Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’شام میں چار لاکھ افراد بے گھر ہو سکتے ہیں‘

شام میں ترک فوج کی جانب سے کارروائی میں اب تک آٹھ افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ فوٹو:اےا یف پی
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ شمال مشرقی شام میں ترکی کے کردوں پر حملوں سے اب تک ایک لاکھ 30 ہزار افراد بے گھر ہو گئے ہیں اور اس تعداد میں تین گنا اضافہ ہو سکتا ہے۔
اقوام متحدہ کے فلاحی ادارے، آفس فار دی کوارڈینیشن آف ہیومنیٹیرین آفئیرز (اوچا) کے ترجمان جینس لیرکی نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ متاثرہ علاقوں میں چار لاکھ سے زائد افراد بے گھر ہو سکتے ہیں اس لیے ان کا ادارہ لوگوں کی بروقت مدد کے لیے منصوبہ بندی کر رہا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ بے گھر افراد کو مدد کی ضرورت ہو گی۔
اقوام متحدہ نے جمعے کو کہا تھا کہ ترکی کے حملے کی وجہ سے ایک لاکھ سے زائد افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔

اقوام متحدہ نے ترکی کے حملوں میں مزید تیزی کے منفی اثرات سے خبردار کیا ہے۔ فوٹو: روئٹرز

خیال رہے کہ ترکی نے بدھ سے شمال مشرقی شام میں کرد ملیشا (وائی پی جی) کے ٹھکانوں پر حملے اس وقت شروع کیے جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی افواج کو بارڈر کے علاقوں سے واپس بلانے کے احکامات جاری کیے تھے۔
اتوار کو اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ تل ابیاد اور راس العین کے دیہی علاقوں میں مزید شہری بے گھر ہو سکتے ہیں۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ اب تک ایک لاکھ 30 ہزار افراد اپنے گھر چھوڑ کر محفوظ علاقوں کی طرف جا چکے ہیں۔
اوچا کا کہنا ہے کہ بے گھر افراد کی صیحح تعداد کا تعین نہیں کیا جا سکتا۔ ’اکثر بے گھر افراد اپنے رشتے داروں اور  دوستوں وغیرہ کے پاس پہنچ چکے ہیں تاہم بڑی تعداد میں لوگ سکولوں سمیت اجتماعی پناہ گاہوں میں بھی پہنچ رہے ہیں۔‘
اقوام متحدہ نے ترکی کے حملوں میں مزید تیزی یا علاقے کے کنٹرول میں اچانک تبدیلی کے منفی اثرات سے خبردار کیا ہے۔
دوسری طرف فرانس اور جرمنی نے کہا ہے کہ وہ ترکی کو کسی بھی قسم کے ہتھیاروں کی برآمد روک رہے ہیں۔

لاکھوں لوگ پناہ گزین کیمپوں میں رہ رہے ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی

دونوں ممالک نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ ترکی کی جانب سے یہ ہتھیار کردوں کے خلاف استعمال ہو سکتے ہیں۔
خبر رساں ایجنسی اے پی کے مطابق فرانس کے وزارت دفاع اور وزارت خارجہ کے بیانات میں ایک دفعہ پھر ترکی کی فوجی کارروائی کی مخالفت کی گئی ہے جبکہ بین الاقوامی سطح پر ترکی کے اس اقدام کی مذمت کی جارہی ہے۔
فرانس نے کہا ہے کہ وہ یورپی وزرائے خارجہ کے اجلاس میں ہتھیاروں کی فروخت معطل کرنے پر زور دے گا۔

مختلف ممالک میں ترکی کی جانب سے فوجی کارروائی کے خلاف احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ فوٹو:اے ایف پی

فرانسیسی حکومت کے مطابق ترکی کی جانب سے فوجی کارروائی نہ صرف مقامی افراد کے لیے پریشانی کا سبب بن رہی ہے بلکہ اس کی وجہ سے شدت پسند تنظیم داعش کے خلاف کارروائی بھی متاثر ہوئی ہے۔
’فرانس چاہتا ہے کہ داعش کے خلاف بنے اتحاد کا ایک اجلاس بلایا جائے اور اس میں داعش کے خلاف اگلے اقدامات پر غور کیا جائے۔‘
جرمنی کے وزیرخارجہ ہائکو ماس کے مطابق شمال مشرقی شام میں فوجی کارروائی کے پس منظر کی وجہ سے حکومت ترکی کو ہتھیاروں کی فروخت کی اجازت نہیں دے گی کیونکہ ان کا استعمال شام میں ہو سکتا ہے۔
ہائکو ماس کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب جرمنی کے مختلف شہروں میں کردوں کی جانب سے ترک فوج کی کارروائی کے خلاف احتجاجی مظاہرے ہوئے۔
ترکی کی فوجی کارروائی کے خلاف امریکہ آسٹریا، سویٹزرلینڈ اور یونان میں بھی مظاہرے ہوئے ہیں۔

اس فوجی کارروائی میں ترکی کے کئی فوجی زخمی اور ہلاک بھی ہوئے ہیں (فوٹو:اےا یف پی)

گذشتہ روز عرب لیگ کی ریاستوں نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل پر زور دیا تھا کہ ایسی فوجی اور انٹیلیجنس مدد معطل کرے جو ترکی کی جارحیت میں مدد کر سکتا ہے۔
اپنے ایک بیان میں عرب لیگ نے ترکی کی جانب سے شام میں علاقائی تبدیلیاں کرنے کی کوششوں کو مسترد کیا ہے۔
اجلاس کے موقع پر سعودی وزیر خارجہ نے مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ بین الاقوامی برادری اس کارروائی کو روکنے کے لیے فوری طور پر اپنا کردار ادا کرے۔
عرب لیگ کے سیکریٹری جنرل احمد ابو الغیط نے کہا تھا کہ عرب لیگ اقتصادی، سرمایہ کاری، ثقافت اور سیاحت کے شعبوں میں ترکی کے خلاف اقدامات کے بارے میں غور کرے گی۔

شیئر: