Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بوسنیا کے تین صدور مگر وزیراعظم ایک بھی نہیں

بوسنیا میں انتخابات گذشتہ برس ہوئے تھے لیکن تاحال مرکزی حکومت کے چلانے کے لیے کوئی وزیراعظم نہیں (فوٹو:اے ایف پی)
بوسنیا میں الیکشن کا ایک سال گزرنے کے باوجود ملک کے تینوں صدور کی جانب سے تاحال وزیراعظم کی تقرری نہ کی جاسکی۔
90 کی دہائی میں جنگ کے بعد، جزیرہ نما بلقان کی ریاست بوسنیا کے تین اہم گروہوں کے درمیان طاقت تقسیم ہوئی ہے۔
یہ تین اہم گروہ مسلمانوں، سربین اور کروشیائی باشندوں پر مشتمل ہیں۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ بوسنیا کے نظام میں نسلی تقسیم کی وجہ سے بوسنیا میں حکومتی نظام مشکلات کا شکار ہے۔
ملک کے تینوں صدور کے درمیان نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن (نیٹو) کے اتحاد میں شامل ہونے پر اختلاف ہے۔

اختلافات کی وجہ سے ابھی تک ملک کے لیے جھنڈے پر بھی اتفاق نہیں ہوا (فوٹو:اے ایف پی)

کروایشین اور مسلمان چاہتے ہیں کہ ایک دن وہ نیٹو اتحاد میں شامل ہو جائیں گے جبکہ جمہوریہ سرسپکہ کے قوم پرست صدر میلوآرڈ ڈوڈک اس سے اختلاف رکھتے ہیں۔ وہ خود کو روسی نواز کہتے ہیں۔
تینوں صدور کے اسی اختلاف کی وجہ سے مرکزی حکومت چلانے کے لیے وزیراعظم کا انتخاب تاحال تاخیر کا شکار ہے۔
اکتوبر 2018 میں بوسنیا میں الیکشن ہوئے تھے جس کے بعد ابھی تک بوسنیا میں مرکزی حکومت نہ بن سکی۔
سرب علاقے جمہوریہ سرسپکہ کے قوم پرست صدر میلوآرڈ ڈوڈک ملک میں حکومتی نظام کو ایک ناکام نظریہ سمجھتے ہیں۔
ان کے مطابق ’ایک سال تک وزیروں کی کونسل نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں بوسنیا کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ واضح ہے کہ ہم اس کے بغیر بھی کام کرسکتے ہیں۔‘
یاد رہے کہ میلوآرڈ ڈوڈک نے گذشتہ اگست میں دھمکی دی تھی کہ اگر مرکزی حکومت نہ بنی تو وہ اہم معاہدوں سے سربین علاقوں کو علیحدہ کر دیں گے۔

2018 کے انتخابات کے علاوہ بھی 2012 میں مرکزی حکومت کے لیے اختلافات سامنے آئے تھے (فوٹو:اے ایف پی)

بوسنیا کے سابق وزیراعظم کے پاس دو عہدے ہیں، وہ نگراں حکومت کے رہنما کے علاوہ قومی پارلیمان کے سپیکر بھی ہیں۔
ملک میں انتخابات کے بعد سابق وزیراعظم کے وزیر دو دو عہدوں پر کام کر رہے ہیں۔
جاری سیاسی بحران پر بوسنیا کے دارالحکومت سراجیوو میں آرکیٹکچر کی ایک طالب علم نجرا کہتی ہیں ’ ہم کیسے جمہوریت کو سمجھ سکتے ہیں جب وزیراعظم خود ہی پارلیمان کا سپیکر ہو۔؟
ان کا مزید کہنا تھا ’یہ ایک سرکس ہے جس کے ہم تماشائی ہیں۔‘
بوسنیائی باشندوں کے لیے سیاسی بحران کوئی نئی بات نہیں، 2012 کے الیکشن کے بعد حکومت بنانے میں 16 مہینے لگے تھے۔
لیکن ملک میں کچھ لوگ یہ توقع کر رہے ہیں کہ یہ ریکارڈ جلد ہی ٹوٹ جائے گا۔

مہوریہ سرسپکہ کے قوم پرست صدر میلوآرڈ ڈوڈک نیٹو کے معاملے پر دوسرے صدور سے اختلاف رکھتے ہیں۔ (فوٹو:اے ایف پی)

کچھ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ بوسنیا میں طاقت اور اثر و رسوخ کے لیے واشنگٹن اور ماسکو کے درمیان جنگ ہے۔
مغرب اکثر ماسکو پر الزام لگاتا ہے کہ ماسکو بلقان کے علاقے میں مداخلت کرتا ہے اور اس کے ممالک کو نیٹو میں شامل ہونے سے روکتا ہے۔
تاریخ دان اور سفارت کار سلوبودن سویا امریکہ پر الزام لگاتے ہیں کہ امریکہ نیٹو کے معاملے پر زور دے رہا ہے تاکہ صدر میلوآرڈ ڈوڈک کی ایک طرف کر دیا جائے۔
ان کے مطابق دونوں سپرپاورز کے مفادات کی وجہ سے بوسنیا قیمت ادا کر رہا ہے۔

شیئر: