Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نبی رحمت ﷺ ، سراپا عفو و درگزر

قرآن کریم گواہی دیتا ہے کہ اگر آپرحیم و کریم، شفیق و مہربان اورنرم خو نہ ہوتے تو یہ درشت مزاج عرب آپ سے قریب نہ ہوتے
* * * * ابوسفیان سعید ندوی۔ جدہ * * *

رسول اللہ کی مبارک زندگی میں عفو و درگزر ،رحم و کرم، محبت و شفقت اورپیار ہی پیارنظر آتاہے۔آپنے پوری زندگی کبھی کسی سے ذاتی انتقام نہیں لیا۔کسی پر ہاتھ نہیں اٹھا یا ۔ کسی کو برابھلا نہیں کہا ۔ام المومنین حضرت عا ئشہ صدیقہ ؓ9برس تک آپ    کی صحبت بارحمت میں رہیں ۔وہ ارشاد فرماتی ہیں:
    ’’ رسو ل اللہ کی عادتِ شریفہ کسی کو برا بھلا کہنے کی نہیں تھی ،آپ   برائی کے بدلے میں کسی کیساتھ برائی نہیں کرتے بلکہ اسے معاف فرمادیتے تھے ۔آپ کی زبان مبارک سے کبھی بھی کوئی غلط الفاظ نہیں نکلے ۔آپ   گناہو ں کی باتوں سے ہمیشہ کوسوں دور رہے ۔آپ   اپنی ذات کیلئے کسی سے انتقام نہیں لیا۔غلام ،لونڈی، عورت،بچہ یا خادم یہاں تک کہ کسی جانور کوبھی کبھی نہیں مارالیکن اگر کوئی حدود اللہ کی بے حرمتی کرتا تو نبی کریم اسے برداشت نہیں کرتے اور اس کا انتقام لیتے۔‘‘ ( مسلم ) ۔
          دشمنان ِاسلام کو معاف کردینا:
         عفو و درگزراور رحم وکرم کی اس سے بڑی مثال کیا ہوسکتی ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر رسول اللہ نے ان تمام دشمنوں کو معاف فرمادیا جنھوں نے چند ماہ نہیں متواتر 13سال تک مکہ میں آپ  پراور آپ کے صحا بہ کرامؓ پر عرصۂ حیات تنگ کررکھا ۔طرح طرح کی اذیتیں اور تکلیفیں پہنچائی تھیں۔ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے تھے اور آپ کو اپنا محبوب وطن چھوڑنے پر مجبور کردیا تھالیکن جب مکہ فتح ہوتا ہے تو نبی کریمہزاروں جانثار صحا بہ کرام ؓ کے جلو میں حمد باریٔ تعالیٰ کی نغمہ سرائی کرتے ہوئے سرزمینِ حرم میں داخل ہوتے ہیں ۔سب سے  پہلے بیت اللہ شریف تشریف لاتے ہیں،دوگانہ نماز ادا کرتے ہیں،اللہ رب العزت کا شکر ادا کرتے ہیں، صحنِ حرم دشمنانِ اسلام سے بھرا ہوا ہے۔ وہ سراسیمہ اور خوفزدہ ہیں کہ آ ج ہمارے تمام اگلے پچھلے برے کرتوتوں کا حساب کتاب چکایا جائیگا کہ اچانک آواز بلند ہوتی ہے:
    ’’ اے قریش کے لوگو!تم  سوچ رہے ہو کہ میں تمہارے ساتھ کیا معاملہ کرنے والا ہوں؟‘‘
    تمام لوگوں نے کہا : اے محمد()!تم سے ہم کو خیر اور بھلائی کی امید ہے اس لئے کہ تم ہمارے بہترین بھائی ہو اور ہمارے شریف بھائی کے فرزند ارجمندہو!۔
    اس کے بعدنبی رحمت محسنِ انسانیتنے ارشاد فرمایا :
    ’’آج تم لوگوں پر کوئی لعنت و ملامت نہیں، تم لوگ آزاد ہو۔ ‘‘
          اعتراض کرنے والے کو معاف کردینا:
        غزوئہ حنین میں صحا بہ کرام  ؓ کو وافر مقدار میں مالِ غنیمت ہاتھ آیا تھا۔نبی کریمنے بعض صحا بہ کرام کومصلحتازیادہ حصہ دیا۔ حضرت اقرع بن حابس ؓ اور حضرت عیینہ  ؓکو 100,100 اونٹ دیئے۔ایک صحابی ؓ کو اس تقسیم پر اعتراض ہوا اور انہوں نے کہا کہ میں اس تقسیم سے خوش نہیں ہوں۔انہوں نے حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ سے نبی کریم کے فیصلے کی شکایت کی۔ انہوں نے نبی کریم کو اس واقعہ کی اطلاع دیدی ۔ یہ سن کر نبی کریم نے ناراضگی کا اظہار نہیں فرمایابلکہ ارشاد فرمایا :
    ’’ اللہ اور اس کا رسول درست فیصلہ نہیں کرے گا تو آخر کون کرے گا؟اللہ تعالیٰـ حضرت موسیٰ پر رحم فرمائے کہ ان کو اس سے زیادہ اذیت اور تکلیف پہنچائی گئی لیکن انہوں نے صبر کا دامن نہیں چھوڑا۔ ‘‘
    کعب ابن زہیرؓ کو معاف کردینا:
    کعب بن زہیر اپنے بھائی (بجیربن زہیر )کے ہمراہ نبی کریمسے ملاقات کرنے مدینہ طیبہ آتے ہیں۔جب مدینہ منورہ کے قریب پہنچتے ہیں تو بجیر بن زہیر، کعب بن زہیر کو ایک مقام پر ٹھہراکر نبی کریم سے ملاقات کرنے تشریف لے جاتے ہیں۔وہ آپ سے ملاقات کرتے ہیں ۔ آپ انکو اسلام کی دعوت دیتے ہیں ۔ آپ کی نورانی تعلیمات سے وہ متاثر ہوکر حلقہ بگوش اسلام ہوجا تے ہیں۔جب کعب بن زہیر کو واقعہ کی اطلاع ہوتی ہے تو وہ برہم ہوجاتا ہے ۔ نبی کریم کی شانِ مبارک میں ہجویّہ اشعار لکھتاہے ۔نبی کریم کوجب اس کا علم ہوتاہے تو آ پ  اس کی گردن زدنی کا حکم فرماتے ہیں۔حضرت بجیرؓ نے خط لکھ کر کعب بن زہیر کو نبی کریمکے اعلیٰ اخلاق و خصائل سے آگاہ کرتے ہیں جن کو سن کر ان کے دل کی دنیا بدل جاتی ہے۔وہ اونٹ پر سوار ہوکر مدینہ منورہ آتے ہیں ۔ اونٹ کو مسجد نبوی شریف کے صحن میں کھڑاکرتے ہیں  اوررسالت مآبکی خدمت میں حاضر ہوکرقبول ِاسلام کا اعلان کرتے ہیں۔اپنا مشہور قصیدہ (بانت سعاد)کا نذرانۂ عقیدت پیش کرکے معافی کے طلبگار ہوتے ہیں۔ نبی کریم کی کریم ذات نہ صرف معافی کا پروانہ دیتی ہے بلکہ فرطِ مسرت میں اپنی ردائے مبارک انہیں عنایت فرمادیتے ہیں۔
      زہر دینے والی عورت کومعاف کردینا:
        خیبر کی یہودی عورت زینب بنت الحارث نے نبی کریمکی خدمت میں زہر آلود بکرے کا گوشت پیش کیا ۔آپنے نوالہ چکھ کر تھوک دیا۔آپنے صحابہ کرامؓ  کو حکم دیا کہ یہ گوشت کوئی استعمال نہ کرے اس لئے کہ یہ زہر آلود ہے۔اور آپنے یہودی عورت کوحاضر کرنے کا حکم فرمایا۔جب و ہ رسالت مآب کی خدمت میں حاضر ہوئی تو آپنے اس سے دریافت فرمایا کہ تم نے یہ حرکت کیوں کی۔اس نے جواب دیا کہ میں آزمانا چاہتی تھی کہ آپ واقعی اللہ کے نبی ہیں یا نہیں؟اگر آپ واقعی اللہ کے نبی ہیں تو اللہ تعالیٰ آپ کواس کی اطلاع دیدیںگے اور اگر آپ جھوٹے ہیں توہم لوگوں کو آپ سے راحت مل جائیگی۔حضرت ابوہریرہؓارشاد فرماتے ہیں کہ اس عورت پر آپ نے ذرا بھی ناراضگی کا اظہار نہیں فرمایا اور اس کو معاف فرمادیا۔
      حاتم طائی کی صاحبزادی کو معاف کرنا:
        ایک جنگ میں کئی لوگ قید ی بناکر لائے گئے۔ ان میں سخاوت و فیاضی میں مشہور زمانہ حاتم طائی کی صاحبزادی’’ طی‘‘ بھی تھی۔ جب اسے رسالت مآب کی خدمت میں لایا گیا تو اس نے کہا :اے محمد()!کیا تم جانتے ہو میں کون ہوں؟میں عرب کے مشہور قبیلے کے سردار کی صاحبزادی ہوں۔ میرا باپ سخاوت و فیاضی میں ممتاز تھا،وہ بھوکوں کو کھانا کھلاتا تھا ،ننگوں کو کپڑا پہناتا تھا ،حاجت مندوں کی حاجتیں پوری کرتا تھا،اس نے اپنی زندگی میں کبھی بھی کسی ضرورت مند کوواپس نہیں کیااور کوئی سائل اسکے در سے خالی ہاتھ نہیں لوٹا۔نبی کریمنے جب یہ خوبیاں سنیں تو فرمایا کہ یہ اعلیٰ صفات تواہل ایمان کی ہیں۔اگر تمہارا باپ مسلمان ہوتا تو وہ بڑا نیک اور متقی انسان ہوتا۔  اس کے بعد آپ نے ارشاد فرمایا :
    ’’ اس کو رہا کردیا جائے کہ اس کاباپ حسن ِاخلاق و عادات کا مالک تھا۔‘‘
    جب اسے رہا کردیا گیا تو وہ نبی کریم کے مکارمِ خسروانہ سے متاثر ہوکراپنے بھائی کے ساتھ مشرف باسلام ہوگئی۔
     مسجد کے تقدس کو پامال کرنے والے کو معاف کرنا:
       نبی کریم اور صحابہ کرامؓ  مسجدِنبویؐ میں تشریف فرماہیں۔ ایک دیہاتی مسجد میں داخل ہوکر مسجد کے تقدس و حرمت کو پامال کردیتا ہے ۔وہ صحنِ حرم میں پیشاب کرنے بیٹھ جاتا ہے۔ صحا بہ کرامؓ یہ دیکھ کر سخت ناراض ہوکر اسے مارنے پیٹنے کی کوشش کرتے ہیں۔ نبی کریم   صحا بہ کرامؓ کوایسا کرنے سے منع کرکے ارشاد فرمایا: اسے چھوڑ دو اور پیار سے سمجھاؤ کہ مسجداللہ کا گھر ہے، عبادت کی جگہ ہے ،قابل احترام ہے، یہاں بول وبراز نہیں کرتے اورفرمایا جس جگہ اس نے پیشاب کیا ہے اس جگہ پر پانی بہا دو۔اس کے بعدصحابہ کرامؓ کو جمع کرکے نصیحت کی کہ ہمیں حسنِ اخلاق اور حسنِ کردار کا مظاہرہ کرنا چاہئے، آسانیاں پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے،دشواریاں اور مشکلات پیدا کرنے گریز کرنا چاہئے ۔
     چچا کے قاتل کو معاف کردینا:
        نبی کریم کے پیارے چچاسیدنا حمزہ ؓ غزوئہ احد میں نہایت جرأت و دلیری سے کفارو مشرکین کا مقابلہ کررہے تھے ۔ میدانِ جنگ میں جس طرف بھی رخ کرتے دشمنوں کے کشتوں کے پشتے لگ جاتے ۔ جبیر بن مطعم کا حبشی غلام وحشی بن حرب آزادی حاصل کرنے اور اپنے آقا کو خوش کرنے کیلئے سیدنا  حمزہؓکا تعاقب کررہاتھا کہ اچانک اس نے پیچھے سے چھپ کر حملہ کردیا اور نیزے سے ایسی کاری ضر ب لگائی کہ حضرت حمزہؓزمین پر گر پڑے اور جام شہادت نوش فرمایا لیکن یہی وحشی جب 8ہجری میں طائف کے ایک وفد کیساتھ مشرف بہ  اسلا م ہونے مدینہ منورہ آئے اور نبی کریم کواس کی اطلاع دی جاتی ہے تو ارشاد فرمایا:
    ’’ اسے آنے دو،ایک شخص کا مسلمان ہونامیرے نزدیک ہزار کافروں کے قتل سے بہتر ہے۔‘‘
    یہ فرماکر اس کی تمام غلطیوں کو معاف کر کے اسکا اسلام قبول فرمالیتے ہیں۔ اسے نصیحت کرتے ہیں:
    ’’اے وحشی! بے شک تم دائرۂ اسلام میں داخل ہو گئے ہولیکن ممکن ہو تو میرے سامنے مت آیاکرواس لئے کہ تم کو دیکھ کر پیارے چچاکی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔‘‘
     ہندہ کو معاف کردینا:
         سید الشہداء حضرت حمزہ ؓنے جنگ بدر میں ہندہ کے باپ عتبہ کو واصل جہنم کیا تھا۔ہندہ  نے اپنے باپ کا انتقام لینے کی قسم کھائی تھی ۔جنگ احد میں وہ  اپنے شوہر ابوسفیان بن حرب کے ساتھ شریک تھی اور اپنے جنگجوؤں کو رمزیہ اشعار پڑھ کر ہمت اور حوصلہ بڑھارہی تھی۔ جب اسے معلوم ہوا کہ سید الشہداء حضرت حمزہؓنے جامِ شہادت نوش فرمالیا ہے تو نعشوں کو تلاش کرتی ہوئی حضرت حمزہؓ کے پاس پہنچی اور انتہائی بے دردی سے ان کا پیٹ اور سینہ چاک  کرکے غیظ وغضب کی حالت میں کلیجہ چباکر نگلنے کی کوشش کرتی ہے اور خوشی میں سیدنا  حمزہؓ کے قاتل وحشی ابن حرب کو اپنے گلے کاقیمتی ہار دے دیتی ہے ۔ اس کا  ہر عمل اس بات کا تقاضا کررہا تھا کہ اسے سخت ترین سزا دی جائے لیکن جب وہی سنگدل ہندہ فتح مکہ کے موقع پر رسالت مآب کی خدمت میں حاضر ہوتی ہے تو اسکے تمام خطائوں کو معاف کردیا جاتا ہے اور دامنِ اسلام میں پناہ دے دی جاتی ہے۔
 طائف کے سردار عبد یالیل کے بیٹے کو معاف کرنا:
        یہ وہی طائف کے سردارعبد یالیل کا سپوت ہے جسکے ظالم وجابر باپ نے محسنِ انسانیت کیساتھ غیرانسانی و غیر اخلاقی سلوک کیا تھا اور نہ صرف نبیٔ رحمتکی باتیں سننے سے انکار کیاتھا بلکہ آپ کا مزاق اڑایاتھا ،آپ  کو ذلیل کیا تھا،مظالم کے پہاڑ توڑے تھے لیکن جب وہ وفد کیساتھ مدینہ آیا تو نبی رحمت کواسکی اطلاع دیجاتی ہے۔ آپ نے مسرت و شادمانی کا اظہار فرماتے  ہوئے آگے بڑھ کراسکا استقبال کیا،صحنِ حرم میں اسکے قیام کاانتظام فرمایا۔ اسکو آرام و راحت بہم پہچانے کی ہر ممکن کوشش  کی ۔ روزانہ آپ   اسکے خیمے میں تشریف لیجاتے، خیریت دریافت کرتے اور طائف کی دلدوز داستان سناتے ہیں۔بالآخر اسے معافی کا پروانہ دے کردائرئہ اسلام داخل فرماتے ہیں۔ یہ ہے آپ کا فرمان کہ:
     ’’اپنے دشمن کو پیار کر اور اسے معاف کرو۔ ‘‘
    ابوسفیان بن حرب کو معاف کردینا:
        یہ ابوسفیان کون ہیں ؟۔ عرب کے جنگجو’’ حرب‘‘ کا بیٹاہے جس نے سرورِکائنات   اور آپ کے ستودہ صفات اصحاب  ؓ کو ایذائیں پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی ۔اسلام کا نام مٹانے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگادیا تھا۔جنگ بدر ،غزوئہ احداور غزوئہ خندق سمیت کئی جنگوں کا ہیرو اور سرغنہ تھااور کتنے اہل ِایمان کے خون سے اپنے دامن کو داغدار کیاتھا ۔ کتنی بار خود سرورِکائنات   کو قتل کرنے کی سازشیں کی تھیں۔اسکاہر جرم اورہر گناہ منہ پھاڑ کر گواہی دے رہا تھاکہ اسے ایک لمحہ کیلئے بھی برداشت نہ کیا جائے اور سرِعام سزا دی جائے ۔ ابو سفیان حضرت عباس ؓ کیساتھ نبیٔ رحمت اور محسنِ انسانیت کی خدمت میں سراسیمہ اور خوفزدہ حاضر ہوتے ہیں ۔نبی کریم تسلی اور اطمینان دلاتے ہیں :
    ’’ اے ابوسفیان!ڈرو مت!تم سے کوئی انتقام نہیں لیا جائیگا۔تمہارا کوئی مواخذہ نہیں ہوگا ۔‘‘
    اور ابو سفیان کے تمام خطائوں کو نہ صرف معاف کردیا جاتا ہے بلکہ ارشاد ہوتا ہے:    ’’جو ابو سفیان کے گھر میں پناہ لے گا وہ مامون اور محفوظ ہے۔‘‘
    یہ محبوب آقا،پیارے رسول ،نبی آخرالزماںکے عفوو درگزر،رحم وکرم ،شفقت و محبت اور نرم دلی کے متعلق مختصر وضاحت ہے ورنہ نبی کریم کی پوری زندگی عفو و درگزر ، تواضع و انکساری ،رحم و کرم ، محبت و شفقت اور عجز و نیاز سے عبارت ہے ۔ سفینہ چاہیے اس بحر بیکراں کے لئے ۔
    قرآن کریم گواہی دیتا ہے کہ اگر آپرحیم و کریم، شفیق و مہربان اورنرم خو نہ ہوتے تو یہ وحشی اور درشت مزاج عرب آپ سے قریب نہ ہوتے، ارشاد ربانی ہے:
    ’’اللہ تعالیٰ کی عنایت اور رحمت سے آپؐ  ان کیلئے نرم ہیں، اگر آپ کج خلق اور سخت مزاج ہوتے تو یہ (لوگ جو آپ کے گرد جمع ہوئے ہیں ) آپ کے پاس سے ہٹ جاتے۔‘‘
        دوسری جگہ ارشاد ہے:    ’’  تم  میں سے ایک پیغمبر آیا جس پر تمہاری تکلیف بہت شاق گزرتی ہے،وہ تمہاری بھلائی اور اچھائی کا خواہاں ہے اور ایمان والوں پر نہایت شفیق اور مہربان ہے۔‘‘
    اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریمکے اخلاقِ کریمانہ کی ترجمانی کی ہے۔چند صحابہ کرامؓام المومنین حضرت عائشہؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ نبی کریم کے اخلاق کیسے تھے، حضرت عائشہ   ؓنے فرمایا: کیا تم نے قرآن نہیں پڑھا؟{کان خلق رسول اللہالقرآن}’’آپ کا اخلاق ہمہ تن قرآن تھا۔  ـ  ‘‘

مزید  پڑھیں:- - - -باہمی کفالت ، مواخات کی روح

شیئر: