Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

حج و عمرے کیلئے مشقت

علی الجحلی ۔ الاقتصادیہ
افغانستان کے معمر شہری نے عمرے کے لئے سرمایہ جمع کرنے کی شروعات اس وقت کی جب انکی عمر 80برس سے زیادہ ہوچکی تھی۔انہوں نے پیسے جمع کرنے کیلئے جس قدر محنت، مشقت کرسکتے تھے کی، انہوں نے عمارتوں کی تعمیر میں وزن ڈھونے کا کام کیا۔ مختلف بازاروں میں تعمیراتی سامان ایک جگہ سے اٹھا کر دوسری جگہ پہنچانے کا اہتمام کیا۔ انہوں نے سبزی منڈی میں ہتھ گاڑی چلائی۔ وہ تھک ہار کر رات کے آخری پہر اپنے گھر لوٹتے ۔ اچانک یاد آتا کہ انہوں نے ابھی کھانا تک نہیں کھایا تاہم تھکاوٹ کے باعث بھوکے ہی سوجاتے۔
انکے ذہن پر ایک ہی ہدف سوار تھا اور وہ یہ کہ کسی طرح وہ خانہ خدا کی زیارت کریں او راللہ کے گھر کاطواف کریں۔ مقام ابراہیم پر دوگانہ پڑھیں۔ صفا اور مروہ کی سعی کریں۔ یہ ہدف انہیں محنت، مشقت، بھوک پیاس ہر چیز کے آگے ہیچ لگتاتھا۔ عزم محکم او رعمل پیہم کے ساتھ وہ بیت اللہ شریف کی زیارت کیلئے مطلوب سرمایہ جمع کرتے رہے۔
آخر میں انہیں عمرہ ویزہ لگوانے کی ضرورت پیش آئی۔ سعودی قونصل خانے کے ایک اہلکار کو ان سے ہمدردی ہوگئی۔ انہوں نے وعدہ کیا کہ آپ جلد ہی حرم شریف میں ہونگے۔معمر افغانی کے قدم جونہی جدہ کے کنگ عبدالعزیز ایئرپورٹ پر پڑے وہ خوشی کے مارے اڑنے لگے۔ انکا کہناتھا کہ کاش میں پیدل چل کر ہی مکہ پہنچ جاﺅں۔ اب انہیں اپنے پیارے خانہ کعبہ پہنچنے سے کوئی طاقت نہیں روک سکتی تھی۔ نہ جانے کتنے برسوں سے وہ یہاں حاضری کا خواب دیکھ رہے تھے۔
معمر افغانی بالاخر مسجد الحرام پہنچ گئے۔ وہ خانہ کعبہ کی عظمت اور اسکی جلالتہ شان کا منظر دیکھ کر گرتے گرتے بچے۔ انہیں یقین نہیں آرہا تھا کہ وہ حرم شریف آچکے ہیں۔یہی وجہ تھی شاید وہ سونا بھی نہیں چاہتے تھے ۔ حرم شریف میں ہی ڈیرہ ڈالے ہوئے تھے۔ صرف وضو کیلئے باہر جاتے اور خانہ کعبہ کا طوا ف شروع کردیتے۔ وہ دن میں 2مرتبہ طواف کرتے۔ اگر سن رسیدگی حائل نہ ہوتی تو اس سے زیادہ بار طواف کا اہتمام کرتے۔
معمر افغانی کا یہ قصہ مکہ مکرمہ کی زیارت کیلئے آنے والے اسی طرح کے لاکھوں افراد کے قصوں میں سے ایک ہے۔ نہ جانے کتنے لوگ یہاں دن رات محنت ، مشقت اور زحمت کرکے خون پسینے کی کمائی کے بل پر ارض مقدس میں حاضری اور حضوری کا اعزاز حاصل کرتے ہیں۔ یہاں وہ اپنی زندگی کے خوبصورت ترین لمحات گزارتے ہیں۔ وہ پیسے ایک خاص شان سے جمع کرتے ہیں ۔ انکی انتہائی کوشش ہوتی ہے کہ ایک ، ایک پیسہ حلال کمائی کا ہو۔ ہر طرح کی آلودگی سے پاک ہو۔ کاش جب ہم لوگ خانہ کعبہ کا طواف کریں تو ہمارے پیش نظر یہ سارے حقائق ہونے چاہئیں۔ اس قسم کے حقائق کو پیش نظررکھ کر طواف کرنے کا لطف الگ ہی حاصل ہوتا ہے۔ اس طرح کے حقائق کی یاد ہمیں ایک دوسرے کے قریب کردیتی ہے۔ مذہب اسلام جن بنیادوں پر ہمیں ایک دوسرے سے ملاتا ہے اور ایک دوسرے کا ہمدم اور ہمساز بناتا ہے دنیا کی کوئی طاقت اس طرح سے نہ تو ہمیں جمع کرسکتی ہے او رنہ ہی ہمیں ایک دوسرے سے جدا کرسکتی ہے۔ سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ ہم اس احساس کیساتھ طواف کا اہتمام کریں کہ بیت اللہ شریف دنیا بھر کے مسلمانوں کے دلوں کا مرکز و محور ہے۔ جو لوگ اس طرح کے پاکیزہ دل سینوں میں لیکر مسجد الحرام پہنچتے ہیں انہیں تو اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق ایک دوسرے کے ساتھ محبت اور مودت کا بھرپور معاملہ کرنا ہی چاہئے۔
ہم سب کو اعتماداور محبت کے قلعے تعمیر کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ اگر ہم میں سے کسی کے حق میں کوئی غلطی ہوجائے تو ہم اس کی غلطی کا کوئی عذر اپنی طرف سے تراش کر اس کیساتھ عفو و درگزر کا معاملہ کریں۔ اللہ تعالیٰ نے مذہب اسلام کو میانہ روی کا علمبردار بنایا ہے۔ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ دین اسلام ہر لحاظ سے تمام مذاہب سے برتر ، بہتر ، افضل او رہر مذہب کے حوالے سے مہرکے درجے میں ہو۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 

شیئر: