خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کی جانب سے پولیس کو بااختیار اور غیر سیاسی بنانے کے دعوے تو بہت کیے گئے مگر پی ٹی آئی کی خاتون رہنما اپنی ہی پولیس پر اختیارات کے ناجائز استعمال کا الزام لگا کر احتجاج کرنے پر مجبور ہیں۔
پشاور سے رکن قومی اسمبلی شاندانہ گلزار خان گذشتہ ایک ہفتے سے اپنے حلقے بڈھ بیر پولیس سٹیشن کے ایس ایچ او کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔
مزید پڑھیں
اُن کے حلقے کے عوام نے 15 جولائی کو اس سلسلے میں احتجاج بھی کیا اور پولیس حکام سے مطالبہ کیا کہ وہ ایس ایچ او کے غیرقانونی اقدامات کا نوٹس لے کر اسے معطل کریں۔
دوسری جانب ایچ ایس او عبدالعلی خان کے حق میں بھی مظاہرہ ہوا اور انہیں نہ ہٹانے کا مطالبہ کیا گیا۔
ایس ایچ او پر الزامات کیا ہیں؟
شاندانہ گلزار کے مطابق ’ایس ایچ او عبدالعلی خان علاقے میں اختیارات کا ناجائز استعمال کرکے چادر اور چاردیواری کا تقدس پامال کر رہے ہیں اور بے گناہ افراد پر تشدد کیا جا رہا ہے۔‘
’ایس ایچ او نے علاقے میں اپنا قانون بنا رکھا ہے۔ وہ اگر حق پر ہیں تو ہم ساتھ کھڑے ہوں گے، وہ جرائم کے خلاف اقدامات کریں گے تو عوام ساتھ دیں گے۔‘ انہوں نے کہا کہ ’عوام کو ہراساں کرنے کا حق کسی کو نہیں ہے میں اُن کے خلاف کھڑی رہوں گی۔ قانون کے نام پر شہریوں کو ہراساں کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔‘
ایس ایچ او کے خلاف عدالت سے رجوع کر لیا گیا
ایم این اے شاندانہ گلزار کے وکیل ایڈووکیٹ معظم بٹ نے اردو نیوز کو بتایا کہ عدالت سے رجوع کرنے کا مقصد یہ ہے کہ پولیس آئین اور قانون کے مطابق فرائض انجام دے، عدالت کو بتایا گیا ہے کہ ایس ایچ او شہریوں کے گھروں میں گھستے ہیں اور ان کے ساتھ ناروا سلوک کرتے ہیں۔
’ایس ایچ او کی سربراہی میں عوام پر تشدد کرکے ان کی ویڈیوز بنائی جاتی ہیں اور شہریوں کو مختلف طریقوں سے ہراساں کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا گیا ہے۔‘
معظم بٹ ایڈووکیٹ کے مطابق اگر کوئی جُرم بھی کرتا ہے تو آئین اور قانون موجود ہے جس کے تحت ہی اس کے خلاف کارروائی کی جانی چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایس ایچ او نے اپنا نام گبر سنگھ رکھا ہوا ہے جس سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے فرائض کسی اور انداز میں سرانجام دیتے ہیں۔
’گبر سنگھ کا نام خوف کی علامت تھا اور وہ ایک منفی کردار رہا ہے۔‘
وکیل کا مزید کہنا تھا کہ شاندانہ گلزار کا بھی یہی مطالبہ ہے کہ عدالت ایک جے آئی ٹی بنائے جس میں ان الزامات کی تحقیق کرے تاکہ حقیقت سامنے آجائے۔
ایس ایچ او کو گبر سنگھ کیوں کہا جاتا ہے؟
پشاور پولیس کے سب انسپکٹر عبدالعلی خان کے منفرد سٹائل کی وجہ سے لوگوں نے اُن کا نام گبر سنگھ رکھا ہوا ہے جبکہ بعض افراد کا کہنا ہے کہ وہ اپنے آپ کو خود گبر سنگھ کہلواتے ہیں۔
ایک ہاتھ میں چادر اور دوسرے ہاتھ میں تسبیح، لمبے بالوں کے ساتھ دبنگ انداز کی اُن کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہوتی ہیں۔
محکمہ پولیس کے افسران عبدالعلی کو بے باک اور غیر سیاسی افسر سمجھتے ہیں۔
سب انسپکٹر عبدالعلی کے بارے میں پولیس کے ایک افسر نے بتایا کہ ’جرائم کو کنٹرول کرنے کے لیے اُن جیسے تھانیدار ہونے چاہییں جو کسی کی سفارش یا دباؤ کو برداشت نہیں کرتے بلکہ صرف اور صرف قانون پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔‘
عبدالعلی کے بارے میں اُن کے ساتھی پولیس افسروں کا موقف ہے کہ وہ اپنے افسروں کی بھی نہیں سنتے اسی لیے ان کی تعیناتی اکثر متنازع رہی ہے۔
پولیس افسروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایس ایچ او عبدالعلی جس علاقے میں جاتے ہیں وہاں شریعت کی باتیں کرتے ہیں۔ جُوئے اور ناچ گانے پر پابندی عائد کرتے ہیں اور منشیات فروشوں کے خلاف گھیرا تنگ کرکے ان کے خلاف کارروائی کرتے ہیں۔
اُن کے ساتھ کام کرنے والے پولیس اہلکاروں کے مطابق عبدالعلی سے شریف لوگ نہیں بلکہ جرائم پیشہ افراد خوف زدہ رہتے ہیں۔
’یہ انتظامی نہیں سیاسی معاملہ ہے‘
سینیئر صحافی ارشد عزیز ملک کا موقف ہے کہ ’ہر سیاسی رہنما چاہتا ہے کہ اس کے علاقے کا ایس ایچ او اس کی بات مانے اور اس کے ڈیرے پر حاضری لگائے۔‘
’اب یہاں معاملہ یہ ہے کہ شاندانہ گلزار نے ایس ایچ او پر لوگوں کے گھروں میں گُھسنے اور تشدد کا الزام لگایا مگر ایم این اے سردست کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کر سکیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’عبدالعلی کے خلاف اگر ٹھوش ثبوت موجود ہیں تو پیش کیے جائیں مگر لگتا ہے کہ یہ معاملہ سیاسی ہے کیونکہ اسی ایس ایچ او کو ایک اور سیاسی شخصیت بھرپور سپورٹ کر رہی ہے۔‘
ارشد عزیز ملک کا مزید کہنا ہے کہ اب معاملہ عدالت تک پہنچا ہے اس لیے فیصلہ بھی عدالت ہی کرے گی۔
صوبائی وزیر قانون آفتاب عالم نے اس معاملے پر موقف اپنایا کہ ’اس تنازعے کو قانون کے مطابق حل کیا جائے گا۔ ایس ایچ او کے خلاف الزامات ثابت ہوئے تو کارروائی ہوگی۔‘
انہوں نے کہا کہ پولیس کا نظام شفاف بنایا گیا ہے اگر کہیں قانون کا غلط استعمال ہوا تو اس حوالے سے سزا بھی موجود ہے۔
یاد رہے کہ ایس ایچ او عبدالعلی خان کے خلاف الزامات کے بعد محکمانہ انکوائری بھی ہوئی مگر الزامات ثابت نہ ہونے پر پولیس حکام نے ایس ایچ او کو اپنے فرائض جاری رکھنے کی ہدایت کی تھی۔