Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اسلام کے قانونِ وراثت کا امتیاز

اسلام نے عورتوں کو آج سے 15صدی قبل ہی ان کے حقوق اد اکئے، ان کے میراث کی حفاظت کی جبکہ وہ سابق میں اس سے محروم تھیں
 مولانا نثار احمد حصیر القاسمی۔حیدرآباد دکن
اسلام اللہ تعالیٰ کا اتارا ہوا اور اس کا پسندیدہ دین اور مذہب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ان الدین عند اللہ الاسلام  ۔ اسلامی شریعت رب العالمین کا بنایا ہوا قانون ہے، جو انسانوں کے مزاج اور قیامت تک آنے والے فرد بشر کے احوال واسرار سے واقف ہے۔ وہ جانتا ہے کہ انسان کیلئے کیا بہتر ہے اور کیا بُرا ہے۔وہ ہر قوم وجماعت اور ہر سماج کے افراد کے مصالح ومفاد سے باخبر ہے۔ اس نے انسانوں کے صلاح وفلاح کیلئے ہی قوانین وضع کئے ہیں۔ دیگر مسائل کی طرح شریعت اسلامیہ نے وراثت کے مسئلہ کو بھی بڑی تفصیل کے ساتھ بیان کیا اور بتایا ہے کہ میت کے ترکہ کے ساتھ کیا کیا جائیگا اور کس طرح اس کا اسلام نے ایک نہایت مضبوط ومنظم سسٹم بنایا ہے۔ اس کا موازنہ اگر دوسرے مذاہب وادیان اور دیگر قوموں کے نظام وراثت سے کیا جائے تو اس سے بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ اسلام کا قانون وراثت امتیازی شان رکھتا ہے، جس کی کوئی ہمسر ی نہیں کر سکتا۔ہر قانون کے اندر افراط وتفریط اورکھوٹ نظر آئیگا مگر اسلام کا قانون نہایت متوازن ومعتدل نظر آئے گا، جس میں نہ افراط ہے نہ تفریط، نہ کھوٹ ہے نہ خامی، یہ حق وصداقت ، حکمت ومصلحت، عدل وانصاف اور توازن وزمینی حقائق سے ہم آہنگ ہے، جس میں ہر ایک کے حقوق کو ادا کرنے کا پورا پورا لحاظ رکھا گیا ہے۔ آگے ہم اس کی تفصیل اختصار کے ساتھ پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
    سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ اسلامی شریعت نے وارث ومورث کے حقوق کی حفاظت میں توازن واعتدال کو ملحوظ رکھا ہے۔شارع نے انسان کی تکریم کا جس طرح حالت حیات میں خیال رکھا ہے، اس کے مرنے کے بعد بھی اس کا خیال رکھا ہے، اسی لئے سب سے پہلے اس کی تجہیز وتکفین پر توجہ کی گئی اور ترکہ میں اس کو سب سے مقدم رکھا گیا ہے۔اس کے بعد اس پر جو قرض ہے اس کی ادائیگی کا حکم دیا گیا ہے، اور یہ سب کچھ ترکہ میں سے خرچ کرنے کیلئے کہا گیا ہے،۔اسے وصیت ومیراث پر اس لئے مقدم رکھا گیا ہے تاکہ وہ اس دنیا سے اس حال میں جائے کہ اسے لوگ خوبیوں کے ساتھ یاد کریں(احکام المیراث فی الشریعۃ)۔
     اسی طرح انسان جب تک زندہ ہے اسے اپنے مال میں تصرف کرنے کا مکمل حق واختیار دیتا ہے، اسے حق ہے کہ وہ جس کے لئے چاہے وصیت کرے اور نیکی وعمل صالح میں جو اس سے کوتاہی ہوئی ہے وہ اس کی صدقہ وخیرات اور دادودہش کے ذریعہ تلافی کرے۔ اسے بس اس سے روکا گیا ہے کہ وہ وارث بننے والوں پر آخری وقت میں ظلم وزیادتی نہ کرے۔ اگر وہ ظلم وزیادتی سے بچتے ہوئے اپنے مال میں تصرف کرتا ہے اورصدقہ وخیرات کے ذریعہ مافات کی تلافی کرتا ہے تو اسلامی شریعت نے اس کا احترام کیا اور اسے نافذ کیا ہے تاہم اس میں اتنی شرط رکھی گئی ہے کہ اس کی وصیت ایک تہائی کے اندر ہو، اگر اس سے زیادہ کردے تو زائد کو نافذ نہ کرتے ہوئے اسے وارثین کا حق شمار کیا گیا ہے۔یہ اس وجہ سے کہ وارثین کو وہ نقصان نہ پہنچا سکے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
    مِنْ بَعْدِ وَصِیَّۃٍ یُوْصٰی بِہَآ أَوْدَیْْنٍ غَیْْرَ مُضَآرٍّ، وَصِیَّۃً مِّنَ اللّٰہِ (النساء12)۔
    "اس وصیت کے بعد جو کی گئی ہو، یا ایسے قرضے کے بعد جو ادا کرنا ہو، بغیر کسی کو نقصان پہنچانے ۔"
    اسی طرح اسلام نے جس طرح مورث کے ارادوں اور خواہشات کا احترام کیا ہے، اسی طرح دیگر اقوام عالم کے قانون کے برخلاف وارثین کے حقوق کی حفاظت بھی کی ہے، اس کے بر خلاف بعض دوسری قوموں کے اندر مورث کو مکمل اختیار حاصل ہوتا ہے اوروہ اپنے مال میں تصرف کرنے کا آخری دم تک پورا پورا مالک ہوتا ہے، اسے اختیار ہوتا ہے کہ وہ چاہے تو اپنے پورے مال کی وصیت جس کے لئے چاہے کرے، جتنا چاہے کرے، وارثین میں سے وہ جسے چاہے محروم کر دے، اور جسے چاہے جتنا نوازدے۔آج بھی رومیوں یونانیوں اور یہودیوں میں اسی طرح کا قانون ہے، بلکہ آج تو ایسی بھی قومیں ہیں کہ ان میں مورث کو اختیار حاصل ہوتا ہے کہ وہ اپنے مال کے ایک ایک پائی کی وصیت کسی کیلئے کر دے بلکہ جانوروں کیلئے بھی چاہے تو کر سکتا ہے، اس کے بالمقابل دوسری قومیں ہیں، جو صاحب مال وجائیداد مورثین کو کوئی اختیار دینے کیلئے تیار نہیں۔وہ سمجھتے ہیں کہ مرنے والامورث اپنے ترکہ میں کچھ کرنے کا یا اثر انداز ہونے کا قطعی کوئی اختیار نہیں رکھتا بلکہ وارث وہ ہوگا جو ان میں طاقتور ہوگا۔
    اسی طرح حصوں کی تقسیم اور وارثین کے تعیین میں بھی شریعت اسلامیہ نے بڑے توازن اور دقت نظر کو ملحوظ رکھا ہے۔ یہ ایسا فریضہ ہے جو وارث کی ملکیت میں اس کے اختیار اور جدوجہد اور کاوش کے بغیر ہی داخل ہو جاتا ہے، خواہ وہ چاہے یا نہ چاہے۔اللہ تعالیٰ نے خود ہی ترکہ کے مستحقین کو بیان کیا اور اسے ان پر کس طرح تقسیم کیا جائے اسے بھی خود ہی واضح کر دیا ہے، جو نہایت عدل وانصاف پر قائم ہے، اس کی تقسیم کو مورث یا وارث کے اوپر نہیں چھوڑا ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
    آبَآؤُکُمْ وَأَ بْنَآؤُکُمْ لاَ تَدْرُوْنَ اَ یُّہُمْ أَقْرَبُ لَکُمْ نَفْعاً (النساء11)۔
    "تم نہیں جانتے کہ تمہارے ماں باپ اور تمہاری اولاد میں سے کون فائدے کے لحاظ سے تمہارے زیادہ قریب ہے۔"
    اس تقسیم میں قرابت ورشتہ داری، ضرورت واحتیاج، مصلحت ومفاد اور عدل وانصاف جیسی ساری باتوں کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔ ہمیں یہ ذہن میں رکھنا چاہئے کہ اسلام نے اپنے مالیاتی ومعاشی قوانین میں اس بات کی کوشش کی ہے کہ رأس المال اور سرمایہ ایک یا چند ہاتھوں میں سمٹ کر نہ رہ جائے، کہ چند لوگ ہی اس کے اندر الٹ پھیرکرتے رہیں اور وہی ملک کی قسمت کا فیصلہ کرنے لگیں۔ اپنی دولت کے سہارے جسے اقتدار پر بٹھانا چاہیں بٹھائیں، اور جسے چاہے گراد یں، جیسا کہ امریکہ اور بعض دوسرے سرمایہ دار ملکوں میں ہے اور اب خود ہندوستان میں یہی ہو رہا ہے۔اسلام کی کوشش یہ رہی ہے کہ سرمایہ چند ہاتھوں میں اس طرح سمٹ نہ جائے کہ دوسرے اور عوام الناس محروم رہیں۔ وہ طبقاتی تناؤ وتضاد کی مخالفت کرتا اور سماجی انصاف کے قیام کی کوشش کرتا ہے تاکہ معاشی معیار اور اقتصادی سطح پر سماج کے افراد کے درمیان قربت رہے، دوری اور تناؤ کا ماحول پیدا نہ ہو سکے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: 
    مَّآ أَفَآئَ اللّٰہُ عَلٰی رَسُولِہٖ مِنْ أَہْلِ الْقُرٰی فَلِلّٰہِ وَلِلرَّسُوْلِ وَلِذِیْ الْقُرْبٰی وَالْیَتَامٰی وَالْمَسَاکِیْنِ وَابْنِ السَّبِیْلِ کَیْْ لَا یَکُوْنَ دُوْلَۃً بَیْْنَ الْأَغْنِیَآئِ مِنْکُمْ وَمَاآتَاکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ وَمَا نَہَاکُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوْا،وَاتَّقُوا اللّٰہَ، إِنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ (الحشر7) ۔
    "جو بھی کچھ اللہ نے ان بستیوں کے لوگوں سے لوٹا دیا اپنے رسول کی طرف تو وہ حق ہے اللہ کا، اس کے رسول کا اور رشتہ داروں یتیموں مسکینوں اور مسافروں کا تاکہ وہ (مال) تمہارے مال دار لوگوں کے درمیان ہی گردش کرتا نہ رہ جائے اور جو بھی کچھ رسول تمہیں عطا فرمائیں اسے لے لیا کرو اور جس سے وہ تمہیں روکیں اس سے رک جایا کرو اور (ہمیشہ)ڈرتے رہا کرو اللہ سے، بیشک اللہ بڑا ہی سخت عذاب دینے والا ہے۔"
    اس عدل وانصاف کا اظہار جن گوشوں اور میدانوں میں ہوتا ہے ان میں سے ایک ترکہ کی تقسیم بھی ہے۔اس کا ایک منظم ضابطہ ہے اور اس کی روشنی میں میت کے ترکہ کو وارثین کے درمیان تقسیم کیا جا تا ہے، اس نے نسب واسباب، اور اصول وفروع کو جمع کیا ہے، اور یہ سب ترکہ کے حصہ دار ہوتے ہیںجبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ بعض دیگر نظام کے اندر کہیں اصول کو محروم کر دیا جاتا ہے جیساکہ روم وفرانس کے موجودہ قوانین میں ہے اور بعض نے تو میراث کو سب سے بڑے لڑکے تک محدود کر دیا اور باقی سبھوں کو محروم کر دیا ہے۔
    اسلام کا مزاج اور اس کے احکام کی بنیاد فطرت پر ہے۔ اس نے وراثت کے نظام کو رحم دلی وہمدردی پر قائم کیا ہے۔ فطری طور پر انسان اور اس کے اقرباء کے درمیان ایک قربت ہے اور تکوینی طور پر اشتراک پایا جاتا ہے۔ اس میں مردوعورت اور بڑے چھوٹے کی تفریق نہیں، یہاں تک کہ بطن ِ مادر میں پرورش پانے والے بچے بھی اس سے جدا نہیں اور وہ بھی میراث کے حقدار ہوتے ہیں۔اس طرح اسلام نے ان تمام انسانی ترجیحات کو کالعدم قرار دیا ہے جن کی وجہ سے وارثین میں سے کوئی محروم ہوتا ہو، یا بلا وجہ انہیں وارثین کے ساتھ شریک کر کے ان کے حق کے ساتھ ناانصافی ہوتی ہو، اسی لئے اسلام نے لے پالک بیٹے( متبنیٰ) کو وارث نہیں بنایا اور نہ ہی وہ اس کی بنیاد طاقت واقتدار یا مرد ہونے کو بنایا ہے۔اس طریقہ پر اسلام نے اُن زیادتیوں اور نقصانات کی تلافی کی ہے جو زیادتیاں قدیم زمانہ میں عورتوں، کمزوروں، یتیموں اور چھوٹوں کے ساتھ روا رکھی جاتی تھیں او ر اس انسانی ناانصافی کا خاتمہ کر کے اس کا نظام عورتوں ، بچوں اور یتیموں کی حفاظت پر قائم کیا ہے۔
    یتیموں کی حفاظت ونگہداشت کے مقصد سے ہی چھوٹے بچوں یہاں تک کہ ماں کے پیٹ میں پرورش پانے والے بچے کو بھی بڑوں کی طرح ہی وارث بنایا گیا اور حکم دیا گیا ہے کہ ان کے مال کو قریب ترین اولیاء یا عام مسلمانوں یا مسلم حکومت کی نگرانی میں بڑھایا جائے، اسے منجمد نہ رکھا جائے اور جب وہ بالغ ہو کر نکاح کے قابل ہو جائیں اور ان میں دانشمندی وہوشمندی محسوس کر لی جائے کہ ان کے اندر مال میں تصرف کرنے کا امتیاز پیدا ہوگیا اور وہ خیر وشر سے بخوبی واقف ہو گئے ہیں تب ان کا مال ان کے حوالے کر دیا جائے:
    وَابْتَلُواالْیَتَامٰی حَتّٰی إِذَا بَلَغُوا النِّکَاحَ، فَإِنْ آنَسْتُم مِّنْہُمْ رُشْداً فَادْفَعُواْ إِلَیْْہِمْ أَمْوَالَہُمْ،وَلاَ تَأْکُلُوہَا إِسْرَافاً وَبِدَاراً أَن یَکْبَرُواْ، وَمَن کَانَ غَنِیّاً فَلْیَسْتَعْفِفْ،وَمَن کَانَ فَقِیْراً فَلْیَأْکُلْ بِالْمَعْرُوفِ،فَإِذَا دَفَعْتُمْ إِلَیْْہِمْ أَمْوَالَہُمْ فَأَشْہِدُواْ عَلَیْْہِمْ ،وَکَفَی بِاللّٰہِ حَسِیْباً(النساء6) ۔
    "اور آزماتے رہا کرو تم یتیموں کو، یہاں تک کہ جب وہ پہنچ جائیں نکاح (کی عمر)کو، پھر اگر تم ان میں کچھ سمجھداری دیکھو تو ان کے حوالے کر دیا کرو ان کے مال، اور مت کھا ئوتم انکے مال حد ضرورت سے زیادہ اور حاجت سے پہلے، اس خیال سے کہ یہ بڑے ہو جائیں گے اور جسے ضرورت نہ ہو وہ بچتا ہی رہے، اور جو ضرورت مند ہو تو کھائے دستور کے مطابق، پھر جب تم ان کے حوالے کرنے لگو ان کے مال تو (بہتر ہے کہ)تم ان پر گواہ رکھ لو، اور کافی ہے اللہ حساب لینے والا۔"
    اسلام نے عورتوں کو ہر سطح اور ہر مقام پر تحفظ فراہم کیا اور ان کے حقوق کی حفاظت کی ہے۔ اسلامی قانونِ وراثت اور دیگر مذاہب کے قوانین میں ہمیں یہاں بھی واضح فرق نظر آتا ہے۔ ہندو مذہب میں شادی کے بعد عورت کا ناطہ اپنے میکہ سے ٹوٹ جاتا ہے، وہ اپنے والدین اور اقارب کی وارث نہیں ہوتی اور یہ طریقہ بعض دوسرے مذاہب میں بھی ہے،مگر اسلام کسی حال میں عورت کو محروم نہیں کرتا بلکہ میراث میں مردوں کے ساتھ عورتوں کو بھی شریک کرتا اور اسے حقدار قرار دیتا ہے۔میت سے اتصال ووابستگی میں اولادِ بطون اور اولادِ ظہور برابر ہیں۔ اصول وفروع اور میت سے ربط وتعلق میں عورتیں اسی طرح ہیں جس طرح مرد اور جس طرح مرد وارث ہوتے ہیں، اسی طرح عورتیں بھی، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: 
    لِلرِّجَالِ نَصِیْبٌ مِّمَّا تَرَکَ الْوَالِدَانِ والْأَقْرَبُوْنَ،وَلِلنِّسَائِ  نَصِیْبٌ مِّمَّا تَرَکَ الْوَالِدَانِ والْأَقْرََبُوْنَ مِمَّا قَلَّ مِنْہُ أَوْ کَثُرَ،نَصِیْبًا مَّفْرُوْضًا(النساء7)۔
    "مردوں کیلئے حصہ ہے اُس مال میں سے جس کو چھوڑ مریں ان کے ماں باپ اور قریبی رشتہ دار، اور عورتوں کیلئے بھی حصہ ہے اُس مال میں سے جس کو چھوڑ مریں ان کے ماں باپ اور قریبی رشتہ دار، خواہ وہ تھوڑا ہو یا زیادہ، مقرر کردہ حصے کے طور پر۔"
    یہی وہ قاعدہ اور ضابطہ ہے جس کے تحت اسلام نے عورتوں کو آج سے 15صدی قبل ہی ان کے حقوق اد اکئے، ان کے میراث کی حفاظت کی جبکہ وہ سابق میں اس سے محروم تھیں۔ انہیں اسلام نے وارث بنایا جبکہ انہیں سامان اور بکاؤ مال سمجھا جاتا تھا، جو وارث تو کیا ہوتیں خود دوسرے ان کے وارث بنتے اور سامانوں کی طرح دوسروں کی ملکیت میں ترکہ کی طرح منتقل ہوا کرتی تھیں۔ اسلام نے انہیں عزت دی جبکہ پہلے نہ ان کی کوئی عزت تھی نہ حقیقی معنوں میں کوئی وجود۔اسلام وہ پہلا مذہب ہے جس نے انہیں باعزت زندگی عطاء کی اور قابل احترام بن کر زندگی گزارنے کی ضمانت دی۔ انہیں مردوں کے ظلم وزیادتی اور سختی وتشدد سے بچایا اورانہیں مکمل آزادی ومختاری عطا کی۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
     فَإِمْسَاکٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِیْحٌ بِاِحْسَانٍ (البقرۃ229) ۔
    "پھر یا تو رجوع کر کے اس دستور کے مطابق روک لیا جائے یا بھلے طریقے کے ساتھ چھوڑ دیا جائے۔"
    وَعَاشِرُوْہُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ (النساء19) ۔
    "اور تم ان سے اچھائی ہی کا برتا کرو۔"
    یہاں ایک شبہ یہ ہوتا ہے کہ اسلام نے میراث میں مردوں کو عورتوں پر حصوں کے اندر فوقیت وبرتری کیوں دی ہے؟ تو سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ایسا تمام حالتوں مین نہیں ، میراث میں اولاد کے رہتے ہوئے والدین میں سے ہر ایک کا حصہ برابر ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
    و لِاَبَوَیْْہِ لِکُلِّ وَاحِدٍ مِّنْہُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَکَ إِنْ کَانَ لَہٗ وَلَدٌ (النساء11)
    "اور میت کے ماں باپ میں سے ہر ایک کو اس کے کل ترکے کا چھٹا حصہ ملے گا، اگر اس(میت) کی کوئی اولاد ہو۔"
    البتہ بعض حالتوں میں مردوں کو جو عورتوں پر برتری حاصل ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
    لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الأُنْثَیَیْْنِ (النساء11)
    " ایک مرد کا حصہ برابر ہے دو عورتوں کے حصے کے۔"
    تو اس میں بڑی حکمت ہے، اور یہ بھی اسلامی قانون وراثت کی منفرد شان اور خصوصیت ہے کہ اس کے ذریعہ حقوق اور ذمہ داریوں کے درمیان توازن پیدا کیا ہے، مردوں کے اوپر تو نفقہ، اخراجات اور اس جیسی اہم ذمہ داریاں عائد کی گئی ہیں، جب کہ یہ ذمہ داریاں عورتوں پر نہیں ہیں، اگر مردوں کو عورتوں کے برابر حصہ دیا جاتا تو یہ ناانصافی کی بات ہوتی، واقعہ یہ ہے کہ اسلام کا نظام وراثت سماج میں حقوق اور منصوبہ بندیوں کی اساس پر قائم ہے اور اسی کے مد نظر مردوں کے حصہ کو عورتوں کے حصہ سے دگنا رکھا گیا اور عورتوں کی انسانیت پر حرف نہ آنے دیا ہے اور نہ اس میں کسی بھی طرح کمی کی گئی ہے، بلکہ اس میں  سماج میں خاندانی زندگی کے امر واقعہ کو ملحوظ رکھا گیا ہے، غور کریں کہ عورت کی کفالت کی ذمہ داری تو مردوں پر ہے، مردوں پر ضروری ہے کہ وہ عورتوں کی کفالت کرے اوراس پر خرچ کرے، جب کہ عورتوں پر کسی طرح بھی خرچ کرنے کی ذمہ داری نہیں ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
    اَلرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلَی النِّسَائِ (النساء34) ۔
    "مرد حاکم (وسرپرست)ہیں عورتوں پر۔"
    تو اگر دونوں کو میراث سے برابر دے دیا جاتا تو یہ مردوں کے حق میں ناانصافی ہوتا۔
     ہم مسلمان ہونے کی حیثیت سے اس پر فخر کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی شریعت نے کس قدر متوازن نظام بنایا اور ہر ایک کے حقوق کی حفاظت کی ہے، یہ بات ابنائے وطن کو بھی بتانے اور سمجھانے کی ہے تاکہ ان کے ذہن سے شکوک وشبہات دور ہوں اور اسلام کے عدل کا اعتراف کریں، اور وہ خود اپنے نظام کے نقائص پر غور کریں۔
( جاری ہے)
 
مزید پڑھیں:- - - - -  -ملت اسلامیہ کی تنزلی کے اسباب کیا ہیں؟

شیئر: