Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بیرون ملک سے وطن بھیجی رقوم کا تنازع

سٹیٹ بنک کے نمائندے نے انکم ٹیکس آرڈینینس 2001 میں ترمیم تجویز کی ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
بیرون ملک مقیم ایک کروڑ پاکستانیوں اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے درمیان ایکسچینج کمپنیوں کے ذریعے بھیجی جانے والی رقوم کو فارن انکم تسلیم نہ کیے جانے کا تنازع وفاقی محتسب میں پہنچ گیا ہے۔
اردو نیوز کو دستیاب تفصیلات کے مطابق سمندر پار پاکستانیوں کے ایک نمائندے ماجد علی چوہدری نے وفاقی محتسب کو درخواست دی کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو ویسٹرن یونین اور منی گرام جیسی ’مستند منی ایکسچینج کمپنیوں‘ کے ذریعے بیرون ملک سے بھیجی گئی رقوم کو بھی فارن انکم کے طور پر تسلیم نہیں کرتا۔
جس پر وفاقی محتسب سمندر پار پاکستانیوں سے متعلق گریونسز کمشنر حافظ احسان احمد کھوکھر نے سٹیٹ بینک آف پاکستان اور ایف بی آر کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے جمعرات 10 اکتوبر کو سماعت کی۔
سماعت کے دوران سٹیٹ بینک کے نمائندے نے تسلیم کیا کہ منی ایکسچینج کمپنیوں کے ذریعے بھیجی رقم قانونی ہے کیونکہ یہ رقوم کسی نہ کسی صورت میں پاکستانی بینکوں میں ہی پہنچتی ہیں۔
انہوں نے انکم ٹیکس آرڈینینس 2001 میں ترمیم تجویز کی تاکہ بیرون ملک پاکستانیوں کی بھیجی گئی رقوم کو پاکستان میں مکمل قانونی تحفظ حاصل ہو سکے۔

سٹیٹ بینک نے کمپنیوں کو اجازت دے رکھی ہے لیکن ایف بی آر انہیں قانونی نہیں سمجھتا۔ فوٹو: اے ایف پی

ایف بی آر نے موقف اپنایا کہ درخواست گزار نے ایف بی آر کے بطور ادارہ کسی بدانتظامی کے بارے میں شکایت نہیں کی بلکہ یہ ایک پالیسی مسئلہ ہے۔
وفاقی محتسب کے سمندر پار پاکستانیوں سے متعلق گریونسز کمنشر حافظ احسان احمد کھوکھر نے دونوں اداروں کو 31 اکتوبر تک واضح پالیسی تشکیل دینے کی ہدایت کر دی ہے۔
گریونسز کمشنر نے ریماکس دیے ہیں کہ ’ایک طرف سٹیٹ بینک نے ایکسچینج کمپنیوں کو لائسنس دے کر ملک کے کونے کونے میں دفاتر کھول کر اربوں روپے یومیہ ٹرانزیکشنز کی اجازت دے رکھی ہے جبکہ دوسری طرف ایف بی آر ان کو قانونی نہیں سمجھتا۔ اس صورتحال کو واضح ہونا چاہیے تاکہ بیرون ملک مقیم ایک کروڑ پاکستانیوں کی پریشانی ختم ہو اور ترسیلات زر کی مد میں بھیجی جانے والی رقوم میں اضافہ ہو۔‘
یہ تو بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کا ایک مسئلہ ہے۔ وفاقی محتسب کے پاس 190 وفاقی اداروں سے متعلق نہ صرف پاکستان بلکہ بیرون ملک میں مقیم پاکستانیوں کی جانب سے ہزاروں شکایات موصول ہوتی ہیں۔
سال 2018 میں 70 ہزار شکایات کا فیصلہ دیا گیا جبکہ رواں سال کے نو ماہ میں 54 ہزار شکایات موصول ہو چکی ہیں۔
وفاقی محتسب اپنے قانون کے مطابق 60 دنوں میں فیصلہ کرنے کا پابند ہے۔ گذشتہ دو سالوں میں وفاقی محتسب نے ایک لاکھ 55 ہزار شکایات پر اپنے فیصلے سنائے۔ گذشتہ سال کی رپورٹ کے مطابق وفاقی محتسب کے فیصلوں پر عمل درآمد کی شرح 99 فیصد ہے۔

وفاقی محتسب طاہر شہباز کے بقول ان کا ادارہ بیرون ملک پاکستانیوں کے مسائل حل کرنے میں پیش پیش ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

وفاقی محتسب نے سائلین کی سہولت کے لیے موبائل ایپ کے ذریعے شکایات کی وصولی سمیت سکائپ پر سماعت کا آغاز بھی کر دیا ہے۔ پاکستان کے کسی بھی شہر یا علاقے بلکہ دنیا میں کسی بھی جگہ سے اب شکایات گزار سکائپ پر اپنا مدعا پیش کرنے کا آپشن بھی استعمال کر سکتے ہیں۔
اردو نیوز کے ساتھ خصوصی گفتگو میں وفاقی محتسب طاہر شہباز نے بتایا کہ ان کا ادارہ بیرون ملک پاکستانیوں کے مسائل حل کرنے میں پیش پیش ہے۔
انھوں نے بتایا کہ ’وزارت خارجہ اور دفاع اگرچہ وفاقی محتسب کے دائرہ اختیار سے باہر ہیں اس کے باوجود بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے لیے شکایت سیل قائم کیا ہے جس میں آنے والی شکایات کی بنیاد پر دی جانے ہدایات اور تجاویز کی روشنی میں کئی ایک اہم اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔‘
طاہر شہباز نے کہا کہ ’مقامی وفاقی اداروں کی طرح تمام پاکستانی سفارت خانوں میں ’شکایات مینجمنٹ سسٹم‘ فعال ہے۔ تمام سفیروں کو ہدایت ہے کہ وہ ہفتے میں ایک دن کمیونٹی کے مسائل سنیں جبکہ ہر سفیر ماہانہ بنیادوں پر رپورٹ بھی دینے کا پابند ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی سہولت کے لیے وفاقی محتسب کی ہدایت پر تمام ائیر پورٹس کے ڈیپارچر لاونج میں خصوصی سہولت کاونٹرز قائم کیے گئے ہیں جہاں تمام وفاقی ایجنسیوں کے نمائندے موجود ہوتے ہیں۔‘
طاہر شہباز کے مطابق ’کسی بھی بیرون ملک جانے والے پاکستانی کو شناختی کارڈ بنوانا پڑ جائے یا کسی کو پروٹیکٹر لگوانا ہو تو اسے واپس آنے کی ضرورت نہیں بلکہ اس وقت سہولت کاونٹر پر یہ سہولیات فراہم کر دی گئی ہیں۔‘
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ میں شامل ہوں

شیئر: