Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

حکمراں اتحاد میں بھگدڑ

***معصوم مراد آبادی **
پانچ اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کی شرمناک شکست کے بعد این ڈی اے میں شامل پارٹیوں کو اپنا مستقبل تاریک نظر آنے لگا ہے۔ گزشتہ چند روز کی سیاسی سرگرمیوں کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ این ڈی اے میں بھگدڑ مچنا شروع ہوگئی ہے۔ جن پارٹیوں کو 2019 کے عام انتخابات میں بی جے پی کی شکست کی آہٹ محسوس ہونے لگی ہے، انہوں نے محفوظ ٹھکانوں کی تلاش شروع کردی ہے۔ ان میں وہ پارٹیاں پیش پیش ہیں جو 2014 کے عام انتخابات میں مودی لہر پر سوار ہوکر کامیابی سے ہمکنار ہوئی تھیں۔ اب جبکہ مودی کا طلسم ٹوٹنا شروع ہوا ہے تو انہوں نے اپنی راہیں الگ کرنا شروع کردی ہیں۔ سب سے پہلے راشٹریہ لوک سمتا پارٹی نے این ڈی اے سے ناتہ توڑ کر کانگریس کی قیادت والے یوپی اے میں شمولیت اختیار کرلی ہے۔اپنے لیڈر اوپندر کشواہا کی قیادت میں یہ پارٹی بہار میں بی جے پی کو ٹکر دینے کے لئے عظیم اتحاد کا حصہ بن گئی ہے۔ اوپندر کشواہا کے بعد لوک جن شکتی پارٹی کے صدر رام ولاس پاسوان نے سیٹوں کی تقسیم کے سوال پر بی جے پی کو آنکھیں دکھانا شروع کردی ہیں۔ انتخابات میں ہار جیت کا کھیل کوئی نیا نہیں ہے ملک میں جب سے جمہوریت کی داغ بیل پڑی ہے تب سے ہر سال کسی نہ کسی صوبے میں چناؤ آتا ہے۔ لیکن بعض انتخابات ایسے ضرور ہوتے ہیں جن پر ملک کے سیاسی مستقبل کا دارومدار ہوتا ہے اور لوگ ان کے نتائج کا سانسیں روک کر انتظار کرتے ہیں۔ مدھیہ پردیش، راجستھان ، چھتیس گڑھ ، میزورم اور تلنگانہ اسمبلیوں کے انتخابات اس اعتبار سے اہمیت کے حامل تھے کہ ان پر 2019 کے عام انتخابات کا رجحان طے کرنے کی ذمہ داری تھی۔ ان انتخابات کو سیمی فائنل بھی کہاجارہاتھا اور جو پارٹی سیمی فائنل میں کامیاب ہوتی ہے، وہی فائنل میں فتح کا پرچم لہراتی ہے۔ حالانکہ یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ حکمراں بی جے پی کو ان اسمبلی انتخابات میں شکست وریخت کے جس مرحلے سے گزرنا پڑا اس کا سلسلہ آئندہ لوک سبھا انتخابات تک باقی رہے گا تاہم اتنا ضرور ہے کہ ان اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کی کراری شکست نے سیاسی ماحول تبدیل کردیا ہے۔ وہ لوگ جو وزیراعظم نریندرمودی کو ناقابل شکست قرار دے رہے تھے، اب خاموش نظر آتے ہیں۔ بی جے پی صدر امت شاہ کا خمار بھی اتر گیا ہے۔ ان پانچ اسمبلی انتخابات میں حکمراں بی جے پی کو صفر پر صبر کرنا پڑا ہے۔ حالانکہ اس نے چناؤ جیتنے کے لئے اپنے سارے ہتھکنڈے استعمال کئے تھے۔ یوں تو بی جے پی کو تلنگانہ اور میزورم میں کامیابی کا یقین نہیں تھا لیکن اسے راجستھان ، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں کامیابی کا پورا یقین تھا، جہاں وہ پچھلے 15 سال سے مسلسل اقتدار میں تھی لیکن انتخابی نتائج آنے کے بعد بی جے پی کے یہ تینوں مضبوط قلعے بھی منہدم ہوگئے۔ بی جے پی کو سب سے بڑی شکست کا سامنا چھتیس گڑھ میں کرنا پڑا جہاں وہ 90 رکنی اسمبلی میں صرف 15 سیٹوں تک سمٹ گئی ہے۔ راجستھان اور مدھیہ پردیش میں حالانکہ اس نے کانگریس کے ساتھ سخت مقابلہ آرائی کی لیکن وہ اکثریت کے جادوئی ہندسے تک نہیں پہنچ پائی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مدھیہ پردیش میں کانگریس اور بی جے پی دونوں کو ہی تقریباً 41فیصد ووٹ ملے لیکن کانگریس 15سیٹوں سے بازی مار لے گئی۔ اسی طرح راجستھان میں بھی کانگریس اور بی جے پی کے ووٹوں کا فیصد تقریباً برابر ہے لیکن وہاں کانگریس نے بی جے پی سے 26سیٹیں زیادہ حاصل کی ہیں۔ ان انتخابی نتائج کا سب سے بڑا فائدہ کانگریس صدر راہل گاندھی کو ہو اہے جن کی امیج اب تبدیل ہوگئی ہے۔ انہوں نے صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات جیتنے کے لئے خاصی مشقت کی تھی۔ اب لوگ انہیں ایک سنجیدہ لیڈر کے طور پر قبول کررہے ہیں۔ جولوگ ابھی تک کانگریس کے تعلق سے گومگو کی کیفیت میں تھے، وہ راہل گاندھی کی قیادت پر اعتبار کرنے لگے ہیں۔ یہ عجیب اتفاق ہے کہ 11دسمبر کو جب ہندی خطے کی تین اہم ریاستوں میں کانگریس کامیابی سے ہمکنار ہوئی تو یہ وہی دن تھا جب ایک سال قبل راہل گاندھی نے بطور کانگریس صدر کے اپنی باری شروع کی تھی۔ عوام نے بطور کانگریس صدر انہیں پہلی سالگرہ پر بڑے تحفے سے نوازا ہے۔ 
بی جے پی نے ان اسمبلی انتخابات کو جیتنے کے لئے ہندتو کے ایجنڈے کو سامنے رکھا تھا ۔ ایک طرف جہاں پولنگ سے قبل ایودھیا کے ماحول کو گرم کیاگیا تو وہیں دوسری طرف یوپی کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کو پوسٹر بوائے کے طورپر میدان میں اتارا گیا۔یوگی نے تلنگانہ میں اویسی برادران کو دربدر کرنے کی دھمکی بھی دی لیکن جب نتائج برآمد ہوئے تو جہاں جہاں یوگی نے انتخابی مہم چلائی تھی، وہاں بیشتر حلقوں میں بی جے پی چناؤ ہار گئی۔  ہندو کارڈ کھیلنے میں کانگریس نے بی جے پی کا تعاقب کیا۔ بی جے پی کے گرم ہندتو کے مقابلے میں کانگریس نرم ہندتو کی راہ پر گامزن نظر آئی۔ راہل گاندھی اپنی ہر انتخابی یاترا میں مندروں کا دورہ کرتے رہے۔ اس سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ بی جے پی نے کانگریس کو ہندتو کی راہ پر ڈالنے کی جو کوشش کی تھی، وہ اس میں کامیاب رہی ہے۔ کیونکہ بی جے پی ہندتو کو ہی قومی سیاست کا محور بنانا چاہتی ہے اور کانگریس اس معاملے میں پوری طرح بی جے پی کے دام فریب میں آچکی ہے۔ افسوس کہ کانگریس نے سیکولرزم کے اس اصول سے دوری اختیار کرلی ہے جو اس پارٹی کی بنیادی روح ہے۔ کانگریس کے بنیاد گزاروں نے اسے سیکولرزم کے جن اصولوں کا پابند بنایا تھا پارٹی اس سے کافی دور جاچکی ہے اور یہ اس کی ایسی بھول ہے جو مستقبل میں اسے مزید آزمائشوں سے دوچار کرسکتی ہے۔ 
 

شیئر:

متعلقہ خبریں