Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آٹے سے بال کی طرح نکل جاﺅنگا

مشعل السدیری۔ الشرق الاوسط
حسین شبکشی نے ایک عجائب گھر قائم کرنے کی تجویز دی ہے۔ سعودی عرب میں عجائب گھر قائم کیا جائے جس میں وہ تمام اشیاءسجا دی جائیں جن سے منع کیا جاتا رہا ہے اور جن کی حرمت کے فتوے جاری کئے جاتے رہے ہیں۔ مثال کے طور پر ریڈیو سیٹ ، ٹی وی، تصویر ، گھڑی، تار بھیجنے والی مشین، گاڑی، سائیکل، سفید غترہ، لڑکیوں کی تعلیم ، سینما گھر ، کیمرہ اور موبائل وغیرہ ایسی تمام اشیاءاس عجائب گھرکی زینت بنادی جائیں جو آج ہماری روزمرہ کی زندگی کا حصہ بن چکی ہیں اور جن کے استعمال سے ہمارے دین پر کوئی فرق نہیںپڑا۔
حسین شبکشی نے جو کچھ کہا میں اس میں اضافہ کرنا چاہتاہوں۔اندھاد ھند طریقے سے اشیاءکو حرام قرار دینے کارواج بڑا پرانا ہے۔ مثال کے طور پر ایک زمانے میں قہوہ نوشی کو حرام کہا جاتا تھا۔ کہتے تھے کہ جو شخص بھی قہوہ پئے گا قیامت کے روز اس کا چہرہ قہوہ تیار کرنے والے برتنوں کی سیاہی سے کالا کیا جائیگا۔ چائے کے بارے میں کہتے رہے ہیں کہ چائے نوشی ، شراب نوشی جیسی ہے۔ کھانے کیلئے چمچوں کے استعمال پر بھی حرمت کا فتویٰ داغا جاتا رہا ہے۔ حرمت کا فتویٰ دینے والوں کا شاعر کہہ چکا ہے جسکا مفہوم ہے کہ کھانوں میں چمچوں کا استعمال کفرانِ نعمت کے مترادف ہے۔
میں مزید کچھ باتیں عرض کرنا چاہوں گا۔ آپ تنگ دل نہ ہوں۔ ذرا میرے کہنے پر اورباتیں بھی پڑھنے کی زحمت کرلیں۔کہتے ہیں کہ قومی پرچم یا قومی ترانے کے لئے کھڑے ہونا یا فوجی سلامی دینا جائز نہیں۔ یہ بھی کہتے ہیں کہ داڑھی مونڈھنا، تالی بجانا ، کپڑے ٹخنوں سے نیچے رکھنا ، سگریٹ پینا، مساجد کو آراستہ کرنا، ہاتھ میں گھڑی باندھنا، فٹبال کھیلنا، شعری مقابلوں میں حصہ لینا، رمضان میں اخبارا ت پڑھنا ،غیر مسلموں جیسا لباس استعمال کرنا کسی غیر مسلم کو میرے بھائی، میرے ساتھی یا میرے دوست کہہ کر مخاطب کرنا سب کچھ حرام ہے۔
خواتین کے سامنے شادی بیاہ میںعورت کا رقص کرنا حرام قرار دیا جاچکا ہے۔خواتین کو کندھوں پر عبایہ رکھنا ، اونچی ایڑی کا جوتا استعمال کرنا۔ نیل پالش کا استعمال، بھنوﺅں کو آراستہ کرنا یہ سب ناجائز ہے۔ بعض لوگوں نے تو برقع پہننے تک کو حرام قراردیا ہے کیونکہ اس سے آنکھیں نظر آتی ہیں۔ 
مجھے مزا تو اس وقت آیا جب ایک آزادی پسند مفتی نے یہ فتویٰ دیا کہ خاتون اپنے شوہر کو زدوکوب کرسکتی ہے۔ دوسرے مفتی نے جواب دیا کہ خاتون اپنے دفاع تک میں شوہر پر ہاتھ اٹھانے کی مجاز نہیں۔
میں نے جو مثالیں پیش کی ہیں وہ حرام کردہ اشیاءکے غیر معمولی ذخیرے کے چند نمونے ہیں۔ اس حوالے سے بہت سارے فتوے موجود ہیں۔ حیرت انگیزہیں۔ اگر میں انکی تفصیلات بیان کرنے لگوں تو یقین جانیں اس جریدے کے تمام صفحات ناکافی ہونگے۔
میں اپنے اور آگ کے درمیان یعنی اپنے اور ”مطوع “ کے درمیان جنگ کے شعلے بھڑکانا نہیں چاہتا۔ میرا مقصد تو اتنا ہے کہ ڈاکٹر احمد العرفج کو مطوع حضرات کے سامنے ڈھال کے طور پر استعمال کرو۔ بات یہ ہے کہ میں نے حرمت کے فتوﺅں کی جو مثالیں پیش کی ہیں و ہ سب کی سب ڈاکٹر احمد العرفج کی کتاب سے لی ہیں۔ انہوں نے اپنی ایک اور کتاب ”الغثا ءالاحوی“ میں حرمت کے عجیب و غریب فتوﺅں کا انبار ذخیرہ کردیا ہے۔ آپ میرے اس کالم کو ڈاکٹر احمد العرفج کی مستند اور مدلل کتاب کی مفت مشہوری کے خانے میں رکھ سکتے ہیں۔
اگر کوئی شخص اس کالم میں مذکور فتوﺅں پر احتساب کا خواہاں ہو تو اسے مصنف کا احتساب کرنا چاہئے بلکہ ان سے اس کا انتقام لینا چاہئے۔انہیں دل بھر کر زدوکوب کرنا چاہئے۔ ان پر ذرا برابر بھی رحم نہیں کرنا چاہئے۔ اللہ ہی انہیں ہمت و حوصلہ دے۔ جہاں تک میرا تعلق ہے تو میں صرف نقل کا قصور وار ہوں اوراگر کسی نے میرے احتساب کی کوشش کی تو میں احتساب سے اسی طرح صاف طریقے سے باہر نکل آﺅں گا جیسا کہ آٹے سے بال نکل آتا ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭

شیئر: