Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اپنا آپ جانو، ساہنو کی ؟

***وسعت اللہ خان***
1970ء کے پہلے پاکستانی عام انتخابات 3مسائل کو بنیاد بنا کر لڑے گئے پہلا مسئلہ اسلام بمقابلہ سوشلزم ، دوسرا مسئلہ مشرقی و مغربی پاکستان میں بڑھتی ہوئی اجنبیت اور تیسرا مسئلہ ہند ۔پاکستان میں عام سی بات تھی کہ کوئی پسند نہ آیا تو اسے ہندوستانی ایجنٹ کہہ دیا ۔ کسی نے بڑھک لگا دی کہ ہم ہند سے ہزار سال لڑیں گے تو کسی نے دلی کے لال قلعے پر لہرانے کیلئے سبز جھنڈا سلوا لیا۔ہم گھاس کھا لیں گے ، پیٹ پر پتھر باندھ لیں گے مگر ہندوستانی ایٹمی دھماکے کا جواب ضرور دیں گے۔ناپاک ہندوستانی عزائم ، بزدل ہندو بنیا ، ایک مسلمان 10 پے بھاری ، دشمن کی میلی آنکھ پھوڑ ڈالیں گے ، 10کروڑ مسلمانوں کی غیرت نہ للکارو، مکار ہندو ذہنیت ، خونِ مسلم سے ہولی ، مسلم کش فسادات وغیرہ وغیرہ وغیرہ۔
سرحد پار بھی ایسے ہی اونچے سر گھٹی میں پلائے جاتے تھے۔لٹیرا محمود غزنوی ، بابر کی اولاد ، متعصب اورنگ زیب ، ماتا کے ٹکڑے کرنے والا جناح ، امریکی پٹھو ، کرش پاکستان ، غدار مسلمان وغیرہ وغیرہ وغیرہ۔ 
غرض تقسیم کے بعد کے کم ازکم 40 برس تک دونوں طرف یہ بہت ہی آسان نسخہ تھا کہ جب کچھ سمجھ میں نہ آیا تو دہلی میں کھڑے ہو کر پاکستان کو یا لاہور کے موچی دروازے پر ہند کو گالی دے دی۔کوئی نظریاتی و سیاسی ٹوپی کسی اور ملک پر فٹ نہ آتی تو ہند اور پاکستان یہی ٹوپی ایک دوسرے کو پہنانے کی کوشش کرتے رہتے۔
لیکن اگر آپ کھلے دل اور آنکھوں سے دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ پاکستان دشمنی کی فلم سوائے شمالی ہندوستان کے کسی اور خطے میں کبھی بھی ہٹ نہ ہوسکی اور ہند دشمنی کی فلم پنجاب ، مظفر آباد اور کراچی کے سوا کہیں مقبول نہ ہوسکی۔وجہ سیدھی سی تھی کہ تقسیم کے بعد شمالی ہندوستان کے زیادہ تر پنجابی و کشمیری مہاجرین مغربی پنجاب اور غیر پنجابی مہاجرین اندرونِ سندھ کے شہری علاقوں اور سب سے بڑے شہر کراچی میں کھپ گئے جبکہ مغربی پنجاب اور سندھ سے نقل مکانی کرنیوالے ہندوؤں اور سکھوں کی اکثریت ہندکے پاکستان سے متصل صوبوں میں بس گئی۔
اگر آپ دونوں ممالک میں قوم پرست جماعتوں اور گروہوں کا سیاسی و نظریاتی شجرہ پرکھیں تو اندازہ ہوجائے گا کہ انہیں ایسے لوگوں کی حمایت زیادہ ملی جو ایک جگہ سے اکھڑ کر دوسری جگہ بسنے پر مجبور ہوگئے۔
چونکہ اب دونوں ملکوں میں تقسیم کے بعد پیدا ہونے والی تیسری پیڑھی بھی جوانی کا جوش گزار چکی ہے لہذا دوطرفہ دشمنی کا موضوع بھی بڑے ریڈار سے پھسل کر سرحد کے دونوں جانب چند مذہبی سیاسی جماعتوں تک محدود ہوگیا۔ ہند میں علاوہ جن سنگھ ، بھارتیہ جنتا پارٹی یا طفیلی تنظیموں کے پاکستان دشمنی کسی بھی سرکردہ سیاسی جماعت کا انتخابی موضوع نہیں رہا۔ 
پاکستان میں آخری قابلِ ذکر اینٹی انڈیا سیاسی لہر1992ء میں بابری مسجد کے ڈھائے جانے کے ردِ عمل میں اٹھی۔2002ء میں ریاست گجرات میں مسلمانوں کے بھاری جانی نقصان پر پاکستان میں سرکاری و ابلاغی سطح پر تو تھوڑی بہت ہا ہا کار رہی مگر عام آدمی کی سطح پر سوائے رسمی افسوس کے کوئی ٹھوس ردِ عمل دیکھنے میں نہیں آیاجبکہ ہند میں1999ء کی کرگل مہم جوئی کیخلاف جو اینٹی پاکستان ردِ عمل ہوا، اس سے کم ردِ عمل2008ء  کے ممبئی حملوں کے خلاف دیکھنے میں آیا حالانکہ کرگل ایک عام ہندوستانی سے ہر لحاظ سے دور اور ممبئی سیاسی و ثقافتی اعتبار سے بہت قریب ہے۔
  آج دونوں ممالک کی داخلہ و خارجہ وزارتیں اور انٹیلی جینس ڈھانچہ اگرچہ بلوچستان ، افغانستان اور کشمیر وغیرہ کی بدامنی میں ایک دوسرے کا ہاتھ حسبِ ضرورت دکھاتے تو رہتے ہیں لیکن ان موضوعات  و تنازعات کی حیثیت اب علاقائی و سفارتی شطرنج ، نادیدہ رسہ کشی اور اس بابت سرکاری بیانات کی حیثیت طعنوں سے زیادہ کچھ نہیں۔ 
دونوں طرف جو حاضر سروس جرنیل یا بیورو کریٹ  جتنا بھی سخت گیر عقاب رہا ہو ریٹائرمنٹ کے بعد اتنی ہی بڑی امن نواز فاختہ بن کر خود کو ایک پرامن جنوبی ایشیا کا وکیل  ظاہر کرتا ہے۔
ایک تبدیلی یہ آئی ہے کہ ممبئی ، دہلی ، چندی گڑھ اور کراچی ، لاہور و فیصل آباد کا سرمایہ دار جو چند برس پہلے تک اپنے اپنے ممالک کی سرکاری نظریاتی پالیسیوں سے سرتابی کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا آج دھڑلے سے دوطرفہ اقتصادی تعلقات کے فوائد پر لیکچر پلاتا ہے۔بھلے ریاستی پالیسیوں پر اس کا بس چلے نہ چلے۔ 
ایک زمانہ تھا کہ پاکستان کے شہری علاقوں میں  ہندوستانی مسلمانوں کی حالتِ زار پر خاصا درد اٹھتا تھا اور یہی کیفیت دلی ، لکھنؤ اور حیدرآباد کے مسلمان محلوں میں بھی پاکستان کے لئے تھی لیکن سن71 کے بعد سے جذباتی بندھن ویسا نہیں رہا۔
آج کے پاکستانی مسلمانوں کیلئے تاج محل اور لال قلعہ سے زیادہ اہم خلیجی ممالک ہیں اور ہندوستانی مسلمان اب مسلم پاکستان کے نظریاتی رومانس کے مرحلے سے نکل کر دل کے بجائے دماغ سے سوچنا سیکھ گیا ہے( ہندوستان اور پاکستان کے کرکٹ میچ کی بات اور ہے )۔
اس باہمی رام کتھا کے تناظر میں یہ حقیقت نظروں سے اوجھل نہیں ہونی چاہئے کہ بھلے سردمہری ہو یا گرم جوشی،پاکستان اور ہند اگلے کئی عشروں تک ایک دوسرے کے نفسیاتی آسیب سے آزاد ہوتے نظر نہیں آتے۔جیسے باری کا بخار دن میں کم اور رات کو بڑھ جاتا ہے۔ اسی طرح دونوں ممالک کے تعلقات بھی نفرت انگیز انسیت کی شاہراہ پر بڑھتے رہیں گے۔ایک قدم آگے 2 قدم پیچھے۔
حتیٰ کہ ان کو ایک دن احساس ہو جائے کہ اقتصادی فوائد باہمی دشمنی کے فوائد سے کہیں زیادہ ہیں اور دنیا کو اب دونوں ممالک کی بس اتنی پروا ہے کہ یہاں سرمایہ کاری ہو سکتی ہے یا نہیں۔نہیں ہو سکتی تو السلام علیکم۔آپ کے اصولی و غیر اصولی موقف آپ خود ہی بھول گئے۔ساہنوں کی ؟؟

شیئر: