Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انڈیا کے زیرانتظام کشمیر میں پولنگ، مودی کی شدید مخالفت سامنے آنے کا امکان

انڈیا میں پولنگ کا آخری مرحلہ یکم جون کو ہو گا۔ (فوٹو: اے ایف پی)
انڈیا میں جاری چھ ہفتوں پر مشتمل انتخابات کا چوتھا مرحلہ آج (پیر) سے شروع ہو رہا ہے اور جن ریاستوں میں ووٹنگ ہو گی ان میں انڈیا کے زیرانتظام کشمیر بھی شامل ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق کشمیر کے حوالے سے توقع ظاہر کی جا رہی ہے کہ وہاں کے لوگ مودی حکومت کی جانب سے متنازع علاقے میں ڈرامائی تبدیلیوں پر عدم اطمینان کا اظہار ووٹ کے ذریعے ظاہر کریں گے۔
وزیراعظم نریندر مودی ملک کے بیشتر حصوں میں مقبول ہیں اور ان کی ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے حوالے سے امید ظاہر کی جا رہی ہے کہ وہ اگلے مہینے کے اوائل میں اختتام پذیر ہونے والے انتخابات میں کامیابی حاصل کر لے گی۔
تاہم ان کی حکومت کی جانب سے 2019 میں کشمیر کو براہ راست نئی دہلی کے ماتحت لانے کے فیصلے پر کشمیری عوام نے شدید ناراضی کا اظہار کیا اور وہ اس اقدام کے بعد پہلی بار ووٹ ڈالنے جا رہے ہیں۔
کشمیر کے سابق وزیراعلٰی عمر عبداللہ جن کی نیشنل کانفرنس پارٹی کشمیر کی سابقہ حیثیت کی بحالی کے لیے تحریک چلا رہی ہے، کا کہنا ہے کہ ’ہم لوگوں کو یہ کہہ رہے ہیں کہ آپ کو اپنی آواز سنانی ہو گی۔‘
انہوں نے اے ایف پی سے بات چیت میں کہا کہ ’ہم چاہتے ہیں کہ لوگ ایسے نقطہ نظر کا اظہار کریں کہ جو کچھ ہوا وہ انہیں قابل قبول نہیں ہے۔‘
 کشمیر کا علاقہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان تقسیم ہے۔ دونوں اس پر اپنی ملکیت کا دعوٰی رکھتے ہیں اور ہمالیہ کے علاقے پر کنٹرول رکھنے کے لیے دونوں ممالک دو جنگیں بھی لڑ چکے ہیں۔
انڈین حکومت کی مخالفت کرنے والا باغی گروپ 1989 سے نئی دہلی کے زیرکنٹرول سرحد کے قریب متحرک ہے اور پاکستان کے ساتھ شمولیت کا مطالبہ کرتا ہے۔

انڈیا کے انتخابات سات مرحلوں میں ہو رہے ہیں جو چھ ہفتے تک جاری رہیں گے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

اس تنازع میں کئی دہائیوں کے دوران ہزاروں فوجی، باغی اور عام شہری مارے جا چکے ہیں جن میں پچھلے مہینے باغیوں اور انڈین فوج کے درمیان ہونے والی لڑائی میں مارے جانے والے بھی شامل ہیں۔
 پانچ برس قبل حکومت کی جانب سے اس علاقے کو براہ راست انڈیا کے ماتحت لائے کے بعد سے تشدد کے واقعات میں کمی آئی ہے۔
اس مہم کے دوران مقامی سیاسی رہنماؤں کی بڑے پیمانے پر گرفتاریاں کی گئیں اور متوقع احتجاج کو روکنے کے لیے کئی مہینے تک کمیونیکیشن کے ذرائع کو بند رکھا گیا۔
مودی حکومت کا کہنا ہے کہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی سے ’امن اور ترقی‘ آئی ہے جبکہ وہ تسلسل سے یہ بھی کہتی آ رہی ہے کہ اس اقدام کو کشمیریوں کی حمایت حاصل تھی۔
تاہم دوسری جانب مقتدر پارٹی نے وادی کشمیر کے لیے کسی امیدوار کے کاغذات جمع نہیں کرائے جو کہ 1996 کے بعد سے پہلی بار ہو رہا ہے اور ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر بی جے پی امیدوار کھڑا کرتی تو اسے شکست کا سامنا کرنا پڑتا۔
سیاسی مبصر اور تاریخ دان صدیق واحد نے پچھلے ہفتے اے ایف پی کو بتایا تھا کہ ’سادہ سی بات یہ ہے کہ وہ ہار جائیں گے۔‘

انڈیا کے زیرانتظام کشمیر میں انتخابات کے دوران سکیورٹی اہلکار تعینات کیے گئے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

بی جے پی نے ووٹروں سے اپیل کی ہے وہ عوامی سطح پر مودی کی پالیسیوں سے اتحاد کرنے والی چھوٹی اور نئی پارٹیوں کی حمایت کریں۔
تاہم توقع کی جا رہی ہے کہ ووٹرز دو کشمیری پارٹیوں میں سے اس کی حمایت کریں گے جو مودی حکومت کی جانب سے کیے جانے والے اقدامات کی واپسی کا مطالبہ کرتی ہے۔
انڈیا کے انتخابات سات مرحلوں میں ہو رہے ہیں جو چھ ہفتے تک جاری رہیں گے۔
انڈیا میں تقریباً ایک ارب کے قریب افراد ووٹ ڈالنے کے اہل ہیں، پولنگ کا آخری مرحلہ یکم جون کو ہو گا اور نتائج اس کے تین روز بعد سامنے آنے کی توقع ہے۔
الیکشن کمیشن کے اعدادوشمار کے مطابق 2019 میں ہونے والے انتخابات کے مقابلے میں اس بار ٹرن آؤٹ میں نمایاں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔

شیئر: