Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان میں فوجی عدالتوں کا مستقبل کیا؟

اعظم خان ۔ اسلام آباد
پاکستان میں دہشت گردی کی سنگین کارروائیوں میں ملوث افراد کے خلاف قائم کی گئی فوجی عدالتوں کی دوسری بار مدت مکمل ہوچکی ہے۔
تحریک انصاف کی حکومت نے فوجی عدالتوں کی میعاد میں توسیع کے لیے ایک بار پھر پارلیمنٹ میں موجود اپوزیشن جماعتوں کو اعتماد میں لینے کا فیصلہ کیا ہے تاہم ابھی تک اس پر کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی ہے۔
دوسری جانب فوجی عدالتوں کے معاملے میں حکومتی وزراء کی رائے بھی منقسم نظر آتی ہے۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور وزیر دفاع پرویز خٹک نیا س موضوع پر کوئی موقف نہ دیا جبکہ وفاقی سیکریٹری قانون جسٹس ریٹائرڈ عبدالشکور پراچہ نے ارو نیوز کو بتایا ہے کہ فوجی عدالتوں سے متعلق ابھی وزارت قانون کچھ کہنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔
وزیر قانون فروغ نسیم کا موقف ہے کہ وہ ماضی میں پرویز مشرف کیس اور فوجی عدالتوں پر ایک موقف رکھتے تھے جس وجہ سے اب وہ ان امور پر کوئی تبصرہ نہیں کرسکتے تاہم انہوں نے وفاقی کابینہ کو قانونی پہلوؤں پر بریفنگ ضرور دی ہے۔
وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے اردو نیوز کوبتایا ہے کہ وہ ذاتی طور پر اس توسیع کے حق میں نہیں ہیں۔ ’ہمیں اپنے دہشتگردی کے خلاف قوانین (اینٹی ٹیرریزم ایکٹ) میں بہتری لانا ہوگی، اس قانون کوسیاستدانوں کے خلاف استعمال کرنا بند کردینا چاہیے، جس سے ہم بھی متاثر ہوئے ہیں۔‘
شیریں مزاری کے مطابق اتفاق رائے سے جو بھی فیصلہ ہوگا وہ سب کے لیے قابل قبول ہوگا۔ اب یہ مشاورت کے بعد ہی پتا چل سکے گا اس وقت ان عدالتوں کی کوئی ضرورت باقی ہے یا نہیں ہے۔
وفاقی وزیراطلاعات فواد چوہدری نے میڈیا کو انٹرویوز دیتے ہوئے بتایا ہے کہ حکومت سمجھتی ہے کہ فوجی عدالتوں کی اب بھی ضرورت ہے۔
  • فوجی عدالتیں کیوں بنائی گئیں؟
دسمبر 2014 میں پشاور میں آرمی پبلک سکول پر دہشت گردوں کے حملے میں 144 طلب علم ہلاک ہو گئے۔ اس واقعے کے بعد ملک کی سول اور ملٹری قیادت سر جوڑ کر بیٹھ گئی اور چند گھنٹوں کے اندر دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے ایک 20 نکاتی نیشنل ایکشن پلان پر اتفاق ہوا۔
اس پلان میں ایک نکتہ نظام انصاف بہتر ہونے تک فوجی عدالتوں کے عارضی قیام سے متعلق تھا۔ اس مقصد کے حصول کے لیے تمام پارلیمانی جماعتوں کے اتفاق رائے کے ساتھ آئین پاکستان میں 21 ویں ترمیم کی گئی تھی۔
جنوری 2015 میں دو سال کے عرصے کے لیے فوجی عدالتوں کا قیام عمل میں لایا گیاتھا۔ ملک بھر میں 11 فوجی عدالتیں قائم کی گئیں۔ ان میں سے پنجاب اور صوبہ خیبر پختونخواہ میں تین تین، صوبہ سندھ میں دو جبکہ بلوچستان میں ایک عدالت کا قیام عمل میں لایا گیا۔
جب ان عدالتوں کی مدت 7جنوری 2017 کو ختم ہوئی تو فوجی عدالتوں میں توسیع کے لیے ایک بار پھر سیاسی جماعتوں سے رابطے بحال کیے گئے۔ اتفاق رائے پید اہونے کے بعد ان عدالتوں کو پارلیمنٹ سے مزید دو سال کی توسیع مل گئی۔
فوجی عدالتوں کی دو سال کی مدت ختم ہونے کے بعد ایک بارپھرپارلیمنٹ سے توسیع کی کوششیں تیز ہوگئیں ہیں۔
ان عدالتوں کی کارکردگی پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ نگار محقق محمد اسماعیل خان کے مطابق فوجی عدالتوں کی توسیع سول نظام انصاف پرایک بڑا سوال ہے کیونکہ اس عرصے میں کئی چیف جسٹس آئے اور گئے لیکن نظام انصاف میں اصلاحات متعارف نہ کرائی جا سکیں۔
  • فوجی عدالتوں کی چار سال کے عرصے میں کارکردگی پر ایک نظر
فوجی عدالتوں سے متعلق فوج کا شعبہ تعلقات عامہ ’آئی ایس پی آ‘ ہی اعدادوشمار جاری کرتا ہے۔ دسمبر 2018 میں آئی ایس پی آ کی جاری کردہ ایک بیان کے مطابق جب سے فوجی عدالتوں کا قیام عمل میں آیا ہے، وفاقی حکومت نے 717 مقدمات ان عدالتوں کو بھیجے ہیں۔
ان مقدمات میں 546 مقدمات سنے گئے جن میں 310 ملزمان کوموت کی سزا سنا دی گئی جبکہ دیگر 234 افراد کو قید بامشقت کی سزائیں سنائی گئیں۔ فوجی عدالتوں سے صرف دو ملزمان کی بریت ممکن ہوسکی ہے۔ سزائے موت پانے والے 310قیدیوں میں سے 56 کو پھانسی دے دی گئی جبکہ 254 ملزمان کی قسمت کا فیصلہ ابھی اعلیٰ عدلیہ نے کرنا ہے یعنی ان کیمقدمات پر ابھی سماعت ہونا باقی ہے۔
  • فوجی عدالتوں پر ماہرین کی رائے
پاکستان جنوبی ایشیا ء میں واحد ملک ہیجہاں فوجی عدالتیں سویلین کا ٹرائل کرتی ہیں۔ ماہرین قانون کے مطابق فوجی عدالتوں میں ملٹری ہی تفتیشی، جج اور پراسیکیوٹر کے فرائض انجام دیتی ہے جس سے چلنے والے مقدمات کی شفافیت پر سوالات بھی اٹھے۔
تجزیہ نگار نجم الدین کے مطابق بڑا سوال تو یہی ہے کہ جو ان عدالتوں میں بیٹھا جج ہے اس کی اپنی اہلیت کتنی ہے اور اس سارے عمل میں کتنی شفافیت اختیار کی گئی۔ ان کے مطابق ذیادہ تر ملزمان کو اقبالی بیانات کی بنیاد پر سزائیں سنائی گئیں۔ 
132متاثرہ خاندانوں کے افراد نے اپنی درخواستوں میں موقف اختیار کیا ہے کہ حراست میں ملزمان سے بیانات ڈرا دھمکا کر لیے گئے۔‘
تاہم سابق وزیر قانون علی ظفر نے فوجی عدالتوں کا دفاع کرتے ہوئے اردو نیوز کو بتایا کہِ اس وقت بھی وہی صورتحال ہے جس کی وجہ سے یہ عدالتیں قائم کی گئی تھیں۔
انھوں نے کہا کہ ’پارلیمنٹ کے سامنے وہ وجوہات اب بھی جوں کی توں موجود ہیں۔ عدالتی نظام اب بھی اس قابل نہیں ہے کہ گواہان، ججز اور پراسیکیوشن کی حفاظت یقینی بنا سکے۔‘ 
علی ظفر کے مطابق عام عدالتوں سے دہشت گردی کے مقدمات میں ملزمان بری ہوجاتے تھے۔ عدالتی اصلاحات نہیں لائی جاسکیں۔ ’یہ ایک قومی ایشو ہے اسے سیاست سے بالاتر ہو کر دیکھنا چاہیے۔‘
ریٹائرڈ بریگیڈیر واصف خود بھی فوج کے قانونی شعبے ’جاگ‘ برانچ میں جج کے فرائض سرانجام دے چکیہیں۔ فوجی عدالتوں کے حامی نہیں اور کہتے ہیں کہ ’جس کا کام اسی کو ساجھے،فوج کا کام عدالتیں چلانا نہیں ہے۔ فوج کا کام سرحدوں پر ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب فوج کو جنگی صورتحال کا سامنا ہے تو فوج کی توجہ دوسروں کاموں میں نہیں بٹنی چاہیے۔‘
  • ‘معلومات تک رسائی میں مشکلات‘
ان مقدمات میں پیش ہونے والے وکلاء کا کہنا ہے کہ انہیں مطلوبہ عدالتی دستاویزات تک رسائی نہیں دی جاتی، جس وجہ سے وہ موثر اپیل دائر نہیں کر سکتے۔ وہ اسے ایک خطرناک عمل قراردیتے ہیں۔
ریٹائرڈ کرنل انعام رحیم نے اردو نیوز کو بتایا کہ فوجی عدالتوں میں وکیل کا کردار بہت محدود ہوتا ہے۔اس عمل میں ملزم کے اہل خانہ اور وکیل کی معلومات تک رسائی ناممکن بنا دی جاتی ہے۔
سال 2018 میں پشاور ہائی کورٹ نے ایک فیصلے میں فوجی عدالتوں کی طرف سے 73 افراد کی سز ا کو کالعدم کرتے ہوئے 50 کے قریب سزائے موت کے ملزمان کو رہا کرنے کا بھی حکم دیا تھا۔
ان افراد پر خودکش حملوں اور فوجی اور سویلین کے قتل کے الزاما ت تھے۔ 
پشاور ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ تمام ملزمان کے اقبالی بیانات ایک ہی انداز اور ایک ہی’ہینڈ رائٹنگ‘ میں تھے اور حراست میں لیے گئے تمام افراد سے ایک ہی طرح کے سوالات پوچھے گئے اور ان کے جوابات بھی ملتیجلتے ہیں۔ 
وزارت دفاع نے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا جس کے بعد عدالت عظمیٰ نے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کو معطل کر رکھا ہے اور اس پرسماعت ہونا باقی ہے۔ اگر فوجی عدالتوں کودوسری بار توسیع مل بھی جائے تو ان عدالتوں کا مستقبل اب بھی سپریم کورٹ نے ہی طے کرنا ہے۔
 

شیئر: