ اُن کے جملے زہر سے بھرے ہوئے تھے۔ یہ سراسر عاقبت نااندیشی تھی۔ اس کے اثرات اُن کی ذات اور اُن کے اہل خانہ پر منفی اثر ڈال سکتے ہیں، جس کا اظہار شاید بہت جلدی ہوجائے۔ ایک بات جو مجھے بار بار کھٹک رہی ہے، وہ ہے افواج پاکستان کا فوری طلب کردہ کور کمانڈر کا اجلاس، جو نواز شریف کی تقریر کے بعد ایک دم ہی بلالیا گیا۔ اعلان تو یہی ہوا کہ ملکی سلامتی کے امور زیرِ غور آئے اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باوجوہ کے دورۂ افغانستان اور اُن کی افغان صدر اشرف غنی سے بات چیت پر بھی غور ہوا، لیکن سوال اتنا سا ہے کہ کیا افواج پاکستان اپنے اوپر ہونے والے حملوں کو خاموشی سے برداشت کرلیں گی۔ آئی ایس آئی کے پُرانے ڈائریکٹر جنرل نے واٹس ایپ سے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ نواز شریف اور زرداری دونوں مل کر فوج کا قلع قمع کرنا چاہتے ہیں، اس کا ثبوت نواز شریف کا ایک ہندوستانی سفیر سے لندن میں ملاقات اور پھر چونکہ موجودہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی بھی وہیں تھے، اُن سے کہہ کر بسام کو اسلام آباد میں سفیر مقرر کروادیا، ظاہر ہے کہ نواز شریف کا ہند میں بہت قیمتی سرمایہ لگا ہوا ہے، اُنہیں اس کی کیا پروا کہ یہ ملکی سلامتی کے خلاف ہے یا نہیں، اُنہیں تو بس دولت سے مطلب ہے، چاہے کسی طرح بھی ہاتھ آئے۔
نواز شریف کا (ن) لیگ کی سربراہی اختیار کرنا تھا کہ مریم اورنگزیب نے لندن سے ایک مہم شروع کردی کہ نواز شریف کے مخالفین ہار گئے، اُن کے خواب نواز شریف کو نیچا دِکھانے کے شرمندۂ تعبیر نہ ہوسکے۔ نواز شریف خود بھی صدر منتخب ہونے کے بعد غصّے میں تھے اور تمام تر غیظ و غضب اُن کے چہرے اور زبان سے عیاں تھے۔ بھلا یہ کون سی عقل مندی تھی وہی بتاسکتے ہیں۔ دوسری طرف کئی مبصرین نے اس بات کا نوٹس لیا کہ اعلیٰ عدالتیں بہت ہمت اور حوصلے سے ساری تنقیدی مہم جو محترم جج صاحبان کے خلاف چلائی جارہی ہیں، تحمل اور بردباری سے برداشت کررہی ہیں، جج صاحب کے ساتھ مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ وہ عدالت سے باہر بول نہیں سکتے، نظام عدل کے خلاف ہوگا ایسا کرنا لیکن سپریم کورٹ پہلے بھی نواز شریف، اُن کے صاحبزادوں، صاحبزادی اور داماد کے طعنے خاموشی سے سنتی رہی، لیکن فیصلہ بالآخر نواز شریف کے خلاف دیا۔ دوسری طرف شہباز شریف، جو کہ نواز شریف کے چھوٹے بھائی کی مناسبت سے پنجاب کے وزیراعلیٰ بھی ہیں، نے ایک اور شوشہ چھوڑ دیا کہ نواز شریف اپنے چند عاقبت نااندیش دوستوں سے ہوشیار رہیں جو اُنہیں دن میں خواب دِکھاتے ہیں اور اُن کی بربادی کا باعث بنتے ہیں۔بات تو عقل کی ہے، لیکن کیا نواز شریف عقل پر یقین رکھتے ہیں؟ سوال تو سب سے بڑا یہی ہے۔ دوسرے کئی سیاست دان، جن میں پیپلز پارٹی کے لیڈر سید خورشید شاہ اور نثار کھوڑو (جن کا تعلق بھی سندھ سے ہے) نے بھی رینجرز کے خلاف بیان داغ دیا کہ نیم فوجی دستے اپنی اوقات سے باہر نکل رہے ہیں۔ اُنہیں وزیر داخلہ احسن اقبال کو احتساب عدالت میں جانے سے نہیں روکنا چاہیے تھا، یہ اُن کے اختیارات سے باہر ہے۔ ایسا کیوں کیا گیا، ملک میں بحث چھڑ گئی ہے۔

شیئر: