Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

من گھڑت روایات ، بنیادی عوامل اور ان کا سدباب

 برصغیر میں موجود اہل سوء اور بدعتیوں نے اس خطے میں بہت سی مْحدَثَات اور بدعات کو سندِجواز فراہم کیا
 
مفتی طارق امیر خان۔ کراچی

اسلام میں اَحادیثِ رسول اللہ کو مصدر ثانی کی اساسی حیثیت حاصل ہے،جس میں نقب زنی سے حفاظت کا انتظام عہد رسالت کی ابتداء ہی سے کر دیا گیا تھااور یہ صیانت و حفاظت آپ کے اس فرمان کا نتیجہ تھی:
    ’’جس نے مجھ پر جھوٹ بولا، وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے۔‘‘(صحیح بخاری:باب اثم من کذب علی النبی)۔
    جاں نثار صحابہؓ  آپ کے اس ارشاد سے ہر دَم خوفزدہ رہتے تھے اور آپ کا یہ دستور، ہمہ وقت اْن کی نگاہوں کے سامنے رہتا تھا۔صحابہ ؓ  کی اسی کیفیت کوعلامہ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ نے اِن لفظوں میں بیان کیا ہے :
    ’’سید الکونین کا یہ فرمان، محافل صحابہؓ  میں اتنی شہرت اختیار کر گیا تھا کہ آج بھی کتبِ حدیث میں100 سے زائد ایسے صحابہ رضی اللہ عنہم کے نام محفوظ ہیں،جن سے یہ روایت منقول ہے۔‘‘(اللآلی المصنوعۃ)۔
    اگراِن تمام طْرق اور روایات کو بنظر غائردیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا یہ فرمان ہمہ گیری میں اپنی نظیر نہیں رکھتاکیونکہ جہاں اِبتدائے نبوت کی خفیہ مجالس میں اِس حدیث کی سرگوشیاں تھیں،وہاں اِکمال نبوت یعنی خطبہ حجۃ الوداع کے عظیم اجتماع میں بھی اسی اعلان کی گونج تھی ۔
    جہاں عشرہ مبشّرہ اس روایت کو نقل کر رہے ہیں، وہاں صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے عام وخاص بھی اس کو دہرا رہے تھے۔صحابہ رضی اللہ عنہم میں جس طرح یہ ارشاد زبان زَد خاص و عام تھا، صحابیات رضی اللہ عنہن کی مجالس بھی اس فرمان سے مزیّن تھیں۔
    آپکے اسی ارشاد کا اثر تھا کہ جب ذخیرۂ اَحادیث میں من گھڑت اور ساقط الاعتبار روایات کے ذریعے رَخنہ اندازی کی مذموم کوششیں شروع ہو گئیں، تو محدثینِ کرام نے احادیث کے صحت و سُقَم کے مابین ’’اِسناد‘‘ کی ایسی خلیج قائم کر دی جس کی مثال اُممِ سابقہ میں ملنا مْحال ہے۔محدثینِ کرام نے احادیث کو خس وخاشاک سے صاف کرنے کے لیے یہی ’’میزانِ اِسناد‘‘ قائم کی جس کے نتیجے میں اصولِ حدیث کے مبارک علوم وجود میں آتے رہے، ضعیف اور کذّاب راویوں پر مستقل تصانیف کی گئیں۔
    انہی متقدمین علماء نے کتب العِلَل میں ساقط الاعتبار(غیر معتبر) احادیث کو واضح کیا۔ علمائے متأخرین نے بھی باقاعدہ مْشتَہَرات (زبان زَد عام روایات پر مشتمل کتابیں)، ساقط الاعتبار اور من گھڑت روایات پر کتابیں لکھیںچنانچہ ہر زمانے میں احادیث کا ذخیرہ محفوظ شاہراہ پر گامزن رہا۔ غرضیکہ روئے زمین پر جہاں کہیں اسلام کا سورج طلوع ہوا ہے،وہ حدیث کے محافظین خودساتھ لائے ہیں۔
    ہندوپاک میں ساقط الاعتبار اور من گھڑت روایات اور اْن کا سدّباب:
    اگر ہم اپنے خطّے برّصغیرہندوپاک کا جائزہ لیں،تو موضوعات کی روک تھام میں سرفہرست علامہ ابو الفضل الحسن بن محمد صاغانی لاہوری رحمہ اللہ کا نام نظر آتا ہے، آپ577ھ لاہور میں پیدا ہوئے اور حدیث و لغت کی دیگر خدمات کے ساتھ، خود ساخطہ روایات پر 2 گراں قدر کتابیں (1)الدُرَرُ المُلْتَقَط فی تَبْیَینِ الغَلَط(2)موضُوعات الصَّغَانِی  لکھیں۔
    من گھڑت اور غیر معتبر روایات کے بنیادی عوامل:
    ہندوپاک میں َمن گھڑت اور باطل روایات کا مطالعہ بہت سے سوالات کو جنم دیتا ہے،جن میں یہ نکتہ بڑی اہمیت کا حامل ہے کہ برّصغیر ہندوپاک میں وہ کونسے قدیم بنیادی طبقات ہیں،جو یہاں خود ساختہ روایات کی ترویج میں راہ ہموار کرتے رہے ہیں؟اس سوال کے جواب میں سب سے قدیم تحریر علامہ صاغانی ہی کی ملتی ہے، جس سے ہمیں بڑی حد تک اس مسئلے کے جواب میں رہنمائی ملتی ہے، چنانچہ علامہ صاغانی رحمہ اللہ"الدُرَرُ المُلْتَقَط" میں اپنی تصنیف کی غرض و غایت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
    ’’وقدْ کَثُرَتْ فی زَمَانِنا الاحادیث الموضوعۃُ، یَروِیْھا القصاصُ علٰی رْؤوس المَنَابِر والمجالسِ، ویَذْکُرُ الفُقَرَائُ والفُقَھَائُ فی الخَوَانِقِ والمَدَارِسِ، وتَدَاوَلَتْ فی المَحَافِل، واشْتُھِرَتْ فی القَبَائِل، لِقِلَّۃ مَعْرِفَۃِ النَّاس بعِلْمِ السُنَنِ، وانْحِرَافِھم عن السُّنَنِ‘‘۔
    اس عبارت میں امام صاغانی رحمہ اللہ نے موضوعات اور غیر معتبر روایات کی اِشاعت میں ملوث چند عوامل کا ذکر کیا ہے،ملاحظہ ہو:
    ٭  قصہ گَو برسرِ منبر اورعام مجالس میں من گھڑت روایتیں بیان کرتے تھے۔ایسے ہی جاہل صوفیاء اور جاہل فقہاء کی مجالس بھی ان باطل مرویّات سے پْر تھیں۔
    ٭ اس کا لازمی نتیجہ یہ تھا کہ یہ خود ساختہ عبارتیں ملت اسلامیہ کے ہر طبقے اور قبیلے میں رواج پاتی رہیں اور یہی کلام، مجالس کی زینت بنتا رہا،بالآخر موضوعات کی یہ گرم بازاری پورے معاشرے میں سرایت کر گئی۔
    ٭ اس شرعی اِنحطاط کا باعث صرف معرفتِ حدیث سے دوری تھی۔
    وضّاعین کی اقسام اور ان کے مذموم مقاصد:
    علامہ صاغانی رحمہ اللہ کا گزشتہ اِقتباس ہماری قدیم خستہ حالی کی جیتی جاگتی تصویر ہے جس میں مذکورطبقات ہمارے سابقہ سوال کا اجمالی جواب ہیں۔مزید وضاحت کے لیے ہم علامہ عبد ا لحیٔ لکھنوی رحمہ اللہ کے اس مقدمے (الآثار المرفوعہ)کو بہت ہی معاون پاتے ہیںجس میں انھوں نے حدیث گھڑنے والوں کے اغراض و مقاصد بتاتے ہوئے انھیں کئی اقسام پر تقسیم کیا۔اِن اقسام سے ہم بخوبی یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ برصغیر ہندوپاک میں وہ کونسے حلقے،اَفراد اور گروہ ہیںجن کے ہاں موضوع روایات کا ایک بڑا ذخیرہ جنم لیتا رہا ہے،بالفاظ دیگر یہ روایات انہی کے راستے سے مشہور ہوئیں۔
    (1)زَنادِقہ:
    زَنادِقَہ کا مقصد اْمت میں رطب ویابس پھیلا کر شریعت کو مسخ کرنا ہے۔علامہ عبدا لحیٔ لکھنوی رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ہندوپاک کے ’’فرقۂ نیچریہ‘‘ اور اْن کے گمراہ کْن عقائد کا ذکر کیا ہے۔آپ نے یہ وضاحت بھی کی ہے کہ یہ فرقہ نصوصِ شرعیہ میں تحریف(تبدیلی) لفظی ومعنوی کا مرتکب رہا ہے۔
    (2)مؤیدینِ مذاہب:
    دوسری قسم اْن افراد کی ہے،جنہوں نے اپنے مذہب اور موقف کی تائید میں روایتیں گھڑیں۔اِس عنوان کے تحت علامہ عبد ا لحیٔ  لکھنوی رحمہ اللہ نے حدیث میں خوارج کے طریقۂ واردات کو بیان کیا ہے۔تاریخ شاہد ہے کہ بعض خوارج نے خود اس بات کا اقرار کیا ہے کہ ہم نے اپنے موقف اور رائے کو ثابت کرنے کے لیے بہت سی احادیث گھڑی ہیں۔
    یہاں برّصغیر ہندوپاک میں موجود اہل سوء اور بدعتیوں کا ذکر بھی برمحل ہے،جنہوں نے اس خطّے میں بہت سی مْحدَثَات(دین میں نئی باتیں) اور بدعات کو سند ِجواز فراہم کیا اور اپنی اِختراعات کے ثبوت میں، من گھڑت اورساقط الاعتبار روایتوں کا سہارا لیا۔
    (3)اصلاح پسند اَفراد:
    تیسرا طبقہ اْن افراد کا ہے،جنہوں نے لوگوں کی اصلاح کے خیال سے ترغیب وترہیب کی احادیث گھڑیں۔اس میں علامہ عبدا لحیٔ  لکھنوی رحمہ اللہ نے ایک دلچسپ مثال بیان کی ہے۔آپ فرماتے ہیں کہ ہندوپاک کے بعض اصلاح پسند لوگوں نے تمباکو نوشی سے زَجرووَعِید پر مشتمل احادیث وضع کی ہیں۔پھر موصوف نے اس مضمون پر مشتمل وضّاعین کی 8 ایسی روایتیں لکھی ہیں، جو سب کی سب جعلی ہیں۔
    (4)طبقۂ جہلاء:
    چوتھی قسم اْن لوگوں کی ہے جو رسول اللہکی جانب ہر اَمرِخیر،اقوال زَرِیں وغیرہ کا انتساب، جائز سمجھتے ہیںحالانکہ معتبر سند کے بغیر اس طرح انتساب کرنا ہر گز جائز نہیں۔
     (5)اہل غلو:
    ایک قسم اْن لوگوں کی ہے،جو عقیدت ومحبت میں اِفراط وغُلُوکا شکار ہوجاتے ہیںاور اہل بیت، خلفائے راشدین،ائمہ کرام اور رسالت مآب کے حوالے سے باطل وبے اصل مضامین مشہور کردیتے ہیں۔
    (6)واعظین:
    چھٹا طبقہ ان قصہ گوواعظین کا ہے جو جعلی غرائبِ زمانہ سْنا کر عوام سے دادِ تحسین وصول کرتے ہیں۔
    خلاصۂ  کلام:
    خلاصہ کلام یہ کہ یہی طبقات اور اَفراد، خطۂ ہند وپاک میں حدیث کی جعلسازی کا بیڑا اٹھائے رہے ہیںبلکہ اس تفصیل کے بعد ہم بصیرت سے یہ فیصلہ کر سکتے ہیں کہ ہمارے گرد و پیش ایسی بہت سی ہم معنی باطل احادیث پھیلی ہوئی ہیںجو بلا تردّدانہی خاص طبقات کی مذموم کوششوں کانتیجہ ہے۔
    ہندوپاک میں تکا  سلِ حدیث اور اس کے اسباب:
    اگرچہ برصغیر پاک و ہند میں زبان زَدعام رِوایات کی تنقیح بجا طور پر ہوتی رہی ہے لیکن پھر بھی یہ سوال، جواب کا مستحق ہے کہ افرادِ امت عام طورپراحادیث میں صرف سطحی ذہن رکھنے والے ہیںاور اکثر احادیث کی چھان بین کو خاطر میں نہیں لایا جاتا۔آخرحدیث کے عنوان سے مزاجوں میں حسّاسیت اتنی مَدھم کیوں رہی ہے؟
    تلاشِ بسیار کے بعد علامہ عبدالعزیز فرہاروی رحمہ اللہ (1239 ھ) کی عبارت میں اس مْعِمّہ کا حل مل گیا۔علامہ عبد العزیز فرہاروی نے ’’کوثر النَّبِیّ وزُلالُ حَوْضِہ الرَّوِی‘‘  میں ایک مقام پر بعض ایسی کتبِ تفسیر،کتب ِزہد،کتب ِ اَوْرَاد وغیرہ کا تذکرہ کیا،جن میں غیر مْعتبر احادیث بھی ہیں،پھر اِن کتابوں میں موجود ساقط الاعتبار احادیث کے اسباب ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
    ’’(اِن کتب میں رطب ویابِس احادیث کی )وجہ یہ ہے کہ ان کتابوں کے مصنّفین فنِ حدیث سے کم اِشتغال رکھتے ہیںاور مسلمان سے حسن ظن رکھتے ہوئے،زبان زَد عام روایتوں پر بھروسہ کر لیتے ہیں(حا لانکہ ایسا اعتماد صرف ماہرِ فن پر ہی کیا جا سکتا ہے،نہ کہ حدیث میں کم اشتغال رکھنے والے پر)اور یہ مصنّفین رطب ویابِس پر مشتمل، غیر منقّح کتابوں سے دھوکے میں پڑ جاتے ہیںاور(ان کے بارے میں یہی حسنِ ظن ہے کہ) ان مصنّفین کو حدیث نقل کرنے میں تہاون(حقیر سمجھنا) کی وعید نہیں پہنچی ہوگی اور بعض مصنّفین سند کے راویوں کی جرح وقدح دیکھے بغیر ہر سند والی روایت پر اعتمادکر لیتے ہیں‘‘۔
    اسبابِ تکاسل کا جائزہ:
    دراصل علامہ عبدالعزیز فرہاروی رحمہ اللہ نے جن کتبِ حدیث و تفسیر وغیرہ کا تذکرہ کیا ہے،یہ کتب برصغیر میں مْتَدَاول اور مْرَوّج ہیں اور ان کتابوں کے مؤلفین کی جلالت اور علوّ شان بلا شبہ مْسَلَّم ہے لیکن اس حقیقت کا انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اِن مؤلفین کافنِ حدیث میں اشتغال ناقص رہا ہے چنانچہ صاحبِ کتاب کی یہ کمزوری عوام میں بھی سرایت کرتی رہی اور احادیثِ موضوعہ معاشرے میں پھیلتی رہیں۔بہر حال ذَیل میں ہم مولانا عبد العزیز فرہاروی رحمہ اللہ کے بیان کردہ نِکات اور ان سے ماخوذ نتائج کا جائزہ لیتے ہیں۔
    o فنِ حدیث میں اشتغال کی کمی:
    ان مصنّفین کی تالیفات میں رَطب و یابس روایات کی ایک وجہ یہ ہے کہ ان مؤلفین نے علوم ِ حدیث سے ایسا اشتغال نہیں رکھا،جس سے ان میں اْصولِ حدیث کے مطابق حدیث کے ردّو قبول کا مَلَکَہ اور اسے پرکھنے کی قابلیت پیدا ہو جاتی،حتیٰ کہ ہمارے زمانے میں بھی مْعتَد بہ تالیفات اس بات کی مقتضیٰ ہیں کہ ان کے مؤلفین احادیث کے معاملے میں محض تحویل(حوالہ دینا) پر اکتفا نہ کریں بلکہ حسبِ ضرورت اس بات کا پورا اطمینان حاصل کریں کہ یہ حدیث، معتبر سند سے ثابت ہے۔
    o محض حسنِ ظن کی بناء پرروایات پر اعتماد:
    ان کتابوں میں باطل اور بے اصل روایتوں کے شْیوع کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہ مصنّفین ہر مسلم کے بارے میں حسنِ ظن رکھتے تھے،اور زبان زَد عام روایتوں کو حسنِ ظن کی بناء پر بلا تحقیق قبول کر لیتے تھے۔
    واضح رہے کہ اس مقام پر مولانا عبد الحی لکھنوی رحمہ اللہ نے لکھا ہے:
    ’’ حدیث میں اعتماد کا مدار صرف ماہرینِ فن ہیں چنانچہ اگر کوئی شخص صناعتِ حدیث میں مہارت نہیں رکھتا ہو  توایسے شخص پر بلا تحقیق حسنِ ظن سے اعتماد نہیں کیا جا سکتا(الآثار المرفوعۃ)۔
    o تہاونِ حدیث پر وعید سے نا آشنائی:
    ان کتب میں قابلِ رَدّ مواد کی تیسری وجہ یہ ہے کہ یہ حضرات تہاونِ حدیث( یعنی رِوایتِ حدیث میں پوری احتیاط سے کام نہ لینا ) کی وعیدوں سے واقف نہیں ہوں گے۔ بلاشبہ ان حضرات کی عْلوّ شان اسی حسنِ ظن کی مقتضیٰ ہے البتہ اس تہاون سے اجتناب کی اہمیت اپنی جگہ ہے، خاص طور پر عوامی حلقوں میں اس کی ضرورت بڑھ جاتی ہے کہ ملّت اسلامیہ کا ہر فرد یہ محسوس کر رہاہو کہ میں رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ایسی بات ہرگز منسوب نہ کروں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہ ہوتاکہ مَنْ کَذَبَ عَلَیَّ مُتَعَمَّداً… کا مصداق بننے سے بچ جاؤں،ورنہ یہی تہاون نہ صرف غیر مستند روایات کو پھیلانے میں کام آتا ہے بلکہ اِن روایتوں کو تحفّظ بھی فراہم کرتا ہے۔
    o تحقیق کا فقدان:
    ان تالیفات میں جو احادیث مْسنَد (سند والی روایات)تھیں،ان میں اس بات کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی کہ فن جرح و تعدیل کی روشنی میں اس کا جائزہ لیا جائے تاکہ قابلِ احتراز روایتیں ظاہر ہوجاتیں۔
    ایک اہم فائدہ:
    اگر ہم بھی اپنے گردوپیش کا جائزہ لیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ علم الروایہ(علمِ حدیث) میں ہمارا منتہیٰ صرف سندِ حدیث پانا ہے، اس کے بعد ہم کسی چیز کی ضرورت محسوس نہیں کرتے حالانکہ صاحبِ کتاب سند بیان کر کے ایک حد تک اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہو جاتا ہے۔اب اگلا مرحلہ ہم سے متعلق ہے کہ ہم حسبِ ضرورت،متقدمین اصحاب ِتخریج اور ائمۂ علل کی جانب رجوع کریںاور روایات کے قابل تحمّل(روایت لینا) ہونے کا پورا اطمینان حاصل کریں۔
(جاری ہے)

مزید پڑھیں:- -  - - -نیکیوں کو غارت کرنے والی ، زبان

شیئر: