Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

گھریلو ملازمین کی نگرانی کیوں ضروری؟

علی الشریمی ۔ الوطن
اندرون ملک پیش آنیوالے واقعات کی بابت ہم سعودی شہریوں کا رد عمل مخصوص طرز کا ہوتا ہے۔ ایک طریقہ تو ہمارے یہاں یہ رائج ہے کہ ہم لوگ واقعات پر مضحکہ خیز تبصروں اور نت نئے چٹکلے بنانے اور معاملات کو پھلجھڑیوں کی صورت میں اڑانے کی بڑی صلاحیت رکھتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر جاکر دیکھ لیجئے، آپ کو ہمارا یہ دعویٰ 100فیصدد رست نظر آئے گا۔ ممکن ہے حالات سے نمٹنے کا یہ طریقہ¿ کار اس حوالے سے بہتر ہوکہ ہم اپنے آپ سے مسلسل ٹکر لینے کی پوزیشن میں رہتے ہیں۔ ہم اپنے آپ پر نکتہ چینی کرکے غلطیوں کی اصلاح اور خامیوں کو ٹھیک کرپاتے ہیں ۔دوسرا طریقہ¿ کار ہمارے یہاں یہ رائج ہے کہ ہم کسی بھی غلطی کی ذمہ داری قبول نہیں کرتے۔ دوسروں کو غلطی کا ذمہ دار ٹھہرادیتے ہیں۔ اس حوالے سے ہم یہ دعویٰ بھی قبول کرنے میں قباحت محسوس نہیں کرتے کہ دنیا بھر کے لوگ ہدف بنائے ہوئے ہیں اور ہر ایک ہمارے اندر کیڑے نکالنے کے چکر میں پڑا رہتا ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ ہمارا یہ طریقہ¿ کار ٹھیک نہیں۔ اس کا نتیجہ تیلی کے بیل والا ہے۔ وہ صبح کے وقت جہاں سے اپنا سفر شروع کرتاہے شام تک اسی پوائنٹ پر گھومتا چلا جاتا ہے۔اس طریقہ کار کی وجہ سے ہم اپنی غلطیوں پر از خود تنقید کے تمام راستے مسدود کردیتے ہیں۔
میں آپ کو چند روز قبل ریاض شہر میں پیش آنے والے اُس بھیانک واقعہ کے تناظر میں اپنی بات سمجھانا چاہوں گا جس نے سعودی عرب کے پورے معاشرے کو ہلا ڈالا تھا ۔ واقعہ یہ تھا کہ ایتھوپیاکی ایک ملازمہ نے بچی کو ہلاک اور اس کے بڑ ے بھائی کو دھاردار آلہ سے زخمی کردیا تھا۔یہ واقعہ سوشل میڈیا پر گفت و شنید اور بحث و مباحثہ کا موضوع بنا۔ ہم لوگوں نے نہ صرف یہ کہ ایتھوپیا کی ملازمہ پر الزامات کے تیر برسائے بلکہ اسکی قوم کے لوگوں کو الزامات سے نواز دیا۔کسی نے کہا کہ ٹھوس ثبوت سے یہ بات معلوم ہوئی کہ ایتھوپیا کے لوگ تشدد برتتے ہیں اور یہ ان کے خمیر میں داخل ہے۔ یہ لوگ سعودی عرب سمیت خلیج کے کسی بھی ملک میں روزگار کیلئے موزوں نہیں۔بعض نے کہا کہ سچ تو یہی ہے کہ ایتھوپیا کے لوگ انسان ہی نہیں ہوتے۔ اسی طرح کے اور گھناﺅنے تبصرے ایتھوپیا اور اس کے باشندوں کے خلاف کئے گئے۔ حاصل تبصروں کا یہ تھا کہ ایتھوپیا کے لوگ انسان کہلانے کے حق دار نہیں۔
سوال یہ ہے کہ ہمارا اپنا کیا کردار ہے؟ہماری بچی نوال،جس کے ساتھ اللہ رحمت کا معاملہ فرمائے، وہ ہماری لاپروائی کی بھینٹ چڑھی ہے۔ میری مراد نوال کے خاندان سے نہیں بلکہ پورے سعودی معاشرے سے ہے۔ دراصل ہم لوگوں نے گھریلو ملازمین کی نگرانی کے حوالے سے کوئی قانون سازی نہیںکی، کوئی نظام نہیں بنایا۔ معاملے کا خاندان سے گہرا تعلق تھا اور ہے۔ پھر بھی اس بات کو نظر انداز کیا گیا۔ کہنے والا کہہ سکتا ہے کہ وزارت محنت نے گھریلو عملے اور مقامی شہریوں کے درمیان تعلقات کو منظم کرنے کیلئے واضح قوانین جاری کررکھے ہیں۔ میں ایسا کہنے والوں سے یہی کہونگا کہ یہ درست ہے کہ قانون بنائے گئے ہیں البتہ گھریلو ملازمین کی نگرانی کیلئے کوئی قانون نہیں بنایاگیا۔مثال کے طور پر گھریلو عملے کی جسمانی و ذہنی صحت مقررہ نظام الاوقات کے تحت دریافت کی جائے۔ اس کی رپورٹ لی جائے ، اچانک گھریلو عملے کے طبی معائنے کا کوئی اہتمام ہولیکن ایسا کچھ بھی نہیں۔ گھریلو عملہ پہلی بار سعودی عرب آتا ہے، تب اس کا طبی معائنہ کیا جاتا ہے اور سب کچھ اللہ پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ کس کو معلوم کہ ہمارے یہاں ایک لڑکی کا انتقال ہوا ، یہ بات بعید از امکان ہوسکتی ہے کہ وہ نشے کی عادی ملازمہ کی بھینٹ چڑھ گئی ہو۔ درپیش صورتحال کا تقاضا ہے کہ ماہانہ احتیاطی تدابیر اپنائی جائیں۔ مختلف ٹیسٹ کا بندوبست کیا جائے۔ ممکن ہے ملازمہ ذہنی امراض میں مبتلا ہوکر گھر کے افراد کو نقصان پہنچادے۔ میرے کہنے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ ہم لوگوں کو جذباتی اور غیر انسانی رد عمل سے بچنا ہوگا۔ نازیبا زبان اور دشنام طرازیوں سے چھٹکارا حاصل کرنا ہوگا۔ ٹھوس بنیادوں پر گھریلو مسائل حل کرنے ہونگے ورنہ کوئی دھماکہ خیز مسئلہ پیدا ہوگا تو اس پر ہم لوگ پُرجوش رد عمل دیکر دوبارہ لمبی تان کر سوجائیں گے ۔ آگے چل کر پھر اسی طرح کا بحران کھڑا ہوگا اور اسی طرح کا بے معنی رد عمل بحران کو طول دیتا رہے گا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
 

شیئر: