Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

باب المندب پر ایران کا حملہ

عبدالرحمن الراشد۔ الشرق الاوسط
ایرانی حکمراں عیاری او رمکاری میں درجہ امتیاز پرفائز ہیں۔ وہ اس حوالے سے عراق میں صدام حسین کے نظام حکومت سمیت دیگر تمام بدی کے نظاموں سے منفرد پہچان رکھتے ہیں۔ حوثیوں کی جانب سے بحر احمر میںآبنائے باب المندب پر حملہ صرف اور صرف ایرانی حملہ ہے۔ ایرانی حکمراں خلیج میں آبنائے ہرمز کی طرح پیٹرول منتقل کرنے والی تمام آبی گزر گاہوں کو مخدوش کرنے کے درپے ہیں۔ ایرانی حکمرانوںنے ہی یمن میں اپنے حوثی وظیفہ خواروں کو آبنائے باب المندب سے گزر نے والے آئل ٹینکر پر حملے کے لئے میزائل فراہم کئے ہیں۔
دوسری جانب ایران امریکہ اور خطے کے ممالک کو دی گئی اپنی دھمکی پوری کرنے میں بھی اس شان سے کامیاب ہوا کہ باب المندب سے گزرنے والے آئل ٹینکرز پر حملے کا براہ راست ذمہ دار ایرانیوں کو نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ وجہ ظاہر ہے کہ حملہ یمن کے حوثیوں نے کیا اور حوثیوں کے کئے پر ایرانیوں کا احتساب ممکن نہیں۔ سعودی عرب جیسے ملک نے بحر احمر کے راستے پیٹرول کی ترسیل بند کردی۔ اس طرح ایران جزوی طور پر خلیجی پیٹرول کی برآمد کو معطل کرنے کا ہدف حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا ہے۔ اس نے عالمی تیل منڈی میں انارکی کا ماحول برپا کردیا ہے۔
خطے میں ایران کے وظیفہ خوار مثال کے طور پر لبنان میں حزب اللہ ، غزہ میں حماس، عراق میں عصائب الحق اور یمن میں حوثی عملی طور پر ایران کی فوج کا حصہ ہیں۔ ایران ان پر بھاری رقمیں خرچ کررہا ہے۔ انہیں کئی عشرے سے اسلحہ بھی دے رہا ہے اور انہیں استعمال کی تربیت بھی۔ مغربی دنیا نے ایران کیساتھ لڑائی کے آغاز میں ایرانی کھیل سے نمٹنے کا جو طریقہ کار اختیار کیا وہ غلط تھا۔ خاص طور پر امریکہ اس کا بڑا قصور وار ہے۔ امریکہ ہی خطے میں سب سے زیادہ گھسا ہوا ہے۔ امریکہ ، ایران کے وظیفہ خواروں کے آگے جھک گیا اور انہیں خود مختار تنظیموں کے طور پر لیتا رہا۔ یہ الگ بات ہے کہ امریکہ کو یہ بات اچھی طرح سے معلوم تھی کہ یہ ساری تنظیمیں ایران سے مربوط تھیں۔ امریکہ ایران کیساتھ محاذ آرائی سے بچنے کیلئے آنکھیں موندیں رہا۔ اس نے چھوٹی چھوٹی تنظیموں کیساتھ محاذ آرائی کا سلسلہ قائم رکھا۔ لبنانی حزب اللہ نے جب اغوا کی وارداتیں کرکے بیروت میں 8ویں عشرے کے دوران متعد د امریکی شہریوں اور مغربی ممالک کے باشندو ںکو اغوا کرکے ہلاک کیاتو مغربی ممالک کی حکومتیں ایران اور شام کے حکمرانوں سے ثالثی کی درخواستیں کرتی رہیں۔ مغوی شہریوں کی رہائی کےلئے مساعی جمیلہ طلب کرتی رہیں۔ اس قسم کے تصرفات نے کھیل کے ضابطے کی غلط حکمت عملی طے کردی۔ اس صورتحال نے ایران کے اثر و نفوذ کو پختہ کردیا۔
ایران نے کبھی بھی اپنے جرائم کی قیمت نہیں چکائی۔ مغربی دنیا نے ایران کو اس حوالے سے جو سب سے زیادہ سزا دی وہ حزب اللہ کے بعض قائدین کی ہلاکت تھی۔ ایران کو یہ سودا مہنگا نہیں پڑا۔ اس نے ہلاک ہونے والوں کی جگہ نئے قائد میدا ن میں اتار دیئے۔ گزشتہ 30برس کے دوران تہران میں حقیقی جرائم کے تدبیر ساز نے کبھی کوئی قیمت نہیں چکائی۔ اگر اہل مغرب 8ویں اور 9ویں عشرے کے دوران وظیفہ خوار تنظیموں کی سرگرمیوں کا ذمہ دار براہ راست ایران کو ٹھہرا دیتے تو ایسی صورت میں حزب اللہ، حماس، الجہاد الاسلامی اور عصائب الحق وغیرہ جماعتیں مضبوط نہ ہوتیں۔ بیروت ہو یا الخبر یا پیرس وغیرہ جہاں بھی امریکیو ںاور مغربی شہریوں کو قتل کیاگیا۔ اس پر ایران کا کوئی احتساب نہیں ہوا۔ 
ایران مغربی یمن میں اب وہی کھیل دہرا رہا ہے جو اس نے جنوبی لبنا ن میں کھیلا تھا۔ جنرل قاسم سلیمانی کا یہ دعویٰ کہ وہ آبنائے ہرمزپر حملوں کیلئے تیار ہیں۔ اسی بات کی غمازی کررہا ہے۔ ایران اس وقت تک دہشتگردی کے پرچار ، انارکی پھیلانے ، لبنان، شام اور عراق میں مداخلت سے باز نہیں آئیگا تاوقتیکہ اسے یہ احساس نہ ہوجائے کہ اپنی وظیفہ خوار تنظیموں کی سرگرمیوں کی بھاری قیمت اسی کو چکانا پڑیگی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭

شیئر: