Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

منڈیلا اور آج کے رہنما، کیا ان کا کوئی موازنہ ہو سکتا ہے؟

کیا آج کوئی نیلسن منڈیلا کے پائے کا رہنما ہے؟ (فوٹو: اے ایف پی)
جب وہ اُس دروازے کی طرف بڑھے جو آزاد فضا میں کُھلنا تھا تو اس سے قبل فیصلہ کر چکے تھے کہ ’اگر آج میں نے اپنی نفرت اور تلخ یادوں کو یہیں نہ چھوڑا تو ہمیشہ قیدی رہوں گا۔‘
تقریبا 27 سال بعد رہائی کے وقت یہ خیالات رکھنے والی شخصیت دوران قید جھنجھلاہٹ کے اس دور سے بھی گزری جب شریک حیات کو خط میں لکھا:
’میں غصے میں لال ہو رہا ہوں، جسم کا ہر حصہ، ہر ہڈی، میری روح، خون کی نالیوں میں بے تحاشا نفرت بھر چکی ہے۔ میں اتنا بے بس کیوں ہوں کہ ان مشکل حالات میں آپ کی کوئی مدد نہیں کر سکتا۔‘
بچوں کو لکھا:’تمہیں شاید لمبے عرصے تک یتیم کی زندگی گزارنا پڑے، اب نہ تو برتھ ڈے ہو گا ، نہ کرسمس پارٹی، نئے ملبوسات ملیں گے اور نہ ہی نئے کھلونے۔‘
نسل پرست انتظامیہ نے انہیں والدہ اور جوان بیٹے کی اچانک موت کی خبریں تو دیں لیکن جنازوں میں شریک نہیں ہونے دیا۔

1993 میں ان کو نسلی امتیاز کے خلاف جدوجہد پر امن کا نوبیل پرائز دیا گیا (فوٹو: اے ایف پی)

 لیکن اس کے باوجود اپنے اس تصور ’برابری‘ سے پیچھے نہیں ہٹے جس کے بارے میں کہتے تھے کہ ’اس کو حاصل کرنے کے لیے جینا چاہتا ہوں تاہم مرنا بھی پڑے تو تیار ہوں۔‘
ایک سو ایک سال قبل آج ہی کے روز جنوبی افریقہ میں پیدا ہونے والے سیاہ فام بچے کو پہلے امتیازی سلوک کا سامنا اس وقت کرنا پڑا جب سکول میں داخل کرایا گیا۔ ان کا خاندانی نام رولیلاہل منڈٰیلا تھا لیکن اس وقت کے قانون کے مطابق داخلے کے لیے انگریزی نام ہونا ضروری تھا اس لیے ٹیچر نے نیلسن لکھ دیا۔
نوجوانی کی دہلیز پر قدم دھرنے تک وہ، وہ تمام زیادتیاں بھگت چکے تھے جو سیاہ فاموں کے ساتھ ہوتی تھیں۔ ان کو سفید فاموں کے مقابلے میں کمتر سمجھا جاتا تھا۔ بطور غلام خریدوفروخت عام تھی۔ ووٹ کا حق نہیں تھا۔

ایک سو ایک سال قبل آج ہی کے روز جنوبی افریقہ میں پیدا ہونے والے سیاہ فام بچے کو پہلے امتیازی سلوک کا سامنا اس وقت کرنا پڑا جب سکول میں داخل کرایا گیا

وقت کے ساتھ ساتھ منڈیلا میں احساس محرومی بڑھتا رہا۔ یہ نوآبادیاتی دور تھا۔ انہوں نے حقوق کے لیے آواز اٹھانا شروع کی۔ جلد ہی انتظامیہ کی نظروں میں آئے اور پکڑ دھکڑ کا سلسلہ شروع ہوا۔
ان پر روز مقدمے بنتے۔ ہر بار رہا ہونے پر گھر جانے کے بجائے تحریک میں سرگرم ہو جاتے۔ چونکہ سفید فام سرکار ان پر خاص نظر رکھتی تھی اس لیے وہ بھیس بدل کر مختلف شہروں میں جاتے اور زیادہ تر رات کے وقت نکلتے۔
مقامی انتظامیہ نے ان کا کوڈ ’کالا جنگلی‘ رکھا ہوا تھا، پولیس کے ساتھ ان کی آنکھ مچولی چلتی رہتی۔ اس وقت یورپین اخبار ان کوBlack pimpernel لکھتے تھے جو ایک پودے کا نام ہے جبکہ یہ ماضی کا وہ کردار بھی ہے جس نے فرنچ انقلاب کے دوران بھیس بدل کر بے شمار لوگوں کو ’گلوٹین‘ سے بچایا تھا۔

1961 میں نیلسن منڈیلا کی نسلی امتیاز کے خلاف تحریک کے دوران لی گئی یادگار تصویر۔ (فوٹو اے ایف پی)

وہ انسانی حقوق کے اس قدر علمبردار تھے کہ ایک بار کہا کہ ’کبھی سیاہ فاموں نے بھی نسلی امتیاز کا سہارا لیا تو ان کے خلاف کھڑا ہو جائوں گا۔‘
40 کی دہائی کے آغاز تک وہ گرتے پڑتے وکالت کی تعلیم تک پہنچ چکے تھے وہ کلاس میں واحد سیاہ فام تھے۔ انہی دنوں افریقی نیشنل کانگریس کے جلسوں میں شرکت شروع کی اور جب 1944 میں افریقن کانگریس یوتھ لیگ قائم ہوئی تو اس کے سرگرم رکن کے طور پر سامنے آئے۔
مارچ 1960 میں ایک احتجاج پر گولی چلائی گئی جس سے 59 سیاہ فام ہلاک اور چار سو زخمی ہوئے۔ اس سے تحریک کو مہمیز ملی، سیاہ فاموں نے احتجاجاً شناختی پاس جلانا شروع کر دیے جس پر دنیا کا میڈٰیا اس جانب راغب ہوا۔
پانچ اگست 1962 میں پھر گرفتار ہوئے۔ دو برس تک مقدمہ چلا اور عمرقید سنا کر جزیرہ روہن میں قید کر دیا گیا۔ یہاں وہ 1982 تک رہے۔ پھر جیل منتقل کیے گئے۔

نیلسن منڈیلا کی رہائی کی خبر پر جنوبی افریقہ کے سیاہ فام شہری سڑکوں پر نکل آئے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

اے این سی ان کی رہائی کے لیے تحریک چلاتی رہی۔ اس دوران حکومت نے اے این سی کے ساتھ مذاکرات شروع کیے۔ 1989 میں پہلے صدر بوتھا اور بعدازاں صدر ایف ڈبلیو ڈی کلارک نے منڈیلا سے ملاقات کی اور گیارہ فروری 1990 میں ان کو رہا کر دیا گیا۔
1993 میں ان کو نسلی امتیاز کے خلاف جدوجہد پر امن کا نوبیل انعام دیا گیا۔  1994 میں سیاہ فاموں کو برابری کے حقوق دے کر انتخابات منعقد کرائے گئے اور نیلسن منڈیلا صدر منتخب ہو گئے۔

2009 میں اقوام متحدہ نے 18 جولائی کو ’یوم منڈیلا‘ کے طور پر منانے کا اعلان کیا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

مدبرانہ اقدامات

صدر بنتے ہی اعلان کیا ’سرکاری عہدوں پر کام کرنے والے تمام سفید فام کام جاری رکھیں، کسی کو فارغ نہیں کیا جائے گا۔ وہ بھی ملک کے برابر شہری ہیں۔ آج کے بعد میرا کوئی ذاتی یا سیاسی مخالف نہیں۔ میں اس ملک کا عام شہری ہوں، میرے ساتھ بھی وہی سلوک کیا جائے جو عام شہری کے ساتھ ہوتا ہے‘ وہ چاہتے تو مخالفین سے ایسا انتقام لے سکتے تھے کہ دنیا یاد کرتی لیکن انہوں نے جو کیا وہ بھی کبھی دنیا بھلا نہیں سکے گی۔
پانچ سال تک ایسے اقدامات کیے کہ ملک امن کا گہوارہ بنا۔ جس کا ثبوت کرکٹ، فٹ بال اور رگبی کے عالمی کپس کی میزبانی ہے۔ انہوں نے کینسر کی تشخیص کے بعد مصروفیات سے ریٹائرمنٹ لی اور باقی وقت فیملی کے ساتھ گزارا۔ پانچ دسمبر 2013 کو 95 برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔
موت کے بارے میں نیلسن منڈیلا کہا کرتے تھے ’جب انسان وہ ذمہ داری پوری کر لیتا ہے جو قدرت نے اس کے ذمے لگائی ہوتی ہے تو سکون سے مر سکتا ہے، مجھے یقین ہے میں اپنی ذمہ داری نبھا چکا ہوں۔‘
2009 میں اقوام متحدہ نے 18 جولائی کو ’یوم منڈیلا‘ کے طور پر منانے کا اعلان کیا جو آج بھی منایا جا رہا ہے۔

جیسنڈا آرڈرن  کو نسلی امتیاز کے خلاف علامت کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

موجودہ لیڈرز میں کوئی منڈیلا ہے؟

ویسے تو تمام ہی سیاست دان خود کو منڈیلا ثابت کرنے پر تلے رہتے ہیں لیکن کیا ایسا ہے؟ آئیے دیکھتے ہیں۔

جیسنڈا آرڈن

نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جیسنڈا آرڈرن نے پچھلے کچھ عرصہ میں ایسا کردار ادا کیا کہ ان کو نسلی امتیاز کے خلاف علامت کے طورپر سامنے رکھا جا سکتا ہے۔ چند ماہ پیشتر دو مساجد پر ہونے والے حملوں کے بعد جس طرح انہوں نے مسلمانوں کی دلجوئی کی اس سے کسی حد تک منڈیلا کی یاد تازہ ہوئی۔

انجیلا مرکل

جرمن چانسلر انجیلا مرکل نسلی امتیاز کے خلاف اہم اکائی کے طور پر اس وقت سامنے آئیں جب بیشتر یورپی ممالک شامی مہاجرین کو پناہ دینے سے انکاری تھے، شامی بچے ایلان کردی کی جاں کُن تصویر سامنے آنے کے بعد جرمن چانسلر نے مہاجرین کے لیے دروازے کھولنے کا اعلان  کیا۔

آنگ سان سوچی

برما سے تعلق رکھنے والی یہ شخصیت بھی آمریت کے خلاف ایک طویل جدوجہد رکھتی ہیں۔ انہوں نے قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کیں، انہی خدمات پر انہیں نوبل پرائز سے نوازا گیا۔ 2010 میں وہ ملک کی سربراہ بنیں، تاہم بعدازاں میانمر میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم پر خاموشی کی وجہ سے ان کی شخصیت متنازع ہو چکی ہے۔

جسٹن ٹروڈو

کینیڈین وزیر اعظم بھی انسان دوستی کے حوالے سے اچھی شہرت رکھتے ہیں۔ انہوں نے شامی پناہ گزینوں کا خود استقبال کیا تھا۔

ترکی کے صدر ملک میں ہردلعزیز ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

طیب اردگان

ترکی کے صدر ملک میں ہردلعزیز ہیں۔ عوامی طاقت سے ہی ان کے خلاف ہونے والی فوجی بغاوت ناکام ہوئی، انہوں نے بھی شامی مہاجرین کو پناہ دینے کا اعلان کیا تھا۔

بارک اوباما

سابق امریکی صدراوباما ان لوگوں میں سے ہیں جو منڈیلا اور مارٹن لوتھر کنگ کی جدوجہد کی بدولت ہی اس عہدے تک پہنچے۔ وہ امریکہ کے پہلے سیاہ فام صدر تھے۔ انہوں نے بھی ایک طویل جدوجہد کی۔

سابق کرکٹر 1992 کا کرکٹ ورلڈ کپ جیتنے کے بعد سیاست میں آئے تھے (فوٹو: اے ایف پی)

پاکستانی قائدین

نواز شریف

تین بار ملک کے وزیر اعظم رہنے والے نواز شریف کی قید اور جلاوطنی کے ادوار کو دیکھا جائے تو ان کی جدوجہد بھی کافی طویل لگتی ہے دو مرتبہ ان کی حکومت گرائی گئی، جیلوں میں ڈالا گیا، تقریباً نو سال تک جلاوطن ہونا پڑا اور آج کل بھی جیل میں ہیں۔

آصف علی زرداری

سابق صدر آصف علی زرداری ان رہنمائوں میں سے ہیں جنہوں نے طویل قید کاٹی۔ نو سال تک مختلف مقدمات میں عدالتوں کا سامنا کرتے رہے۔ آج کل بھی زیر حراست ہیں اور ان کے خلاف احتساب عدالت میں کیس چل رہے ہیں۔

عمران خان

سابق کرکٹر 1992 کا کرکٹ ورلڈ کپ جیتنے کے بعد سیاست میں آئے۔ تحریکیں بھی چلائیں، فلاحی کاموں میں بھی رہے اور 22 سال کی جدوجہد کے بعد وزیر اعظم بننے میں کامیاب ہوئے۔
ان کے علاوہ بھی کئی لیڈرز ہیں لیکن کیا ان میں سے کوئی نیلسن منڈیلا یا ان سے قریب تر ہے؟ اس کا فیصلہ خود کر لیجیے۔

شیئر: