پاکستان میں مقامی گیس کے ذخائر میں مسلسل کمی کے باعث وفاقی حکومت نے کچھ عرصے سے نئے گیس کنکشن جاری کرنے پر پابندی عائد کر رکھی تھی۔ تاہم اب وفاقی حکومت کی جانب سے حال ہی میں درآمد شدہ گیس یا آر ایل این جی کے کنکشن دینے کا آغاز کیا گیا ہے، جس کے بعد کسی حد تک شہریوں نے اپنے گھروں یا کمرشل مقامات کے لیے اس امپورٹڈ گیس سے منسلک ہونے میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔
پاکستان میں گیس فراہم کرنے والی دونوں کمپنیاں، یعنی ایس این جی پی ایل اور ایس ایس جی سی ایل شہریوں کو امپورٹڈ گیس کے کنکشن فراہم کر رہی ہیں۔ ان کنکشنز کے چارجز تو مقامی گیس جتنے ہی ہیں، تاہم گیس کی قیمت سوئی گیس کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہوگی۔
مزید پڑھیں
-
پی آئی اے کا ’فری فلائٹ‘ سکینڈل، لاکھوں مفت ٹکٹیں دینے کا انکشافNode ID: 894903
سب سے پہلے آپ کو یہ بتاتے چلیں کہ پاکستان میں اس وقت گھروں اور کمرشل مقامات پر جو گیس پائپ لائنوں کے ذریعے فراہم کی جا رہی ہے، وہ زیادہ تر مقامی گیس ہے جسے سوئی گیس کہا جاتا ہے۔
تاہم جب سوئی گیس کے ذخائر میں کمی آنے لگی تو حکومت نے سردیوں میں گیس کی طلب پوری کرنے کے لیے بیرونِ ملک سے ایل این جی یا آر ایل این جی منگوانا شروع کی، جسے امپورٹڈ گیس کہا جاتا ہے۔
اب چوں کہ حکومت یہ سمجھتی ہے کہ سردیوں کے بعد اس کے پاس امپورٹڈ گیس کا کچھ ذخیرہ بچ جاتا ہے اور مقامی گیس کے نئے کنکشن دینا ممکن نہیں، اس لیے حکومت نے فیصلہ کیا کہ کیوں نہ اسی امپورٹڈ گیس کو موجودہ سسٹم کے تحت گھریلو اور کمرشل صارفین تک پہنچایا جائے۔
اسی تناظر میں حکومت اب پاکستان بھر میں امپورٹڈ گیس کے گھریلو اور کمرشل کنکشن فراہم کر رہی ہے۔ تاہم یہاں یہ وضاحت کرنا ضروری ہے کہ حکومت یہ گیس موجودہ سسٹم، یعنی انہی پائپ لائنوں کے ذریعے فراہم کرے گی جن سے سوئی گیس پہنچتی ہے۔
’نرخ انٹرنیشنل مارکیٹ کے مطابق طے کیے جائیں گے‘
چنانچہ ماہرین یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ حکومت جس پائپ لائن میں سوئی گیس فراہم کر رہی ہو، اسی کے ذریعے ساتھ والے گھر کو آر ایل این جی گیس کیسے فراہم کرے گی؟ اردو نیوز نے اس حوالے سے آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) کے ترجمان عمران غزنوی سے رابطہ کیا۔
انہوں نے تصدیق کی کہ اوگرا نے گیس کمپنیوں کو ملک بھر میں امپورٹڈ گیس کے نئے گیس کنکشن دینے کی اجازت دے رکھی ہے، اور شہری پرانے طریقہ کار کے مطابق درخواست دے کر یہ کنکشن حاصل کر سکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’حکومت کو اگر مثال کے طور پر مقامی گیس چھ ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو پڑتی ہے تو امپورٹڈ گیس کی قیمت 16 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو تک پہنچ سکتی ہے۔ اس لیے اس کے نرخ انٹرنیشنل مارکیٹ کے مطابق طے کیے جائیں گے، یا یوں کہہ سکتے ہیں کہ موجودہ بلوں میں جو سب سے زیادہ سلیب ہے، وہ آر ایل این جی پر لاگو ہو گا۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’یہ گیس مقامی پائپ لائن سسٹم کے ذریعے ہی صارفین تک پہنچے گی، میٹر بھی وہی لگے گا، تاہم بلنگ آر ایل این جی کی قیمت کے مطابق ہو گی، اور اسی تناسب سے ادائیگی کرنا ہو گی۔‘
دوسری جانب گیس فراہم کرنے والی کمپنیوں کے نمائندوں کے مطابق ’ابتدا میں اس گیس کے حصول کا رجحان کم تھا، تاہم چوں کہ اب ایل پی جی کے مقابلے میں یہ گیس نسبتاً سستی پڑتی ہے، اس لیے شہریوں کی دلچسپی بڑھ رہی ہے۔‘
ان کے مطابق درخواست دینے کا طریقہ کار وہی ہے، اور شہری گیس میٹر کے لیے عام طریقے سے درخواست دے سکتے ہیں۔

آر ایل این جی کنکشن کے لیے درخواست پرانے طریقہ کار کے مطابق ہی دی جائے گی۔ گیس کمپنیوں کے مطابق ترجیح ان صارفین کو دی جائے گی جنہوں نے پہلے ہی ارجنٹ فیس یا ڈیمانڈ نوٹس جمع کرا رکھا ہے۔
نئے آر ایل این جی کنکشن کے لیے سکیورٹی ڈیپازٹ 20 ہزار روپے مقرر کیا گیا ہے جو قابلِ واپسی ہو گا، جبکہ 10 مرلے تک کے گھروں کے لیے سروس لائن فیس 3 ہزار روپے رکھی گئی ہے۔ ایسے صارفین جو ارجنٹ کنکشن چاہتے ہیں، وہ فاسٹ ٹریک ایپلیکیشن کے ذریعے درخواست دے سکتے ہیں، جس پر انہیں 25 ہزار روپے اضافی ادا کرنا ہوں گے، جبکہ ان کی قابلِ واپسی سکیورٹی فیس 28 ہزار روپے ہو گی۔
’گیس کمپنیاں اور اوگرا عوام کو بے وقوف بنا رہے ہیں‘
وفاقی حکومت کے نئے کنکشن دینے کے حوالے سے گیس کے شعبے کے ماہر اور اوگرا کے سابق ممبر محمد عارف نے کہا کہ ’گیس کمپنیاں اور اوگرا عوام کو بے وقوف بنا رہے ہیں کیونکہ اوگرا آرڈیننس میں آر ایل این جی اور قدرتی گیس میں کوئی فرق نہیں رکھا گیا۔ آرڈیننس میں گیس کی تعریف نیچرل گیس اور آر ایل این جی دونوں کو ملا کر کی گئی ہے، اس لیے آر ایل این جی کو الگ سے نئی اصطلاح کے طور پر پیش کرنا غلط ہے۔ البتہ آپ اسے امپورٹڈ گیس ضرور کہہ سکتے ہیں۔‘
انہوں نے نشاندہی کی کہ ’آر ایل این جی چوں کہ اسی پائپ لائن سے فراہم کی جائے گی جس سے سوئی گیس جاتی ہے، اس لیے صارفین کو معلوم نہیں ہوگا کہ انہیں مقامی گیس مل رہی ہے یا امپورٹڈ گیس۔ یہی سب سے بڑا سوال ہے کہ حکومت اس فرق کو کیسے یقینی بنائے گی؟‘

اس سوال پر کہ کیا آر ایل این جی، ایل پی جی سے سستی ہو گی؟ محمد عارف کا کہنا تھا کہ ’بظاہر آر ایل این جی، ایل پی جی سے سستی ہونی چاہیے کیونکہ ایل پی جی کے ایم ایم بی ٹی یوز امپورٹڈ گیس کے مقابلے میں مہنگے ہیں، تاہم اگر آر ایل این جی پائپ لائن سے مسلسل فراہم کی جاتی رہی تو صارفین کے لیے یہ مہنگی بھی پڑ سکتی ہے کیونکہ ایل پی جی استعمال کرنے والے صارفین اپنی کھپت کو کنٹرول کر سکتے ہیں، مگر پائپ لائن گیس پر ایسا ممکن نہیں۔‘
’آر ایل این جی کا کنکشن بہتر متبادل ثابت ہو سکتا ہے‘
توانائی کے شعبے پر گہری نظر رکھنے والے ماہر اور سینیئر صحافی خلیق کیانی کے مطابق ’جو شہری ایسے علاقوں میں رہتے ہیں جہاں پائپ لائن گیس میسر نہیں اور وہ ایل پی جی استعمال کر رہے ہیں تو ان کے لیے آر ایل این جی کا کنکشن بہتر متبادل ثابت ہو سکتا ہے۔‘
تاہم انہوں نے بھی سوال اٹھایا کہ ’حکومت ایک ہی پائپ لائن میں مقامی اور امپورٹڈ گیس کا فرق کیسے کرے گی؟‘
خلیق کیانی نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ ’اگر کسی مخصوص پلازے یا علاقے کو صرف آر ایل این جی دی جائے تو یہ ممکن ہے، لیکن جہاں گھریلو صارفین کا بڑا نیٹ ورک پہلے سے موجود ہے، وہاں مخصوص صارف تک امپورٹڈ گیس پہنچانا ایک مشکل کام ہو گا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’بعض گھروں میں ایک پرانا کنکشن مقامی گیس پر ہو گا جبکہ نیا کنکشن آر ایل این جی پر، جس کی قیمت دگنی ہو گی۔ سوال یہ ہے کہ حکومت ایک ہی لائن پر یہ فرق کیسے برقرار رکھے گی؟‘

سینیئر صحافی نے مزید کہا کہ ’اگر ایل پی جی اور امپورٹڈ گیس کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو ایل پی جی مالیکیولر ساخت کے لحاظ سے نسبتاً مہنگی ہے کیونکہ اس میں یو ایف سی کم ہوتا ہے۔ تاہم ایل پی جی سلنڈر میں صارف کو اپنی مرضی سے استعمال روکنے یا شروع کرنے کی سہولت ہوتی ہے، جبکہ پائپ لائن گیس میں ایسا ممکن نہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’حکومت کا بنیادی مقصد امپورٹڈ گیس کے اضافی ذخائر کو استعمال میں لانا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آنے والے دنوں میں حکومت اپنے یہ اہداف حاصل کر پاتی ہے یا نہیں۔‘
کیا آر ایل این جی صارفین کو لوڈشیڈنگ کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا؟
گیس ماہرین کے مطابق حکومت اگر کسی مخصوص علاقے میں صرف آر ایل این جی کنکشن دیتی ہے تو وہاں لوڈشیڈنگ کے امکانات کم ہو سکتے ہیں، لیکن چونکہ زیادہ تر نئے کنکشن انہی پائپ لائنوں کے ذریعے دیے جا رہے ہیں جن سے سوئی گیس پہلے سے فراہم کی جا رہی ہے، اس لیے ایسے صارفین لوڈشیڈنگ کا سامنا کرتے رہیں گے۔












