Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بحری بیڑے پر ہونے والا معاہدہ

جاپان نے شکست کے معاہدے پر دستخط امریکی بحری بیڑے پر کیے (فوٹو:ہسٹری ڈاٹ کام)
یہ 2 ستمبر 1945 کا دن ہے۔
خلیج ٹوکیو میں لنگر انداز امریکی بحری بیڑے ’یو ایس ایس میسوری‘ کے جہاز کے مرکزی کھلے حصے میں ایک میز رکھی جا چکی ہے۔
میز کے اوپر کچھ فائلیں پڑی ہیں اور اس کے گرد دو کرسیاں پڑی ہیں۔ ان کے پیچھے کچھ لوگ کھڑے ہیں۔
یہاں تھوڑی ہی دیر میں ایک تقریب منعقد ہونے والی ہے۔
یہ تقریب محض 23 منٹ جاری رہے گی، لیکن یہ دنیا کی تاریخ کے اہم ترین واقعات میں سے ایک ہے۔
کرسیوں پر براجمان ہونے والی شخصیات ابھی نہیں پہنچیں۔
کرسیوں کے پیچھے کھڑے افراد امریکہ اور اتحادی افواج کے حکام ہیں۔ ماحول میں تناؤ ہے، کیونکہ اتحادی افواج کے کمانڈرز آگاہ ہیں کہ کچھ جاپانی فوجی ہتھیار ڈالنے سے انکاری ہیں۔
 اس لیے جاپانی شہنشاہ کی جانب سے اعلان کے باوجود یہ کھٹکا ہے کہ جنگ پھر سے نہ چھڑ جائے۔
شش و پنج میں مبتلا حکام ایک دوسرے کی جانب دیکھتے ہیں، ایسے میں جاپانی فوجی حکام بیڑے پر پہنچ جاتے ہیں اور تقریب کا باقاعدہ آغاز ہو جاتا ہے۔
یہ تقریب خصوصی طور پر سجائی گئی ہے۔ جاپان سے شکست کی دستاویزات پر دستخط کروانے کے لیے۔

جاپانی شہنشاہ کی جانب سے ہتھیار ڈالنے کے اعلان کے بعد فوجیوں کو یقین نہیں آرہا تھا (فوٹو: ویکی پیڈیا)

جاپان دوسری عالمی جنگ ہار چکا ہے۔
اس کے شہنشاہ ’ہیروہیتو‘ نے دو ہفتے قبل ہی ہتھیار ڈال دیے تھے۔
لیکن کچھ فوجیوں نے اس فیصلے کو قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا اور پھر سے لڑائی چھیڑ دی تھی۔ باوجود اس کے کہ چھ اور نو تاریخ کو ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرا دیے گئے تھے۔
لاکھوں جاپانی ہلاک ہو چکے تھے اور لاکھوں کی تعداد میں زخمی تھے۔ زیادہ تر ہسپتال تباہ ہو چکے تھے اور جو بچے تھے، ان میں زخمی رکھنے کی گنجائش نہیں تھی۔
تابکاری کے اثرات ہر طرف پھیل چکے تھے۔ پورا جاپان سوگ میں ڈوبا تھا۔ خبریں ختم ہوگئی تھیں۔
اس کے باوجود دو ستمبر کو جب تک جاپانی وفد یوایس ایس میسوری پر نہیں پہنچا، فضا میں غیر یقینی اور وسوسے کی کیفیت چھائی رہی۔
 شکست کی دستاویز پر سب سے پہلے جاپان کے وزیر خارجہ ’مامورو شیگے میتسو‘ نے شہنشاہ اور جاپانی حکومت کی نمائندگی کرتے ہوئے دستخط کیے۔
اس کے بعد امریکا، سوویت یونین، چین، آسٹریلیا، کینڈا، فرانس، ہالینڈ اور نیوزی لینڈ کے نمائندوں،  جاپانی فوج کے سربراہ جنرل ’یوشی جیرواُمیزو‘ اور امریکی جنرل ’ڈگلس میک آرتھر‘ نے دستخط کیے۔
پھر جاپانی آرمی چیف جنرل ’یوشی جیرواُمیزو‘ نے اپنا سروس ریوالور نکال کر میز پر رکھ دیا جو ہتھیار ڈال دینے کا باقاعدہ اظہار تھا۔

امریکہ کی جانب سے ایٹم بم پھینکنےکی وجہ سے تابکاری کے اثرات دیر تک رہے (فوٹو: ویکی پیڈیا)

 معاہدے میں درج تھا کہ ’جاپانی افواج کے اہلکار جہاں کہیں ہیں وہ اتحادی افواج کے سامنے غیر مشروط طور پر ہتھیار پھینک دیں اور تمام قسم کی حربی سرگرمیاں فوری طور پر ترک کر دیں تاکہ لڑائی مکمل طور پر رک سکے اور بحری جہازوں، طیاروں، فوجی اور شہری تنصیبات کو نقصان نہ پہنچے۔ جاپانی حکومت اپنے جنرل ہیڈکوارٹرز کو حُکم دے کہ وہ اتحادی افواج کے تمام جنگی قیدیوں اور زیر حراست شہریوں کو آزاد کرنے کا حکم دیں۔‘
اس تقریب کے بعد سے دو ستمبر ’وی جے ڈے‘  یعنی ’وکٹری اوور جاپان‘ ڈے کے طور پر جانا جاتا ہے۔
اس سے قبل چونکہ جنگ بہت زیادہ پھیل چکی تھی اور جاپانی فوجی اہلکار بحرالکاہل، جنوب مشرقی ایشیا اور چین سمیت کئی علاقوں میں بکھرے ہوئے تھے جہاں تک ریڈیو سروس نہیں پہنچتی تھی اس لیے بڑی تعداد میں فوجیوں کو یہ معلوم ہی نہ ہو سکا کہ ان کے ملک نے ہتھیار ڈال دیے ہیں۔
ایسے جاپانی فوجی بھی تھے جنہیں ریڈیو یا پھر کسی اور ذریعے سے ہتھیار ڈالنے کی خبر مل گئی تھی تاہم وہ اسے امریکہ اور اتحادی فوجیوں کی چال سمجھ رہے تھے۔
کئى جاپانی فوجیوں کو یقین نہیں آرہا تھا کہ ایسا ہو چکا ہے جبکہ کئی فوجی ہتھیار ڈالنے کی خبر پر اس قدر افسردہ ہوئے کہ پھر کبھی اپنے وطن لوٹ کر نہیں گئے۔
یہ جاپان کی تاریخ میں پہلی بار تھا کہ غیر مُلکی افواج اُس کی سرزمین پر قابض ہو رہی تھیں۔
جنگ کے دوران اتحادی افواج نے منصوبہ بنایا تھا کہ جس طرح مقبوضہ جرمنی کے حصے بخرے کرکے اتحادیوں کے مابین بانٹ دیا گیا وہی سلوک جاپان کے ساتھ بھی کیا جائے گا۔
تاہم امریکا نے آخری منصوبے میں جاپان، اوکیناوا اور آمامی جزائر کو اپنے قبضے میں لیا جبکہ سخالین، کوریل جزائر، شمالی کوریا کا قبضہ اتحادیوں کو دے دیا۔

دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے اعلان کے بعد فوجیوں کے خاندانوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی (فوٹو:ہسٹری ڈاٹ کام)

شکست کی وجوہات
امریکی فوج کے شعبہ تاریخ کے ریکارڈ کے مطابق اگرچہ ایٹمی حملے جاپان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا چکے تھے اور اس کی جنگی صلاحیت کو بہت کمزور کر دیا گیا تھا، اس کے باوجود ہتھیار ڈالتے وقت جاپان کے پاس بیس لاکھ فوج موجود تھی ۔
گو کہ جاپانی فوج نے دفاعی پوزیشن اختیار کرلی تھی لیکن وہ ایک سخت زمینی جنگ لڑنے کے لیے تیار تھی اسی طرح اس کے پاس تین ہزار لڑاکا طیارے بھی تھے۔
جاپانی شاہی بحری بیڑے کے کمانڈرایڈمرل ’ایسوروکو یاماموتو‘ نے جنگ شروع ہونے کے موقع پر انتہائی جذباتی انداز میں انگلی اٹھاتے ہوئے کہا تھا ’یہی کافی نہیں کہ ہم گوام، فلپائن یا یہاں تک کہ ہوائی یا سان فرانسِسکو کو فتح کریں بلکہ ہم اس سے بہت آگے واشنگٹن تک مارچ کریں گے اور معاہدے پر دستخط وائٹ ہاؤس میں کریں گے۔‘
لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ جنگ بندی کا معاہدہ ضرور ہوا لیکن جاپان کی مرضی سے نہیں بلکہ امریکہ کی مرضی سے۔  
درحقیقت جاپان کو دو محاذوں پر مسلسل شکست کا سامنا رہا۔
 جنوب مغربی بحرالکاہل، ماریاناس، سائپن اور فلپائن میں جاپان کو کافی نقصان اٹھانا پڑا اور اس کے بعد آؤجیما اور اوکیناوا جزائر پر جب امریکہ نے قبضہ کیا تو اتحادی افواج جاپانی سرزمین میں داخل ہوئیں۔
چونکہ جاپان کے پاس اپنے قدرتی وسائل کی کمی رہی ہے اور وہ اپنی ضرورت پوری کرنے کے لیے زیادہ تر خام مال دوسرے ایشیائی ممالک سے منگواتا تھا، لہٰذا جنگ کی وجہ سے یہ سلسلہ بھی منقطع ہوگیا جس سے مشکلات پیدا ہوئیں۔
اسی طرح اتحادی افواج نے فضائی بمباری کے ذریعے جاپان کے تقریباً تمام بڑے کارخانے تباہ کر دیے تھے اور اس کے بعد ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم برسا کر امریکہ نے فیصلہ کن برتری حاصل کر لی۔
دوسری عالمی جنگ میں جاپان کے تقریباً تیس لاکھ شہری و فوجی ہلاک ہوئے۔
آج بھی ٹوکیو میں ہر سال دو ستمبر کواس عالمی جنگ میں مرنے والوں کو یاد کیا جاتا ہے۔

شیئر: