کراچی سمیت پورے سندھ میں آن لائن ٹیکسی اور بائیک سروسز کی مقبولیت نے جہاں سفری سہولتوں میں انقلابی تبدیلی پیدا کی ہے، وہیں اس شعبے میں بے ضابطگیوں، خواتین کو ہراساں کرنے اور صارفین کے ساتھ ہونے والے دھوکوں نے حکومت کو ان سروسز کو منظم اور ریگولیٹ کرنے پر مجبور کیا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ سندھ حکومت اب تمام آن لائن ٹیکسی سروسز کو ایک مربوط نظام کے دائرہ کار میں لانے اور یکجا کرنے کے لیے کام کر رہی ہے۔
صوبائی وزیر اطلاعات و ٹرانسپورٹ شرجیل انعام میمن کے مطابق حکومت ایک ایسی ریگولیٹری اتھارٹی قائم کرنے جا رہی ہے جو ان سروسز کے لیے ضابطہ اخلاق، لائسنسنگ، اور نگرانی کے واضح اصول طے کرے گی۔
مزید پڑھیں
-
پاکستان میں پہلی فضائی ٹیکسی سروس آپریشنل کیوں نہ ہو سکی؟Node ID: 777231
ان کا کہنا ہے کہ ’ہم شہریوں کو محفوظ، شفاف اور ماحول دوست سفری سہولیات فراہم کرنا چاہتے ہیں۔ اس وقت کئی شکایات ایسی ہیں جن پر کوئی کارروائی ممکن نہیں کیونکہ سسٹم میں سقم ہے۔‘
یہ فیصلہ صرف انتظامی بنیادوں پر نہیں کیا گیا بلکہ اس کے وجہ کچھ حالیہ تشویش ناک واقعات بھی ہیں جنہوں نے حکومت، صارفین اور ماہرین کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔
عیدالفطر کے موقع پر کراچی کی رہائشی ثانیہ فراز نے اپنی بہن کے گھر کھانے کا سامان بھیجنے کے لیے آن لائن موٹر سائیکل سروس استعمال کی۔
صدر سے دستگیر تک پیکنگ باکس میں نہاری، شامی کباب اور قورمہ بھیجا گیا۔ رائیڈر مقررہ وقت پر سامان لینے تو آ گیا، لیکن کئی گھنٹوں کے بعد بھی جب وہ دستگیر نہ پہنچا تو ثانیہ نے رابطہ کرنے کی کوشش کی۔ رائیڈر کا نمبر مسلسل بند ملا۔ قریباً پانچ گھنٹے بعد رائیڈر سے رابطہ ہوا تو اس نے بتایا کہ سامان راستے میں گر گیا ہے، اور سب کچھ ضائع ہو گیا ہے۔ نہ کوئی رسید، نہ واپسی کا کوئی عمل، اور نہ کمپنی کی طرف سے کوئی تسلی بخش جواب۔
امریکی خاتون کے ساتھ ہراسانی اور تشدد
ایک اور واقعہ جس نے حکام کی توجہ حاصل کی، وہ ایک امریکی خاتون کے ساتھ پیش آیا۔ صوبائی وزیر شاہینہ شیر علی کے مطابق خاتون نے بحریہ ٹاؤن جانے کے لیے ایک نجی آن لائن ٹیکسی سروس استعمال کی۔
ڈرائیور نے خاتون کو اکیلا دیکھ کر ہراساں کرنے کی کوشش کی، اور شور مچانے پر خاتون کو تشدد کا نشانہ بنایا۔ واقعے کے بعد خاتون نے گڈاپ تھانے میں مقدمہ درج کرایا، جس پر فوری کارروائی کرتے ہوئے ملزم کو گرفتار کیا گیا۔ کچھ دن بعد وہ خاتون واپس امریکہ چلی گئیں۔

حکومت کے اقدامات اور مستقبل کی حکمتِ عملی
وزیراعلٰی سندھ کی ترجمان سعدیہ جاوید نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’نجی ٹیکسی سروس کو محفوظ بنانے کے لیے سندھ حکومت نے خصوصی اقدامات کیے ہیں۔ اسمبلی سے بل پاس کیا گیا ہے جس کے بعد ان ٹیکسی سروسز کو استعمال کرنے والوں کو مزید تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔ اب یہ پرائیویٹ ٹیکسی سروسز ایک پلیٹ فارم کے ذریعے چلتی ہیں۔ اس سروس کو استعمال کرنے والے اپنی رائیڈ کی مکمل تفصیلات اپنی فیملی یا عزیز کے ساتھ شیئر کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ رائیڈ مکمل ہونے پر رائیڈ کے بارے میں اپنے تاثرات دینے کا طریقہ کار بھی واضح کیا گیا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اس دوران اگر کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آئے تو ایسی صورتِ حال میں اس رائیڈ کی تفصیلات کی روشنی میں گاڑی یا گاڑی کے ڈرائیور کے خلاف قانونی کارروائی بھی کی جا سکتی ہے۔‘
سعدیہ جاوید کا مزید کہنا تھا کہ ’سندھ حکومت اس وقت ایک الیکٹرک وہیکل ٹیکسی فلیٹ متعارف کرنے پر بھی کام کر رہی ہے، جس میں خواتین کے لیے مخصوص گاڑیاں بھی شامل ہوں گی۔ اس کے علاوہ کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم اور شہریوں کی شکایات کے فوری ازالے کے لیے بھی ڈیجیٹل پلیٹ فارم قائم کیا جا رہا ہے۔‘

ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کا یہ اقدام وقت کی ضرورت ہے۔ سائبر سکیورٹی ماہر ڈاکٹر نعمان احمد کے مطابق پرائیویٹ ٹیکسی سروسز نے سہولت تو دی ہے، لیکن بغیر کسی نگرانی کے یہ سہولت خطرہ بن چکی ہے۔ جب تک ویری فیکیشن، ٹریکنگ اور مانیٹرنگ کے نظام کو فعال نہیں کیا جائے گا، شہریوں کا اعتماد بحال نہیں ہو سکتا۔
پرائیویٹ ٹیکسی سروسز فراہم کرنے والی کمپنیوں سے اس معاملے پر مؤقف جاننے کے لیے رابطہ کیا گیا، تاہم خبر کی اشاعت تک ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔