Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

تحریک انصاف کے 23 سال: منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے

وسیم عباسی
 
اگر خالصتا ً عصر حاضر کے سیاسی پیمانے  سے ماپا جائے  تو پاکستان تحریک انصاف  اور عمران خان   کی کہانی کامیابی کی ناقابل یقین داستان لگتی ہے۔مگر کیا پارٹی نے اپنے قیام کے مقاصد حاصل کر  لیے ہیں۔ 
 آج سے 23 سال قبل  اسلام آباد کے ایک  مقامی ہوٹل  میں تقریبا دو سو کے قریب  افراد نےپاکستان کے کرکٹ ہیرو اور  ورلڈکپ کے فاتح کپتان  عمران خان کی زیرقیادت ایک نئی جماعت  کی بنیاد رکھی تو ملک کی دو بڑی جماعتوں کی موجودگی میں  اس جماعت کا اقتدار میں آنا خواب جیسا لگتا تھا۔ 
گزشتہ سال جولائی  میں انتخابات میں کامیابی کے بعد وزیراعظم عمران خان نے حکومت  کی باگ ڈور سنبھالی  تو یہ خواب  شرمندہ تعبیر ہو گیا۔۔ مگر کیا خواب اتنا ہی تھا؟ اقتدار  ہی منزل تھی۔ اور پھر کیا منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے؟

آج وزیراعظم عمران خان کی 47 رکنی  کابینہ میں ایک بھی  رکن وہ نہیں جو 25 اپریل 1996 کو پارٹی  کی بنیاد رکھنے والوں میں شامل  تھا۔ کابینہ کے اکثر ارکان اصل میں پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان مسلم لیگ ن اور دیگر جماعتوں  سے  اس وقت پی ٹی آئی میں شامل ہوئے جب 30 اکتوبر 2011  کے کامیاب جلسے کے بعد پارٹی کا عروج شروع ہوا۔
عمران خان کے ماضی اور حال کے قریبی ساتھی اور پارٹی کے پرانے کارکنوں  کے خیال میں منزل ابھی نہیں آئی ۔
  •   "اقتدار کے لیے سمجھوتے کر لیے" 
پی ٹی آئی کے بانی رکن اور صوبہ پنجاب میں پارٹی کے پہلے صدر سعید اللہ نیازی کے مطابق  آج کی حکمران پارٹی اور 1996 میں بننے والی پارٹی میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔ سعید اللہ نیازی نے 2011 میں  عمران خان سے اختلافات کے بعد پارٹی چھوڑ  دی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ اکتوبر کے کامیاب جلسے کے بعد انہوں نے عمران خان سے ملاقات کر کے ان سے کہا تھا کہ گیٹ بند کردیں ورنہ پارٹی میں مفاد پرست آ جائیں گے تاہم، ان کے مطابق عمران خان کو اقتدار ہر حال میں چاہیے تھا اس لیے انہوں نے بہت سارے سمجھوتے کر لیے اور پارٹی اپنے مقاصد سے ہٹ گئی۔
ان کے مطابق  عمران خان میں سیاسی سمجھ بوجھ کی کمی ہے اور  مفاد پرست لوگ  انہیں  استعمال کرتے ہیں جس کی وجہ سے آج پارٹی حکومت میں آنے کے باوجود ڈیلیور کرنے میں ناکام ہے۔
"عمران خان تفصیلات میں نہیں الجھتے"
پارٹی  کے ایک اور بانی رکن اور سابق سیکرٹری انفارمیشن  اکبر ایس بابر  جنہوں نے  2011 میں پارٹی چھوڑی  کے مطابق  عمران خان ایسے نہیں تھے جیسے وہ آج ہیں۔ ان کے مطابق انسان وقت کے ساتھ تبدیل ہوتا ہے۔"میں نے 1996 میں ملک کے استحصالی نظام اور غربت سے تنگ آکر تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی تھی۔ اس وقت ایک جنون تھا تبدیلی کے لیے ۔ میں نے اپنے ہاتھوں سے کوئٹہ میں رکشوں پر عمران خان کے پوسٹرز لگائے۔ 
تاہم بعد میں دو انتخابات میں پارٹی کی مکمل ناکامی کے بعد انہوں نے عمران خان سے کہا تھا کہ وہ تمام فیصلے صرف ایک سیاسی مشاورتی کونسل  جس میں نامور وکیل حامد خان اور ڈاکٹر غامدی شامل تھے کے زریعے کریں جس پر انہوں نے اتفاق کیا۔
"اس وقت  ہماری پوری جماعت میری سبز کار میں آ جاتی تھی پھر ہم (مشاورتی کونسل ) نے 2002 سے 2011 تک عمران خان کی سیاسی برانڈنگ کرکے انہیں نوجوانوں  کا رہنما اور استحصالی نظام کے باغی کے طور پر پیش کیا جس کے بعد انہیں سیاسی کامیابی ملی اور 2011 کا کامیاب جلسہ منعقد ہوا۔۔مگر اس کے بعد عمران خان نے من مانی شروع کر دی اور  اپنے راستے سے ہٹ کر سیاسی مصالحت کا راستہ اپنا لیا۔ کامیاب جلسے  کے بعد پارٹی کو پیسہ ملنا شروع ہو گیا اور کرپشن کی شکایات بھی آنا شروع ہو گئیں۔ 
اکبر ایس بابر نے بعد میں عمران خان اور پی ٹی آئی  پر  بیرون ملک پارٹی فنڈز میں خردبرد کے الزامات بھی عائد کیے تھے جو ابھی بھی  الیکشن کمیشن  میں زیرسماعت ہیں۔اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے اکبر ایس بابر کا کہنا تھا کہ عمران خان کبھی بھی تفصیلات میں نہیں پڑتے تھے،سطحی بات کرتے ہیں۔"عمران خان ہمیشہ ہر پریس کانفرنس سے پہلے مجھے انگریزی میں کہتے تھے بابر میں ان تفصیلات میں نہیں الجھتا۔ اس لیے میں انہیں ہر موقع پر مینیج کرتا تھا  اور بعض اوقات سخت اندازمیں بھی بات کرتا تھا تاکہ پریس کے سامنے کوئی ایسی ویسی بات نہ کردیں۔ 
  • "عمران خان بنیادی سوچ پر قائم ہیں"

 سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق  صدر اور پی ٹی آئی کے پرانے رہنما حامد خان   کے مطابق پی ٹی آئی کے چہرے میں تبدیلی آئی ہے مگر  عمران خان غربت کے خاتمے ، انصاف کی فراہمی اور ملکی ترقی کی  اپنی بنیادی سوچ پر قائم ہیں۔اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پارٹی ابھی مقصد کے حصول کے لیے کوشاں ہے  لیکن ابھی اپنے مقاصد حاصل نہیں کر پائی۔"پارٹی میں بہت فرق آیا ہے اس میں ایسے لوگ بھی شامل ہوئے جو کسی طور  پی ٹی آئی کی سوچ اور نظریے کے مطابق نہیں لیکن بظاہر اقتدار کی کچھ مجبوریاں ہوتی ہیں۔ کوئی پارٹی بھی خالص نہیں ہوتی۔
ان کا کہنا تھا کہ اقتدار کا ملنا پارٹی کی منزل نہیں  بلکہ انصاف کا نظام پارٹی کی منزل ہے ۔
  • "کارکن مستقبل سے مایوس نہیں"

پارٹی کے دیرینہ کارکنان   پی ٹی آئی کے پہلے چند ماہ کی کارکردگی پر پریشان تو ہیں مگر مستقبل  کے لیے مایوس نہیں۔ اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے چترال سے پی ٹی آئی کے پرانے کارکن محمد علی جناح لال  کا کہنا تھا کہ 22 سال قبل پارٹی میں چند کارکن تھے۔"ہمیں یقین نہیں تھا کہ ہم کبھی اقتدار میں آئیں گے پھر بھی ہمیں امید تھی۔ 
ان کا کہنا تھا کہ پارٹی میں دوسری جماعتوں کے لوگوں کے آ جانے سے فرق نہیں پڑے گا کیوں کہ کپتان تو اب بھی عمران خان ہے۔ "دوسری جماعتوں میں اگر یہ لوگ کرپٹ بھی تھے تو انہیں ۔ہماری جماعت میں موقع نہیں ملے گا کیوں کہ عمران خان انہیں فری ہینڈ نہیں دے گا"
انہوں نے کہا کہ انہیں یقین ہے کہ عمران خان مشکلات پر قابو پا کر ملک کو ترقی کی راہ پر ڈالیں گے۔"منزل ابھی نہیں آئی مگر ہم انتظار کر رہے ہیں۔ 
اسلام آباد سے پی ٹی آئی کے کارکن سفیر خان نے اردو نیوز کو بتایا کہ حکومت میں آنے کے بعد پی ٹی آئی کے رہنماؤں کا رویہ کچھ بدل گیا ہے مگر انہیں امید ہے کہ پارٹی ملک کی خدمت میں کامیاب ہو گی۔"حکومت میں آنے سے پہلے وزرا ہمارے ساتھ اٹھتے بیٹھتے تھے اور ہر وقت دستیاب ہوتے تھے۔ آج کل چار چار دن چکر لگا کر بھی ان سے ملاقات نہیں ہو پاتی۔ مگر عمران خان کی موجودگی میں ہم مایوس نہیں۔ان کی عاجزی میں پہلے سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔

 "پی ٹی آئی اب ایک روایتی  پارٹی بن چکی ہے "

ممتاز صحافی اور تجزیہ کار نسیم زہرا  جو پی ٹی آئی کی پہلی سیکرٹری اطلاعات بھی رہی ہیں، کا خیال ہے کہ پی ٹی آئی اب ایک روایتی  پارٹی بن چکی ہے۔ " جب آپ کوشش کے مرحلے میں ہوں تو آئیڈیل ازم بہت ہوتا ہے مگر میں نے دوسال بعد ہی پارٹی کو اس وقت چھوڑا تھا جب اس میں روایتی سیاستدان شامل ہوگئے تھے۔ 
نسیم زہرا کے مطابق انہوں نے پارٹی میں شمولیت اختیار کی تھی تو ان کا خیال تھا کہ عمران خان اور پی ٹی آئی مختلف ویژن  کے ساتھ تبدیلی لا سکتے ہیں۔ تاہم  بعد میں پی ٹی آئی روایتی جماعت بن گئی۔ اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ عمران خان 23 سال قبل بھی وہی بات کرتے تھے جو آج کرتے ہیں لیکن اب حکومت ملنے کے بعد ان کے قول و فعل میں مطابقت نہیں ہے۔ "بہت سارے سوالیہ نشان ہیں، ان کی ٹیم میں جو لوگ ہیں ان کے بارے میں وہ پہلے کیا کہتے تھے اسی طرح معیشت کے حوالے سے وہ پہلے کیا کہتے تھے اور آج کل کیا کر رہے ہیں۔ 
ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کی سیاست سے بھی وہی ہے جو دوسرے سیاستدان کر رہے ہیں جس کے مطابق سیاست ممکنات کا کھیل ہے۔

  • "نہ خان صاحب بدلے نا پارٹی کا مشن بدلا"

پی ٹی آئی کے سنٹرل انفارمیشن سیکرٹری عمر سرفراز چیمہ  متفق ہیں کہ اقتدار ملنے کے باوجود  منزل  ابھی تک نہیں آئی۔"منزل اسلامی فلاحی ریاست ہے ہم نے اقتدار کا مرحلہ طے کر لیا ہے مگر ابھی منزل نہیں آئی۔
انہوں نے کہا کہ 23 سال کا عرصہ ایک لمبا سفر تھا جس میں کئی ساتھی بچھڑے کئی نئے ساتھی ملے ۔ہم پہلے دن سے ساتھ تھے آج بھی ہیں کیوں کہ ہمیں اپنی لیڈرشپ کی صلاحیتوں پر اعتماد ہے۔ اردو نیوز کے اس سوال پر کہ کابینہ میں ان جیسے پرانے کارکنوں کو جگہ کیوں نہ ملی عمر چیمہ کا کہنا تھا کہ کپتان کو پتا ہے کس پلیئر کو کس جگہ کھیلانا ہے۔" نہ خان صاحب بدلے نہ پارٹی کا مشن بدلا ہے۔ یہ ٹونٹی ٹونٹی میچ نہیں پانچ سال کا دور حکومت ہے ملک کو سنگین چیلنجز درپیش ہیں جن کا سامنا محنت اور جذبے سے کریں گے۔
 

شیئر: