Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بابری مسجد یا رام مندر؟: مستقبل کا فیصلہ تین رکنی ثالثی پینل کرے گا

انڈیا کی سپریم کورٹ نے ملک کے شمالی قصبہ ایودھیا میں واقع 16وہیں صدی عیسوی کی قدیم بابری مسجد کی جگہ رام مندر بنانے کے متنازع منصوبہ پر ثالثی کے لیے ایک تین رکنی ثالث پینل مقرر کر دیا ہے۔ایک ایسے وقت میں جب ملک کے عام انتخابات میں کچھ ہی وقت رہ گیا ہے وزیر اعظم نریندرمودی کے سخت گیر حلیفوں نے بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کے مطالبے کو بڑی شدومد سے اٹھانا شروع کر دیا ہے۔سنہ 1992 میں سخت گیر ہندوؤں کے ایک گروپ نے اس قدیم مسجد کو منہدم کیا تھا جس کے بعد تقسیم کے بعد انڈیا کی تاریخ کے بدترین فرقہ ورانہ فسادات پھوٹ پڑے تھے۔ ان فسادات میں 2000 سے زائد لوگ ہلاک ہوگئے تھے۔ انڈیا کی سپریم کورٹ، جس کی تحویل میں بابری مسجد کی متازع زمین ہے، ایک عرصہ سے دونوں فریقین کی جانب سے دائر متفرق درخواستوں کی سماعت کر رہی ہے۔جمعے کو متفرق درخواستوں کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے سابق جج ایف کے خلیف اللہ کی سربراہی میں اس معاملہ کو باہمی افہام و تفہیم سے حل کرنے کے لیے ایک ثالثی پینل تشکیل دے دیا ہے جس میں ہندوؤں کے روحانی گرو راوی شنکر اور سینئیر قانون دان سریرام پنچو بھی شامل ہے۔سپریم کورٹ کے چیف جسٹس رانجن گوگی  نے حکم دیا کہ ثالثی کا عمل ایک ہفتہ کے اندر شروع کیا جائے اور اسے آٹھ ہفتوں کے اندر پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے۔ 

انڈیا میں عام انتخابات مئی میں متوقع ہے۔

 اس سے پہلے جسٹس گوگی کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے کیس کے دونوں مسلمان اور ہندو فریقین سے کہا تھا کہ وہ اس تنازع کو ثالثی کے ذریعے حل کرنے کے آپشن پر غور کریں۔سخت گیر ہندو تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ مسجد کی1528 میں ایک مسلمان حکمران کی جانب سے تعمیر سے پہلے اس جگہ پر مندر تھا۔ انڈیا کے حکمران جماعت بی جے سے وابستہ بہت سارے رہنماؤں نے بھی وقتا فوقتا مطالبہ کرتے رہے ہیں کہ مسجد کی جگہ مندر کی تعمیر کے لیے قانون سازی کی جائے۔تاہم حالیہ دنوں میں وزیر اعظم مودی نے ایشئین نیوزانٹرنیشنل نامی ویڈیو ایجنسی کو بتایا تھا کہ ایودھیا کے معاملے پر عدالتی کارروائی کو مکمل ہونے دینا چاہیے۔انتہا پسند جماعت ویشو ہندوپریشد نے گذشتہ تین دہائیوں سے بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کے لیے مہم چلا رہی ہے۔ تنظیم کا کہنا ہے بابری مسجد کی زمین بھگوان رام کی جائے پیدائش ہے۔گذشتہ کچھ مہینوں کے اندر ویشو ہندوپریشد نے رام مندر کی تعمیر کے مطالبہ کے حق میں لاکھوں لوگوں پر مشتمل بڑے بڑے اجتماعات منعقد کیے ہیں۔انڈیا میں عام انتخابات کے انعقاد کے چند مہینے پہلے رام جنم بھومی کے ایشو کا دوبارہ اٹھنے سے خدشات پیدا ہوگئے ہیں کہ انتخابی مہم کے دوران فرقہ ورانہ فسادات نہ پھوٹ پڑیں۔واضح رہے کہ 2014 کے انتخابات سے کچھ عرصہ قبل اترپردیش میں فرقہ ورانہ فسادات میں 65 سے زائد لوگ ہلاک ہو گئے تھے۔ اور ہزاروں افراد جن میں سے اکثریت مسلماںو ں کی تھی بے گھر ہو گئے تھے۔

مزید پڑھیں:- - - -نیرو مودی کا 100کروڑ کا بنگلہ دھماکے سےمنہدم کردیا گیا

شیئر: