Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جنگجوؤں کے سینکڑوں رشتے دار فرار

جرمنی کے مطابق وہ ترکی کو ہتھیاروں کی فروخت میں کمی لا رہا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
شمال مشرقی شام میں کرد حکام کا کہنا ہے کہ ترکی کی فوجی کارروائی کی وجہ سے شام کے ایک کیمپ سے داعش کے جہادیوں کے سینکڑوں رشتے دار فرار ہو گئے ہیں۔
ترکی کی جانب سے شام پر کیے جانے والے حملوں میں حالیہ دنوں کے درمیان تیزی آئی ہے اور سرحد پر لڑائی شدت اختیار کر گئی ہے۔
کرد حکام اور غیر ملکی طاقتیں تواتر کے ساتھ خبردار کرتے رہے ہیں کہ خطے میں کشیدگی داعش کے خلاف جاری جنگ کو متاثر کرے گی اور داعش کے گرفتار ممبران کو قید سے بھاگنے کا موقعہ ملے گا۔
کرد انتظامیہ کے مطابق ترکی کی جانب سے ایک پناہ گزین کیمپ کے قریب بمباری سے داعش کے جنگجوؤں کے 800 سے زائد رشتے دار فرار ہو گئے ہیں۔

بمباری سے داعش کے جنگجوؤں کے 800 سے زائد رشتہ دار فرار ہو گئے۔ فوٹو اے ایف پی

خیال رہے شامی اور عراقی جنگجوؤں سمیت دنیا کے 54 ممالک سے تعلق رکھنے والے لگ بھگ 12 ہزار جنگجو کردش جیلوں میں قید ہیں۔
ان کے علاوہ پناہ گزین کیمپوں میں 12 ہزار غیر ملکی مقیم ہیں جن میں آٹھ ہزار بچے اور چار ہزار خواتین رہائش پذیر ہیں۔
کرد انتظامیہ کے ایک بیان کے مطابق ’ترکی اور اس کے کرائے کے جنگجوؤں کی جانب سے شروع کی جانے والی لڑائی اب عین عیسیٰ کے علاقے میں ایک کیمپ کے قریب ہو رہی ہیں جہاں داعش کے جنگجوؤں کے رشتے دار مقیم ہیں۔‘
بیان کے مطابق ان میں سے کچھ لوگ بمباری کے بعد فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ عین عیسیٰ کیمپ اب سکیورٹی کے بغیر ہے۔
شدت پسند تنظیم  داعش سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افراد اس وقت کردوں کی زیر قیادت شامی ڈیمو کریٹک فورسز (ایس ڈی ایف) کے قبضے میں ہیں۔

ترکی کے حملوں سے لاکھوں افراد متاثر ہوئے ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی

ترکی کی جانب سے شروع کی جانے والی کارروائیوں میں شمال مشرقی شام میں ایس ڈی ایف کے زیرِ اثر علاقوں کو شدید زمینی اور فضائی حملوں کا سامنا ہے۔
ترکی کرد ملیشیا (ایس ڈی ایف) کو ’دہشت گرد‘ قرار دیتا ہے اور ان کے مطابق ترکی کی جانب سے کیے جانے والے حملوں کا مقصد کردوں کو ’محفوظ زون‘ سے 30 کلومیٹر دور بھگانا ہے۔
ترکی کے مطابق وہ 30 لاکھ شامی پناہ گزینوں کو اس محفوظ زون میں بسانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ فی الحال یہ پناہ گزین ترکی میں قیام پذیر ہیں۔
دوسری طرف ترکی پر عسکری کارروائیاں روکنے کے لیے دباؤ بڑھ رہا ہے لیکن صدر رجب طیب اردغان کا کہنا ہے کہ حملے جاری رہیں گے۔
سنیچر کے روز فرانس کی وزارت خارجہ اور وزارت دفاع کی جانب سے جاری کیے جانے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ وہ ترکی کو ہتھیاروں کی تمام برآمدات معطل کر دے گا۔
اس سے قبل جرمنی نے اعلان کیا تھا کہ وہ نیٹو اتحادی کو اپنے ہتھیاروں کی فروخت میں کمی لا رہے ہیں۔
برطانیہ کے وزیراعظم بورس جانسن نے بھی صدر اردغان کو ٹیلیفون پر متنبہ کیا تھا کہ ان کا آپریشن شام میں دولتِ اسلامیہ کے خلاف ہونے والی پیشرفت کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔
کردوں نے صدر ٹرمپ کے امریکی افواج کے انخلا کو وہ اپنے ساتھ دھوکہ قرار دیا ہے۔
دوسری جانب پیرس، برلن سمیت متعدد یورپی شہروں میں ہزاروں افراد نے ترک حملے کے خلاف مظاہروں میں حصہ لیا۔
 

شیئر: