Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ٹرمپ اور سعودی عرب

***ڈاکٹر احمد بن عثمان التویجری ***
پچھلے دس دنوں میں صدر ٹرمپ نے 4مختلف مواقع پر سعودی عرب سے کہا ہے کہ وہ اس کی حفاظت کی قیمت ادا کرے ورنہ ایران منٹوں میں پورے خطے پر غالب آجائے گا ۔ در حقیقت صدر نے ان چاروں مواقع پر انتہائی غیر سفارتی طریقہ کار اختیار کیا۔ٹی وی پر ان کی تقاریر سن کر مجھے جرمن شاعر اور فلاسفر جوہن وولف گانگ یاد آئے جنہوں نے کہا تھا کہ کم علمی سے زیادہ کوئی چیز خطرناک نہیں ۔
صدر ٹرمپ کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے ایک لمحہ کیلئے میں نے سوچا کہ شاید وہ سعودی عرب کی بجائے اسرائیل سے مخاطب ہوں لیکن ایسا نہیں تھا۔لیکن خوش قسمتی سے سعودی عرب نے نہ تو انہیں اور نہ ہی ان کے مطالبات کو سنجیدگی سے لیا ۔ان کی تقاریر اور مطالبے مقامی  سیاسی مہم کیلئے محض پروپیگنڈہ ثابت ہورہے تھے ۔ تاہم میرے لئے اس بات کی وضاحت کرنا ضروری ہو گیا ہے کہ صدر نے سعودی امریکی تعلقات کی نوعیت کے بارے میں غلط ہی سمجھا ہے ۔ ٹرمپ نے مسی سیپی میں ایک انتخابی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں شاہ سلمان سے محبت کرتا ہوں لیکن انہیں کہتا ہوں کہ ہم آپ کی حفاظت کر رہے ہیں ۔ہمارے بغیر آپ کی حکومت 2ہفتے بھی نہیں چل سکتی ۔اس لئے آپ کو اس کی قیمت ادا کرنا ہوگی۔اس قسم کے لا علمی پر مبنی بیان کو سن کر ایک شخص سوائے ہنسنے کے اور کر ہی کیا سکتا ہے۔یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ پچھلے 70برس سے زائد عرصے سے سعودی عرب کا عظیم اتحادی امریکہ کا صدر اس امر پر یقین رکھتا ہے کہ امریکہ ان تمام برسوں میں سعودی فوج کے اخراجات اٹھا رہا ہے ۔ ان کے اس بیان سے یہ بات ظاہر ہو گئی کہ صدر کو سعودی امریکی تعلقات کے بارے میں بتانے کی ضرورت ہے اور یہ بھی بتانا ضروری ہے کہ اس حوالے سے قوم کیا قیمت ادا کر رہی ہے ۔ 
1933ء سے سعودی عرب امریکی اور تیل کمپنیوں کو ترجیح دیتا آرہا ہے اور وہ تیل کی تلاش کے سلسلے میں ایسی رعایتیں دے رہا ہے جس کی مثال ہی نہیں ملتی ۔ یہ کام اس وقت سے ہو رہا ہے جب  1933ء میں کیلیفورنیا  عرب اسٹینڈر آئل کمپنی قائم ہوئی تھی ۔پچھلے 7عشروں سے سعودی عرب امریکہ سے کھربوں ڈالر کا اسلحہ خریدتا رہا ہے اور اس نے اس کی باقاعدہ قیمت ادا کی ہے ۔ بلومبرگ نے 31مئی 2016ء کے اپنے شمارے میں تحریر کیا ہے کہ جولائی 1974ء میں صدر نکسن کے حکم پر وزیر خزانہ ولیم سائمن اور ان کے نائب گیری پارسکی نے سعودی عرب کا دورہ کیا تھا۔بلومبرگ کے مطابق ان کے اس مشن کا مقصد سعودی عرب کو اس امر پر قائل کرنا تھا کہ وہ اپنی پیٹرو ڈالر دولت کے ذریعے امریکہ کا بڑھتا ہوا خسارہ کم کرنے میں مدد دیں ۔ پارسکی کا کہنا ہے کہ نکسن نے یہ بات واضح کر دی تھی کہ تم دونوں کو خالی ہاتھ نہیں آنا کیونکہ ناکامی کی صورت میں امریکہ کی مالی حالت کو نقصان پہنچ سکتا ہے ۔ اس کے علاوہ سوویت یونین کو عرب دنیا میں مزید داخلے کا موقع مل سکتا ہے ۔ سعودی عرب اسی وقت سے امریکہ میں سب سے زیادہ سرمایہ کاری کرنیوالے ملکوں میں شامل ہوا ۔ سعودی کمپنیاں بھی انفرادی طور پر وہاں کام کر رہی ہیں ۔ سعودی عرب کئی عشروں سے تیل کی پیداوار کنٹرول کرنے میں اہم کردار ادا کرتا آرہا ہے تاکہ عالمی معیشت پر منفی اثرات مرتب نہ ہوں ۔ اس سے سب سے زیادہ فائدہ امریکہ کو ہی ہوا ۔ اس کے علاوہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ سعودی عرب نے تیل خریداروں کو پابند کیا کہ وہ ادائیگیاں صرف اور صرف امریکی ڈالر میں کریں ۔ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس پالیسی سے امریکی ڈالر اور امریکی معیشت کو کتنا زبردست فائدہ ہوا ہے ۔ 
سرد جنگ کے دوران سعودی عرب کی طرح کوئی بھی ملک امریکہ کے شانہ بشانہ کھڑا نہیں ہوا۔ درحقیقت 60،70اور80کے عشرے کے اوائل میں سعودی عرب نے سوویت یونین کی توسیع پسندانہ پالیسیوں سے ٹکر لینے کیلئے کتنا اہم کردار اداکیا ہے ۔ اگر سعودی عرب یہ کردار ادا نہ کرتا تو مکمل نہیں تو اسلامی دنیا کے بیشتر ملکوں پر کمیونزم اور سوویت یونین حملہ کر چکا ہوتا ۔ یوں وہ دنیا بھر میں امریکی مفادات کیلئے خطرہ بن جاتا اور شاید سوویت یونین کے حصہ بخرے بھی نہیں ہوئے ہوتے ۔ 
1979ء میں جب سوویت یونین نے افغانستان پر قبضہ کیا تو سعودی عرب واحد اتحاد ی ملک تھا جس پر امریکہ نے بھروسہ کیا کہ صرف ہی سوویت یونین سے ٹکر لے سکتا ہے ۔ سعودی عرب نے اس وقت جو عظیم کارنامے انجام دئیے ہیں اسے جانچنے کیلئے ایک انتہائی جدید ترین کیلکو لیٹر کی ضرورت پڑے گی ۔ نا صرف سعودی عرب نے مالی اور فوجی اعتبار سے قربانیاں دیں بلکہ سعودیوں نے جانی قربانیاں  دیں ۔سوویت یونین کے تسلط اور کمیونزم پھیلنے سے روکنے کیلئے ساری دنیا کو سعودی عرب کا شکریہ ادا کرنا چاہئے ۔
1990ء میں جب عراق نے کویت پر حملہ کیا تو اس خطے میں امریکی اور مغربی مفادات کو خطرات لاحق ہو گئے تھے ۔ یہ سعودی عرب ہی تھا جس نے اتحادی فوجیوں کا خرچہ اٹھانے میں سب کو مات دی۔ان اتحادیوں میں اکثریت امریکی فوجیوں کی تھی ۔جہاں تک دہشتگردی کے خلاف جنگ کا تعلق ہے سعودی عرب دنیا میں قائدانہ کردار ادا کر رہا ہے ۔ اس نے اخراجات بھی کئے اور کامیابیاں بھی حاصل کیں ۔ سعودی عرب کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی طرف سے پیشگی خبردار کرنے کی وجہ سے متعدد امریکیوں اور مغربی ممالک کے فوجیوں کی زندگیاں بچیں ۔ 
ابھی حال ہی میں سعودی عرب نے امریکہ کے ساتھ متعدد معاہدے کئے ہیں ۔ ان کی مالیت 450بلین امریکی ڈالر سے زیادہ ہو گی ۔ یہ اتنی بڑی رقم ہے کہ اس سے برسوں تک لاکھوں امریکیوں کو روزگار ملے گا ۔ جبکہ مشکل کے اس دور میں امریکہ کی مالی حالت بہتر ہو گئی ۔امریکی سعودی تعلقات کی پوری تاریخ میں جو تقریباً80سال کی بنتی ہے ۔ سعودی عرب کے دفاع میں کوئی ایک امریکی فوجی ہلاک نہیں ہوا اور نہ ہی امریکیوں نے کوئی ایک گولی چلائی ۔ دوسری طرف سعودی عرب نے امریکہ کی طرف سے امداد یا حمایت کے طور پر کوئی ایک پیسہ بھی وصول نہیں کیا ۔ 
یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ دنیا کے ایک بڑے سرمایہ کار ملک اورسرمایہ کار معیشت کے لیڈر نے سعودی حکومت اور او پیک سے تیل کی قیمت کم کرنے میں مداخلت کا مطالبہ کیا ۔ میں یہاں صدر ٹرمپ کو یاد دلائوں گا کہ کیپٹل ازم کا بنیادی ستون ہی ’’فری مارکیٹ‘‘ ہے ۔ 
بشکریہ وال اسٹریٹ (آرٹیکل تحریر کرنے والے ڈاکٹر احمد التویجری سعودی دانشور اور ماہر تعلیم ہیں ۔ وہ شوریٰ کونسل کے سابق رکن بھی ہیں )
 

شیئر: