Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سیہون کا قلعہ جس کے مقدر میں کئی بادشاہوں کی حکمرانی

افریقی سیاح کو رات چھت پر لیٹے روٹھی ہوئی نیند کو منانے کے لیے کافی پہر بیت گئے، سوتے وقت بھی اس کے ذہن میں ان لوگوں کے چہرے گھوم رہے تھے جن کی گردنیں تن سے جدا کر کے بیچ شہر میں ڈھیر کی گئی تھیں اور ان کے بقیہ اجسام قلعے کی دیواروں پر لٹک رہے تھے۔
یہ بنا گردنوں والی لاشیں سوتے وقت بھی اسی قلعے کی دیوار پہ لٹکی ہوئی تھیں۔ لاشوں کے اکڑے جسموں نے اجنبی کے بدن میں کپکپی پیدا کر دی تھی۔ رسیوں میں لٹکی ہوئی لاشوں نے ہوا کے جھونکے پر ہلنا شروع کیا۔ مردہ ہلتی پرچھایوں نے اس پر مزید دہشت طاری کر دی۔
صبح جب سورج طلوع ہوا تو اسی افریقی سیاح ’ابن بطوطہ‘ نے مدرسے سے سامان اٹھا کر دوسری جگہ رہائش اختیار کی۔ اب اس سے مزید ان مظلوم لوگوں کی بھوسہ بھری لٹکی ہوئی لاشیں دیکھنا برداشت نہ ہوئیں جن کو ہندوستان کے حکمران محمد تغلق کے حکم انحرافی کی وجہ سے قتل کرنے کے بعد سیہون کے قلعے کی دیواروں پر لٹکایا گیا تھا۔
یہ قصہ سندھ کے محقق اشتیاق انصاری نے اپنی کتاب ’سندھ جا کوٹ ائیں قلعا‘ میں سیہون شہر میں قائم قلعے کے حوالے سے بیان کیا ہے۔
ویسے تو سیہون کا جانا پہچانا تعارف لال شہباز قلندر ہی ہے، جن کے مزار پر جاتے ہوئے ہزاروں عقیدت مندوں کا مزاج بھی قلندرانہ ہو جاتا ہے۔ مگر اس شہر کی تاریخ کے حوالے سے بہت کچھ ایسا بھی ہے جسے جانے بنا آپ نہ تو حقائق تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں اور نہ ہی اس کی قدامت کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔

قلعے کے مقدر میں کئی بادشاہوں اور حکمرانوں کی حکمرانی لکھی تھی

اس بار میرے سفر کا مقصد قلندر کے مزار کے اسرار و رموز دیکھنا نہیں تھا بلکہ اس کے عقب میں مٹی کے ٹیلوں، برجوں اور ستونوں کو دیکھنا تھا، جو کسی زمانے میں قلعہ تھے۔ سیہون کا شہر حیدرآباد سے 130 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ ہر سال قلندر کے میلے میں ہزاروں زائرین یہاں ملک کے ہر حصے سے آتے ہیں۔
جس طرح ہر شہر کا ایک تاریخی پس منظر ہوتا ہے، اس کے نام کے ارتقائی مراحل ہوتے ہیں، اسی طرح سیہون شریف تک کا سفر بھی اس شہر نے ایک رات میں طے نہیں کیا ہے۔ 
سیہون شریف کا نام تاریخ میں سیستان یا سیوستان بیان کیا جاتا ہے۔ سیہون دراصل شو واہن کی بگڑی شکل ہے۔ جس کے معنی شو یا شو کے پجاریوں کی بستی ہے۔ جبکہ فارسی لفظ سیستان یا سیوستان کا مفہوم بھی یہی سمجھا جاتا ہے۔
مشہور سیاح ابن بطوطہ اپنے سفر نامے میں لکھتے ہیں کہ ’سندھ میں سیوستان نامی ایک شہر ہے جو دراصل شواستان تھا، یعنی شیو کا آستان، لیکن لوگوں کی زبان پر سیوستان مشہور ہو گیا۔‘

آج اس قلعے کو سنبھالنے والا کوئی نہیں ہے

شیو ہندو مت میں اعلیٰ درجے کا دیوتا مانا جاتا ہے، جوکہ ایک بہت ہی طاقتور دیوتا ہے۔ جسے برہما (تخلیق کرنے والا) شو (تباہ کرنے والا) وشنو (حفاظت کرنے والا) بھی کہا جاتا ہے۔ اس دیوتا کو تریمورتی بھی کہا جاتا ہے۔ جس کی پیشانی پر ابھری آنکھ غیرمعمولی عقل کی نشانی ہے۔
ایک روایت کے مطابق انہوں نے اپنی بیوی کی جدائی میں دو بہت بڑے آنسو بہائے تھے۔ ان میں سے ایک کٹاس راج میں گرا جبکہ دوسرا اجمیر میں گرا۔ جبکہ اس دنیا کی تخلیق کے حوالے سے بھی کہا جاتا ہے کہ ان کے آنسوؤں سے وجود میں آئی۔
لیکن اس شہر کا یہ نام اسلام کی آمد کے بعد تبدیل ہو گیا۔ راجا داہر کے زمانے مین سیہون کے قلعے کا حکمران راجا داہر کا چچا زاد بھائی تھا، سیہون کو سکندر اعظم کے دور میں سنڈیمانا کہا جاتا تھا۔ اس کے بعد قلندر شہباز کے سکونت پذیر ہونے کے بعد سیہون کو شہرت ملی۔
آج جب سندھ میں قلعے مٹی کے ڈھیر میں تبدیل ہو رہے ہیں، یہ کسی زمانے میں بہت ہی مضبوط قلعے رہے ہوں گے، مگر کوئی قلعہ کتنا ہی مضبوط کیوں نہ ہو اس میں کمزوریاں ضرور ہوتی ہیں اور یہی کمزوریاں کسی بادشاہت کی شکست کی وجہ بنتی ہیں۔
سیہون کے قلعے کی قدامت کے حوالے سے کئی محقق اس رائے کے حامی ہیں کہ جب سکندر اعظم سندھ میں داخل ہوا تو یہ قلعہ موجود تھا۔ سکندر کے ساتھ آئے ہوئے مورخین نے سندھ کے جن شہروں کا ذکر کیا ہے، ان میں ایک کا نام سنڈیمانا ہے۔ سکندر موسیکانوس فتح کرنے کے بعد سنڈیمانا کے لیے نکلا۔ محقق موسیکانوس کو اروڑ جبکہ سنڈیمانا کو سیہون کہتے ہیں۔
ہندوستان میں اکبر بادشاہ کے زمانے میں سندھ میں مرزا جانی بیگ کی حکمرانی تھی۔ 1573 میں مغلوں نے بھکر کا قلعہ فتح کر لیا تھا مگر ملتان کے مغل گورنر نے سیہون اور ٹھٹہ کو فتح کرنے والی افواج کو شکست دی۔ اس لیے اکبر نے مزید افواج بھیجی۔ 1591 میں سیہون کے قریب جنگ ہوئی جس میں مرزا جانی بیگ کی شکست کے بعد مغل فوج کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔

ویسے تو سیہون کا جانا پہچانا تعارف لال شہباز قلندر ہی ہے

اشتیاق انصاری اپنی کتاب ’سندھ جا کوٹ ائیں قلعہ‘ میں لکھتے ہیں کہ کننگمام اور کؤزن بھی سنڈیمانا سے مراد موجودہ سیہون کی ہی ہے۔ البتہ مشہور یونانی جہازران نیئرکس کی کتاب ووئیج نیئرکس کے مرتب ولیم وئسینٹ نے سوگدی سے مراد سکھر اور موسیکانوس سے مراد سیہون لی ہے۔
وہ لکھتے ہیں ’سیہون بدھ کے شہزادے راجا بھارا تاری کا دارالحکومت تھا، جسے ان کے بھائی وکر اہادیتوا چندرگپتا نے اجین سے بے دخل کیا، جوکہ گپتا خاندان کا تیسرا حکمران تھا۔‘
رائے گھرانے کے دور میں بھی سیوستان کا ذکر ملتا ہے اس دور میں سیوستان ایک بہت بڑا علاقہ تھا، چچ نامہ میں اس کا مختصر احوال یوں ہے۔ ’رائے سہیرس بن ساہسی رائے کی حکومت کی سرحدیں مشرق سے کشمور تک مغرب سے مکران تک جنوب سے سمندر کنارے دیبل تک اور شمال سے کیکانان تک تھیں۔وہ خود اروڑ کی تخت گاہ پر بیٹھے۔ اور اس زمانے میں چار حکمران مقرر کیے۔ ایک حکمران برہمن آباد، دوسرا سیوستان کی دیکھ بھال کرتا تھا، تیسرا اسکلندہ اور چوتھا ملتان پر مامور تھا۔‘
راجا سمیرس کی وفات کے بعد ان کے وزیر چچ بن سیلاج تخت پر براجمان ہوئے۔ وہ اروڑ، اسکلندہ، سکہ اور ملتان کو تابع کرکے کشمیر کی سرحدیں مقرر کرکے واپس لوٹ آئے۔ بعد میں وہ سیستان کے راجا متی کو زیر کرنے کے لیے روانہ ہوئے جس میں سیستان کے راجا متی شکست سے دوچار ہوئے۔ اس طرح یہ قلعہ چچ کے قبضے میں آ گیا۔

آنے والے دنوں میں مٹی کے ٹیلے کی طرح دکھائی دینے والا قلعہ شاید برسات میں بہہ جائے

ماہر آثار قدیمہ پروفیسر ڈاکٹر محمد علی مانجھی اس خیال کے حامی ہیں کہ ”سکندر اعظم کے حوالے سے جو رائے فرنچ آثار قدیمہ کی ماہر مونیک کروران کی ہے وہ کافی بہتر ہے، ان کا کہنا ہے کہ ماضی میں تمام تر تجارتی مراکز دریا کے کناروں پر قائم ہوئے ہیں۔ در حقیقت یہ جگہ شو آستان ہی تھی، جہاں بگھوان شو کے ماننے والے رہا کرتے تھے۔ اس قلعے کی تعمیر بعد میں ہوئی، گوکہ یہ قلعہ ق۔ م کے شواہد پیش کرتا ہے مگر یہ وثوق سے نہیں کہا جاتا یہ یہی وہ قلعہ ہے جہاں سے سکندر کا گزر ہوا تھا۔‘
مگر اس قلعے کے مقدر میں کئی بادشاہوں اور حکمرانوں کی حکمرانی لکھی تھی، اس لیے یہ قلعہ بہت سے دیگر حکمران کے قبضے میں رہا۔ سندھ میں تغلق دور میں بھی یہ قلعہ موجود تھا۔ سندھ میں تغلق دور میں ہندستان کے بادشاہ محمد بن تغلق شاہ کی جانب سے عمادالملک موجود تھے۔ اس کے علاوہ اچ، بکھر اور سیوستان میں بھی سرکاری کارندے تھے۔

سیہون میں ایک ہندو ایسا بھی تھا جو کہ چند امیروں کے ساتھ ہندستان کے بادشاہ محمد بن تغلق کی دربار میں پہنچا۔ بادشاہ نے اس سے متاثر ہو کر اسے ’سندھ سرکار‘ کے لقب سے نوازا۔ اسے جو جاگیر عطا کی اس میں سیہون بھی تھا۔ مگر جام انڑ اور قیصر رومی نے اسے برداشت نہیں کیا اور اسے قتل کروا کر خزانے پر قبضہ جما لیا۔ جام انڑ کو وہاں کے لوگوں نے سردار مان کر اسے “ملک فیروز” کے لقب سے نوازا۔
وہ لشکر جمع کرنے کے لیے لاڑ کی جانب روانہ ہوا۔ سیہون میں بچے ہوئے لشکر نے قیصر رومی کو اپنا سردار بنا لیا۔ اس واقعے کا پتہ جب سلطان محمد بن تغلق کے مقرر کیے ہوئے سندھ کے امیر الامرا عمادالمالک کو چلا تو وہ لشکر لیکر سیہون پہنچ گیا۔
قیصر رومی نے اس کا مقابلہ کیا مگر جب عمادالمالک کو کوئی کامیابی نہ ملی تو امیر قیصر کو صلح کا پیغام بھیجا گیا۔ مگر صلح ہونے کے بعد امیر نے قیصر کو گرفتار کرکے قتل کروا دیا۔
اس واقعے کو ابن بطوطہ نے اس طرح بیان کیا ہے۔
’تب ان سے وعدہ خلافی کرکے ان کا مال و اسباب ضبط کرکے انہیں قتل کا حکم دیا، پھر ہر روز ان میں سے چن چن کر لوگوں کو قتل کرواتا تھا اور ان کی کھالیں اتروا کر ان میں بھوسہ بھروا کر قلعے کی دیواروں پر لٹا دیا کرتا تھا۔ جس کی وجہ سے قلعے کی اکثر دیواروں پر یہ کھالیں لٹکتی رہتی تھیں۔ جنہیں دیکھ کر لوگ دہل جاتے تھے۔‘

آج اس قلعے کا رقبہ سکڑ گیا ہے۔ جسے دیکھ کر لگتا ہے کہ یہ مٹی کا کوئی بہت بڑا سا ڈھیر ہے

یہ قلعہ ان تمام ادوار سے گزر کر ارغون اور ترخان حکمران کے گھوڑوں کی ٹاپوں تلے بھی روندا گیا۔ ہم یہ تو نہیں جانتے کہ اس قلعے کے برج کب کمزور پڑے اور کب اس کی دیواریں چور چور ہونا شروع ہوئیں۔ مگر اس پر زوال کے کالے بادل چھا گئے۔
آج اس قلعے کا رقبہ سکڑ سا گیا ہے جسے دیکھ کر لگتا ہے کہ یہ مٹی کا کوئی بہت بڑا سا ڈھیر ہے۔ برج مٹی کے، دیواریں مٹی کی اور فصیلیں مٹی کی۔ اب صرف کہیں کہیں ہی پکی اینٹیں قلعے کی دیواروں میں گڑی ہیں۔ باقی تو سب کچھ ختم ہو چکا ہے۔

آنے والے دنوں میں مٹی کے ٹیلے کی طرح دکھائی دینے والا قلعہ شاید برسات میں بہہ جائے

سیہون کے قلعے کی دیواروں اور برجوں میں اب دراڑیں پڑ چکی ہیں۔ اور برسات کے موسم میں اس قلعے کی بچی ہوئی عمارت قطرہ قطرہ پانی میں بہہ رہی ہے۔ بہت سی زمین اب قبضے میں آ چکی ہے اور صرف مختصر سا حصہ ہے جو علامتی طور قلعے کا مظہر ہے۔ میں نے اس قلعے سے سیہون شہر کو دیکھا، جس کی تاریخ ہمیں بہت کچھ بتاتی ہے مگر آج اس قلعے کو سنبھالنے والا کوئی نہیں ہے۔
آنے والے دنوں میں مٹی کے ٹیلے کی طرح دکھائی دینے والا قلعہ شاید برسات میں بہہ جائے، مگر قلعے اور اسے فتح کرنے والے حکمرانوں کے قصے ہمیں صرف تاریخ کے اوراق میں ملتے رہیں گے۔   

نوٹ: تمام تصاویر اختر حفیظ کی بنائی ہوئی ہیں 

 

شیئر: