Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

تاریخی گرودوارہ سکھ ہیریٹیج میوزیم کیوں نہ بن سکا؟

سورج پورے جوبن پر ہے اور حبس شدت اختیار کرتا جا رہا ہے، اس کے باوجود یہاں اس قدر رش ہے کہ تل دھرنے کی جگہ نہیں، بازاروں کے سینوں کو چیرتی ہوئی مزدوروں کی ہتھ ریڑیاں چیخ چیخ کر کہہ رہی ہیں کہ شہر کی رونقیں اور ترقی ہمارے دم سے ہے۔ 
ہتھ ریڑھی رکتی ہے تو گویا ملکی معیشت کا پہیہ جام ہو جاتا ہے۔
یہ انگریز دور کی تاریخ اور پاکستان کی صنعتی ترقی کی داستان سناتے فیصل آباد کے مشہور زمانہ گھنٹہ گھر سے ملحقہ آٹھ بازاروں کا منظر ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ تقسیم سے قبل لائلپور کہلانے والے اس شہر میں سکھوں اور ہندوؤں کی اکثریت آباد تھی جبکہ مسلمان اقلیت میں تھے۔
عبادت کے لیے سکھوں اور ہندوؤں نے شہر میں مختلف مقامات پر گرودوارے اور مندر تعمیر کر رکھے تھے۔ گھنٹہ گھر کے کچہری بازار اور ریل بازار کے درمیان میں ایک وسیع و عریض گرودوارہ تھا جبکہ کارخانہ بازار اور ریل بازار کے درمیان میں ایک بلند و بانگ آریہ سماج مندر۔ 
وقت گزرا تو ان دونوں درگاہوں کو نئی پہچان ملی۔ مندر کو مہاجروں نے مسجد بنا لیا جبکہ گرودوارہ سکول میں تبدیل ہو گیا۔ 
1911 میں تعمیر ہونے والے اس عظیم الشان گرودوارے کو 'پاکستان ماڈل ہائی سکول' کا نام دیا گیا اور یہاں موجود سکھوں کی مذہبی نشانیاں آہستہ آہستہ ختم ہونے لگیں تاہم اس کا طرز تعمیر اور نقش و نگار آج بھی عہد رفتہ کی یاد تازہ کرتے ہیں۔

تقسیم سے قبل لائلپور کہلانے والے اس شہر میں سکھوں اور ہندوؤں کی اکثریت آباد تھی۔

گردوارے کے ماتھے پر لکھی گُرمکھی تو مٹ چکی ہے مگر اس کے اندر لگے سیوا کروائی کے پتھر آج بھی ویسے ہی دکھائی دیتے ہیں۔
'سری نیساں دی سیوا ماگھ 1 سمت خالصہ 140 نوں بھائی رتن سنگھ مہر سنگھ جی بجاج لائلپور نے کرائی۔ داس سکتر سری گرو سنگھ صاحب لائلپور 1911۔'
انتظامیہ کے مطابق اس وقت سکول میں محض 286 طالب علم زیرِ تعلیم ہیں تاہم عمارت کی خستہ حالی کے باعث اس تعداد میں سالہا سال کمی واقع ہو رہی ہے۔ سکول میں اس وقت کل 22 اساتدہ خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔
اردو نیوز کو محکمہ تعلیم فیصل آباد سے ملنے والی دستاویزات کے مطابق تقسیم سے قبل گرودوارہ دو حصوں میں تقسیم تھا، ایک حصے کو عبادت کے لیے استعمال کیا جاتا تھا جبکہ دوسرے حصے میں 'خالصہ گرلز مڈل سکول' قائم تھا جہاں سکھ بچیاں تعلیم حاصل کرتی تھیں۔ 
تقسیم کے بعد گرودوارے کو پاکستان ماڈل ہائی سکول بناتے ہوئے انجمن اسلامیہ لدھیانہ (رجسٹرڈ) نے اس کا اجراء 7 اکتوبر 1947 کو کیا۔ 1972ء میں جب اس وقت کے وزیراعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو نے پرائیویٹ اداروں کو نیشنلائز کرنا شروع کیا تو سکول کا نام 'گورنمنٹ پاکستان ماڈل ہائی سکول' رکھتے ہوئے اسے محمکہ اوقاف کے سپرد کر دیا گیا۔
جنرل ضیاء الحق صدر بنے تو انہوں نے 1985 میں گرودوارے کی کل پانچ کنال سات مرلے زمین کو محکمہ تعلیم کے نام کروا دیا۔

سکول کے لگ بھگ 50 کمرے ہیں جن میں سے 30 کے قریب قابل استعمال ہیں۔

سکول کے ہیڈ ماسٹر اختر حفیظ کے مطابق 1980 کی دہائی کے اوآخر تک ننکانہ صاحب میں بابا گرونانک کے جنم دن کی تقریبات میں شریک ہونے والے سکھ یاتریوں کی بڑی تعداد فیصل آباد میں اس سکول کا دورہ بھی ضرور کرتے تھے کیونکہ تب تک یہاں سکھوں کی مقدس کتاب گرو گرنتھ اور کرپان وغیرہ موجود تھی۔
'88-1987 میں سکھ یاتری یہاں سے اپنی تمام مقدس چیزیں لاہور لے گئے، اس کے بعد یہاں آنے والے یاتریوں کی تعداد کم ہوتی گئی جو اب نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔'
انتظامیہ کے مطابق سکول کے کل لگ بھگ 50 کمرے ہیں جن میں سے 30 کے قریب قابل استعمال ہیں جبکہ بقیہ بدحالی کی وجہ سے عرصہ دراز سے بند پڑے ہیں۔ بچوں کی تعلیم کے لیے استعمال ہونے والے کمرے بھی اس قدر خستہ حال ہیں کہ کسی بھی وقت کسی بڑے حادثے کا سبب بن سکتے ہیں۔
گرودوارے کی بحالی اور سکھ یاتریوں کو دوبارہ فیصل آباد لانے کی غرض سے سابق کمشنر فیصل آباد آصف اقبال نے فروری 2019 میں ایک نوٹیفیکیشن جاری کرتے ہوئے سکول میں 'سکھ ہیریٹیج میوزیم' بنانے کی منظوری دی تھی۔
کمشنر نے اس حوالے سے ایک 'فنڈ ریزنگ کمیٹی' بھی بنائی تھی جس میں ضلعی انتظامیہ، محکمہ تعلیم اور بار کونسل سمیت فیصل آباد چیمبر آف کامرس کے عہدیدار شامل تھے مگر چھ ماہ گزرنے کے باوجود بات نوٹیفیکیشن سے آگے نہیں بڑھ سکی۔
گورنمنٹ پاکستان ماڈل ہائی سکول کے ایک عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اردو نیوز کو بتایا کہ 'اصل کہانی کچھ یوں ہے کہ فیصل آباد کے سابق ڈی سی نورالامین مینگل نے مالی سال 17-2016 میں 30 لاکھ 60 ہزار روپے کی گرانٹ سے سکول کے ایک حصے کی تزئین و آرائش کروائی تھی مگر اس میں اتنا ناقص میٹیریل استعمال کیا گیا تھا کہ یہ حصہ چند ماہ بعد ہی دوبار تباہ حالی کا شکار ہو گیا اور اسے بند کرنا پڑا۔‘

سکول میں 286 طالب علم زیرِ تعلیم ہیں جبکہ کل 22 اساتدہ خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔

عہدیدار کے مطابق رواں سال کے آغاز میں کمشنر آصف اقبال سکول کے دورے پر آئے اور انہوں نے تزئین و آرائش کا کام دیکھا تو اپنے ساتھیوں سے کہنے لگے کہ 'میرے بس میں ہو تو میں اس ناقص کام پر نور الامین مینگل کو جیل میں ڈال دوں۔' 
اس کے بعد آصف اقبال نے ہیریٹیج میوزم کا منصوبہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔
فیصل آباد کی ایجوکیشن اتھارٹی کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر علی احمد نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا 'سکول میں میوزیم بنانے کا فیصلہ کرنے کے کچھ دن بعد ہی کمشنر صاحب کا تبادلہ ہو گیا جس کے بعد اس منصوبے پر کسی نے غور نہیں کیا، یہی وجہ ہے کہ کمشنر کی بنائی گئی فنڈ ریزنگ کمیٹی کی بھی آج تک کوئی میٹنگ نہیں ہو سکی۔'
علی احمد کے بقول ضلعی انتظامیہ چاہتی تھی کہ گرودوارے کو اس کی اصلی حالت میں بحال کرتے ہوئے یہاں میوزیم بنایا جائے اور سکھ یاتری دوبارہ فیصل آباد کا رخ کریں مگر افسوس کہ ایسا نہیں ہو سکا۔ 
دوسری طرف فیصل آباد کے موجودہ کمشنر جاوید محمود بھٹی نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انہیں سکھ میوزیم کے حوالے سے آصف اقبال کے شروع کیے گئے منصوبے کے بارے میں علم نہیں کیونکہ انہوں نے بطور کمشنر چند ماہ قبل ہی فیصل آباد میں عہدہ سنبھالا ہے۔

گردوارے کے ماتھے پر لکھی گُرمکھی تو مٹ چکی ہے مگر اندر لگے سیوا کروائی کے پتھر آج بھی ہیں۔

گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کے شعبہ پنجابی میں تدریسی فرائص سرانجام دینے والے سردار کلیان سنگھ کا تعلق ننکانہ صاحب سے ہے۔ 
فیصل آباد میں سکھ ہیریٹیج میوزیم کے قیام کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ یہ منصوبہ بہت اہم ہے اس کو جلد از جلد مکمل ہونا چاہیے مگر افسوس کہ یہاں کوئی کام بھی وقت پر نہیں ہوتا۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ننکانہ صاحب میں بابا گرونانک یونیورسٹی بنانے کا اعلان پانچ وزراء اعظموں اور تین وزرائے اعلیٰ نے کیا مگر یہ منصوبہ تاحال شروع نہیں ہوسکا۔
'آپ اس سے ہی اندازہ لگائیں کہ پاکستان میں ایسے کاموں پر کتنی توجہ دی جاتی ہے۔' 
کلیان سنگھ کے بقول فیصل آباد کی ضلعی انتظامیہ اگر یہاں میوزیم بناتی ہے اور سکھ مذہب میں مقدس سمجھی جانے والی اشیا اس میں رکھی جاتی ہیں تو سالانہ ہزاروں یاتری یہاں کا رخ کریں گے جس سے حکومت اچھا خاصا ریونیو اکٹھا کر سکتی ہے۔

شیئر: