Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مکہ مکرمہ کو اسمارٹ سٹی بنانے کا منصوبہ

عبداللہ محمد الشہرانی ۔ مکہ
مکہ مکرمہ اور مشاعر مقدمہ رائل اتھارٹی کے قیام کا فیصلہ سن کر اہل مکہ نے چین کا سانس لیا۔مقدس شہر کے باشندوں نے اسے اپنے شہر کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے حوالے سے شاہی عزم کا نمائندہ مان کر اپنے لئے بہت بڑی خوشخبری گردانا۔ انہیں احساس ہوا کہ سعودی قیادت حج اور عمرے سے تعلق رکھنے والے تمام مقامات کو جدید خطوط پر استوار کرنے کا پختہ عزم کرچکی ہے۔ مکہ مکرمہ شہر کو مثالی اور اسمارٹ سٹی بنانے کا پختہ جذبہ رکھتی ہے۔ اس سے مقدس شہر کے باشندوں اور اس کے زائرین کو وہ تمام خدمات عصری شکل میں میسر ہونگی جن کے وہ متمنی اور آرزومند ہیں۔ 
رائل اتھارٹی کونسل کا پہلا اجلاس شاہی فرمان کے اجرا ءکے چند روز بعد ہی منعقد ہوا۔ ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان نے اس کی صدارت کی۔ اجلاس میں اتھارٹی کے اسٹراٹیجک اہداف اور دیگر اہم موضوعات پر مباحثہ ہوا۔ انجینیئر عبدالرحمان فاروق عداس کواتھارٹی کا ایگزیکٹیو چیئرمین مقررکیا گیا۔ 
چند برس پہلے تک مکہ مکرمہ شہر کے موسم معروف تھے ، متعین تھے۔میری مراد اُن ایام سے ہے جب مکہ کی سڑکوں پر رش ہوتااور جن دنوں مکہ کے تمام ہوٹلز مسافروں سے بھرے ہوئے ہوتے تھے۔ اب صورتحال بدل چکی ہے۔ اللہ کا فضل و کرم ہے۔ اب سال کے 12مہینے مکہ مکرمہ زائرین سے آباد رہتا ہے۔ اس کا ایک پہلو نہایت خوشگوار ہے کہ مقدس شہر 12مہینے 24گھنٹے زائرین سے معمور ہے۔ دوسرا پہلو چیلنج والا ہے۔ مراد یہ ہے کہ ایسے عالم میں جبکہ شہر کا چپہ چپہ زائرین سے آباد ہو، ایسے عالم میں تعمیراتی منصوبوں کا نفاذ آسان نہیں رہتا ،مشکل ہوجاتا ہے۔ مستقبل پر نظر ڈالتے ہیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ آئندہ معتمرین اور حجاج کرام کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ ہوگا۔ عمرے پر آنیوالوں کی تعداد کا تخمینہ 30ملین اور حجاج کی تعداد کا اندازہ 40لاکھ تک کا ہے۔ یہ اعدادو شمار دیوہیکل منصوبوں کے طلبگار ہیں۔ میں یہاں صرف ایک منصوبے کا تذکرہ کرنا چاہونگا۔ ”منیٰ کی تعمیر نو، مکہ میٹرواور کنگ عبدالعزیز روڈ، نئے ہوٹلز وغیرہ وغیرہ“۔ یہ سارے منصوبے 12برس کے اندر اندر مکمل ہونے ضروری ہیں۔یہ کام پیشہ ورکارکن اور دیوہیکل ٹھیکیدار کمپنیاں ہی انجام دے سکتی ہیں۔ سب لوگ جانتے ہیں کہ مکہ مکرمہ شہر اپنے پہلومیں بہت ساری مسلم برادریوں کو سمیٹے ہوئے ہے۔ میری مرادعربوں، افریقیوں اور ایشیائی ممالک کے باشندوں سے ہے۔ یہاں یہ لوگ کئی عشروں سے کثیر تعداد میں آباد ہیں۔ ان میں سے بعض کی اپنے وطن واپسی تقریباً ناممکن ہے۔ میری تجویز یہ ہے کہ ان مسلم برادریوں سے منسوب افراد کو مکہ مکرمہ کے دیوہیکل منصوبوں کی تکمیل میں موثر کردار فراہم کیا جائے۔ بہتر ہوگا کہ نئے کارکن ، نئے ویزوں پر بلانے کے بجائے انہی لوگوں سے جو ہمارے ساتھ رہ رہے ہیں تعمیراتی منصوبوں کا کام لیا جائے۔ باہر سے مزید کارکن نہ بلائے جائیں۔ بیرون مملکت سے صرف ایسے افراد ہی درآمد کئے جائیں جو اعلیٰ درجے کی مہارت رکھتے ہوں اور اپنی فیلڈ میں نمایاں ہوں۔اس تجویز کو کامیاب بنانے کیلئے ضروری ہوگا کہ رائل اتھارٹی مکہ مکرمہ میں آباد مسلم برادریوں کیلئے پیشہ ورانہ تربیتی مرکز قائم کرے۔ اس مرکز میں مکہ مکرمہ کے منصوبوں کو درکار عملہ تیار کیا جائے۔ اتھارٹی کے ماتحت مرکز اور منصوبے نافذ کرنے والے ٹھیکیداروں کے درمیان یکجہتی ہو ۔ یہ مرکز روایتی مہارتیں رکھنے والے عملے کی تیاری کے چکر میں نہ پڑے ۔ یہ ایسے کورس کرائے جو نظریاتی نہ ہوں۔ یہ مرکز پلمبر، الیکٹریشن اور لوہار وغیرہ کے پیشوں کے ماہر تیار کرنے پر بھی اکتفا نہ کرے۔ وہ بھاری مشینری کے آپریٹرز اور ڈرائیورز بھی تیار کرے۔ صفائی کرنے والے، لفٹوں کے ٹیکنیشنز وغیرہ بھی تیار کرے ۔ ٹھیکیدار اور کام کرانے والے سرمایہ کار کو اس مرکز کا براہ راست فائدہ پہنچے گا۔ 
مسلم برادریوں کو معاشرے کے موثر طبقے میں تبدیل کرنے کے مثبت اثرات برآمد ہونگے۔ اقتصادی لحاظ سے بھی یہ عمل مفید ثابت ہوگا۔ ان لوگوں کو جو تنخواہیں دی جائیں گی وہ یہاں سے باہر نہیں جائیگی بلکہ یہ لوگ اپنی تنخواہ یہیں پر خرچ کرینگے۔ امن و امان کے لحاظ سے بھی یہ منصوبہ کار گر رہے گا۔ مالیاتی خود کفالت کے باعث جرائم کی شرح کم ہوگی۔ علاوہ ازیں ان لوگوں میں سعودی معاشرے سے وابستگی کا احساس بھی گہرا ہوگا۔
٭٭٭٭٭٭٭
 

شیئر: