Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

امرتا کے دو عشق: لاہور اور ساحر لدھیانوی

امرتا پریتم کو لاہور سے عشق تھا
امرتا پریتم کی تخلیقی، رومانوی اور ذاتی زندگی کا لاہور سے گہرا تعلق ہے۔ شاعر کے طور پر ان کی شہرت کا آغاز اسی شہر سے ہوا۔ شاعری کا پہلا مجموعہ سنہ 1935 میں یہیں سے شائع ہوا۔ پنجابی کے ادبی حلقوں میں ان کو بہت پذیرائی ملی، جس کی بڑی وجہ خوشونت سنگھ، امرتا کے حُسن کو قرار دیتے ہیں۔ نامور ہندوستانی ادیب اور صحافی کی بات بے وزن نہیں کیونکہ اوروں کا تو ذکر ہی کیا خود لاہور میں اپنے عشاق کا ذکر امرتا نے  آپ بیتی ’رسیدی ٹکٹ‘ میں بھی کیا ہے۔
سب سے پہلے پنجابی شاعر موہن سنگھ ان کی زلفوں کے اسیر ہوئے۔ ان پر نظمیں لکھیں۔ محبت کا فسانہ عام ہونے پر طرح طرح کی باتیں بننے لگیں، جس کے ذمہ دار موہن سنگھ تھے جنہیں امرتا کا دل جیت لینے کی خوش فہمی تھی اور دوسروں کے سامنے ان سے اپنا قرب جتلانے سے باز نہ آتے۔ اس صورت حال نے امرتا کو پریشان ضرور کیا لیکن موہن سنگھ کا ان کے دل میں احترام تھا اور وہ ان کے خلوص کی قدر دان تھیں۔دونوں طرف آگ برابر نہیں لگی تھی، اس لیے امرتا نے ایک روز ہمت کرکے ان سے کہہ ڈالا: ’موہن سنگھ جی! میں آپ کی دوست ہوں، آپ کا احترام کرتی ہوں، آپ اور کیا چاہتے ہیں۔‘
اس کا جواب انہوں نے نظم کے ذریعے دیا جس میں امرتا کے کہے الفاظ نقل کیے اور بتایا کہ ’میں اور کیا چاہتا ہوں....‘
امرتا کی طرف سے پہلوتہی پر موہن سنگھ نے شائستہ رویہ اپنایا، ردعمل میں کسی ہلکے پن کا مظاہرہ نہ کیا کہ امرتا کا جی دُکھتا۔
لاہور میں امرتا کی مصروفیت کا ایک مرکز ریڈیو سٹیشن بھی تھا۔ وہاں بھی ان کے عشاق کم نہ تھے۔

امرتا اور ساحر لدھیانوی کی ایک یادگار تصویر

لاہور ریڈیو کے ایک افسر نے ان سے ایک دن کہا: ’اگر میں نے آج سے کچھ سال پیشتر تم کو دیکھا ہوتا تو میں مسلمان سے سکھ بن گیا ہوتا یا تم سکھ سے مسلمان بن گئی ہوتیں۔‘
یہ اشارہ غالباً سجاد حیدر کی طرف ہے جو ریڈیو کے افسر ہی نہ تھے پنجابی کے لکھاری بھی تھے، امرتا سے ان کی محبت کا تذکرہ لاہور میں ان کے قیام کے دوران اور بعد میں بھی ہوتا رہا۔ کسی نے سجاد حیدر کو امرتا سے تعلق کے حوالے سے ٹٹولا تو انھوں نے جواب دیا: ’ہماری دوستی میں عشق کی خاصی جگہ ہے لیکن عبادت والا عشق۔‘
لکھاری اظہر جاوید کا موقف ہے کہ امرتا نے ’رسیدی ٹکٹ‘ کے گرمکھی ایڈیشن میں سجاد حیدر سے اپنی محبت کے بارے میں جو لکھا تھا اس کا بیش تر حصہ کنول مشتاق نے شاہ مکھی ( اردو رسم الخط کی پنجابی ) میں ترجمہ کرتے وقت حذف کردیا۔
ریڈیو کے لیے کام کرنے کے زمانے میں جو صاحبان امرتا پر فریفتہ ہوئے، ان کا قصہ ایک سٹاف آرٹسٹ نے اپنی کہانی ’ ٹوئنٹی سکس مین اینڈ اے گرل ‘ میں بیان کیا ہے (کہانی کا عنوان میکسم گورکی سے مستعار ہے )۔
کہانی کار نے امرتا کو بتایا: ’لاہور ریڈیو میں تمہیں نہیں معلوم کہ کتنے لوگ تم میں دلچسپی لیتے تھے۔‘
خوشونت سنگھ اس زمانے میں لاہور میں تھے۔ انہوں نے امرتا پریتم کے بارے میں اپنے مضمون میں اس دور کا ذکر کیا ہے جب وہ شاعر کے طورپراُبھر رہی تھیں ۔امرتا کی پہلی کتاب ’ٹھنڈیاں کرناں‘ کے خریداروں میں وہ بھی شامل تھے۔
امرتا کے ناول ’پنجر‘ کا انگریزی ترجمہ خوشونت سنگھ نے کیا جس کا  معاوضہ بس یہ مانگا کہ مصنفہ اپنی عشقیہ زندگی کی کتھا اُسے سنائیں۔ یہ بات مان لی گئی۔ کئی نشستوں میں امرتا نے داستانِ عشق سنائی، جس میں صرف ساحر سے محبت کا اقرارتھا۔ اس پر خوشونت سنگھ نے کہا بس یہی کچھ ، یہ سب تو ڈاک کے ٹکٹ پر لکھا جاسکتا ہے۔ یہ بات امرتا کے ذہن میں رہی، اس نے خود نوشت کا نام ’رسیدی ٹکٹ‘ رکھا۔
لاہور میں ان سے محبت کرنے والوں کا تو شمار نہیں لیکن چند ایک بدخواہ بھی تھے، ایسوں میں ایک پنجابی شاعر بھی تھے جن سے تقسیم نے ان کی جان چھڑائی۔
امرتا کے والد کرتار سنگھ مذہبی پرچارک تھے، انہوں نے بیٹی کی شادی انارکلی بازار کے تاجرکے بیٹے پریتم سنگھ سے کردی۔ میاں بیوی کا رشتہ لشتم پشتم چلتا رہا لیکن کبھی مضبوط بنیادوں پر استوار نہ ہوسکا۔ امرتا نے اس بندھن سے آزاد ہوجانے کا ارادہ بھی باندھا۔ ایف سی کالج کے پروفیسر ڈاکٹر لطیف جو ماہر نفسیات تھے، انھوں نے امرتا سے پوچھا کہ کیا وہ کسی اور سے محبت کرتی ہیں؟ جواب نفی میں ملنے پر ڈاکٹر لطیف نے کہا کہ شوہر کے بغیر تنہا ان کے لیے زندگی گزارنا بہت مشکل ہوگا۔ امرتا نے جواب دیا کہ وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر’ پریت نگر‘ چلی جائے گی اور ادب کو اپنی زندگی کا محور بنا لے گی۔
پریت نگر وہ بستی تھی جسے گربخش سنگھ نے امرتسر اور لاہور کے درمیان بسایا تھا، جہاں سے پنجابی کا موقر رسالہ ’پریت لڑی ‘ بھی شائع ہوتا۔

امرتا کی کتابوں کے کئی زبانوں میں تراجم ہوچکے ہیں

پریت نگر کی امرتا اور ساحر کی زندگی میں بڑی اہمیت ہے۔ سنہ1943 میں دونوں نے یہیں ایک مشاعرے میں ایک دوسرے کو پہلی دفعہ دیکھا اور ان کی آنکھ لڑی۔ مشاعرہ کے دوران شروع ہونے والی بارش رات کوکھل کر برسی۔ اس بارش کو یاد کرتے ہوئے برسوں بعد امرتا نے کہا،’ قدرت نے میرے دل میں محبت کا جو بیج بویا تھا اس کی بارش سے آبیاری ہوئی۔‘
لدھیانہ چھوڑنے کے بعد ساحر لاہورآ گئے تو دونوں میں ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوگیا، جن میں زیادہ وقت ساحرکرسی پر بیٹھے سگریٹ پیتے رہتے، ان کے جانے تک کمرہ سگریٹ کے ٹکڑوں سے بھر جاتا، جن سے اپنے تعلق کے بارے میں امرتا نے لکھا:
’کبھی ایک بار.... اس کے ہاتھ کا لمس لینا چاہتی تھی لیکن میرے سامنے میرے ہی رواجی بندھنوں کا فاصلہ تھا جو طے نہیں ہوتا تھا....اس کے جانے کے بعد، میں اس کے چھوڑے ہوئے سگریٹوں کے ٹکڑے سنبھال کر الماری میں رکھ لیتی تھی اور پھر ایک ایک ٹکڑے کو تنہائی میں بیٹھ کر جلاتی تھی اور جب ان کو انگلیوں میں پکڑتی تھی، محسوس ہوتا تھا....جیسے اس کا ہاتھ چھو رہی ہوں۔
سگریٹ پینے کی عادت مجھے اس وقت پہلی بار پڑی تھی ، ہر سگریٹ سلگاتے ہوئے محسوس ہوتا تھا....وہ پاس ہے....سگریٹ کے دھویں میں سے جیسے وہ جن کی طرح نمودار ہوجاتا تھا۔‘
معروف ترقی پسند لکھاری اور صحافی حمید اختر کا ساحر سے گہرا یارانہ تھا۔ انھوں نے ساحراور امرتا کے بارے میں مضمون لکھا جس میں وہ بتاتے ہیں کہ ساحر کی کہیں بھی اکیلے جانے سے جان جاتی تھی، اس لیے جب وہ امرتا سے ملنے پہلی دفعہ ان کے گھر جانے لگے تو انہیں بھی ساتھ لے گئے۔ حمید اختر کے بقول، اس ملاقات میں دونوں میں بات چیت تو بہت کم ہوئی بس وہ ایک دوسرے کو محبت بھری نظروں سے دیکھتے رہے۔

لاہور کے انارکلی بازار میں واقع نظام ہوٹل کی حالیہ تصویر

اگلی ملاقات میں ساحر نے پھر حمید اختر سے ساتھ چلنے کو کہا تو انھوں نے کباب میں ہڈی بننے سے انکار کردیا۔ ان کی کمی دیویندر ستیارتھی نے پوری کی۔ بعد میں حمید اختر نے ستیارتھی سے پوچھا کہ ملاقات کیسی رہی تو جواب ملا: ’حمید جی امرتا نے ہمیں اپنے بیڈ روم میں بلالیا، وہاں دیوار کے ساتھ کھونٹی پر اس کی شلوار لٹک رہی تھی، میں نے اپنا کوٹ اس کے اوپر لٹکا دیا، بڑا مزا آیا۔‘
حمید اختر نے ایک مزے کی بات یہ لکھی ہے کہ وہ ساحر کے ساتھ نظام ہوٹل، انارکلی میں ناشتے کے لیے جاتے، راستے میں امرتا کے سُسر کی دکان پڑتی تھی، جس کے سامنے سے گزرتے ساحر ڈرتے کہ کہیں امرتا کا شوہر اسے گھر آنے سے منع نہ کردے، اس لیے وہ دوسرے راستے سے ہوٹل تک پہنچتے۔
ساحراس وقت معروف ادبی جریدے ’ادب لطیف ‘کے ایڈیٹر تھے ،جس کا دفتر لوہاری اور بھاٹی دروازے کے درمیان سرکلر روڈ پر تھا۔ دونوں پریمی یہاں بھی ملتے رہے۔
ساحر ایک دن بخار کی حالت میں امرتا کے یہاں چلے گئے تو انھوں نے مریض عشق کی بڑی اچھی طرح خبر گیری کی۔ ساحر نے امرتا کو اپنی مشہور زمانہ نظم ’تاج محل‘ بھی فریم کروا کردی۔ امرتا کی نظموں کا اردو ترجمہ کیا۔ اس کے لیے نظمیں لکھیں۔ امرتا نے ساحر کے بارے میں شاعری اور فکشن ہر دو اصناف میں لکھا۔
سنہ 1946 میں ساحر بمبئی چلے گئے اور تقسیم تک وہیں رہے۔ اس کے بعد چند ماہ کے لیے پاکستان آئے اور پھر جون 1948میں ہمیشہ کے لیے ہندوستان چلے گئے۔ امرتا کی قسمت میں بھی لاہور چھوڑکر ہندوستان جانا لکھا تھا۔
لاہور سے امرتا کو بڑی محبت تھی۔ یہ شہر ان کے اندر رچ بس گیا تھا۔ یہاں زندگی کے کتنے ہی تلخ وشیریں تجربوں سے وہ گزریں۔ لاہور میں امرتا کو فوٹو گرافی کا شوق ہوا۔ گھر میں ڈارک روم بھی تھا۔ اس شوق سے جی اُوب گیا تو رقص میں دلچسی پیدا ہوئی۔ تارا چودھری سے اس کی باقاعدہ تربیت حاصل کی۔ سٹیج پر پرفارم کرنے کا مرحلہ آیا اور گھر والوں نے اجازت نہ دی تو بددل ہوکر یہ شوق تج دیا۔ نامور اساتذہ سے ستاربجانا سیکھا اور ریڈیو پر بارہا اپنے ہنر کا مظاہرہ کیا۔ ریڈیو پر ستار ہی نہیں بجایا، نظم ونثر میں اپنا لکھا بھی پیش کیا۔ ریڈیو نے ان کی تصویر اپنے رسالے میں نمایاں طور پر شائع کی۔
وہ مال روڈ پر چہل قدمی کرتیں۔ اپنی بگھی پر لارنس گارڈن سیر کرنے جاتیں، جہاں ٹینس بھی کھیلتی تھیں۔ نسبت روڈ پر ’پریت لڑی‘ والوں کی دکان پر ان کا آنا جانا رہتا جنہوں نے ان کی شاعری کے ابتدائی مجموعے شائع کیے تھے۔ گمٹی بازار میں رہتی تھیں تو قریب ہی نورجہاں کا گھر تھا۔اس زمانے میں مستقبل کی عظیم گلوکارہ سے ان کی کئی دفعہ ملاقات ہوئی،اس وقت وہ بے بی نور جہاں کہلاتی تھیں۔
 تقسیم کا وقت جوں جوں قریب آرہا تھا ، سیاسی تناﺅ بڑھ رہا تھا۔ مختلف قوموں کے درمیان فاصلوں میں اضافہ ہورہا تھا۔ مختصر یہ کہ اب یہ پہلے والا لاہور نہ تھا۔ صورت حال نے امرتا کو دل گرفتہ کردیا۔ لاہور چھوڑنے کا خیال، ان کے لیے سوہان روح تھا۔ وہ سمجھ رہی تھیں کہ حالات جلد معمول پر آجائیں گے۔ ایک دن مال روڈ پر انھوں نے ایک شخص کو دیکھا جس کے پیٹ میں کسی نے خنجر گھونپ دیا تھا۔ اس واقعہ کے بعد امرتا کے لیے گھر سے باہر جانا دوبھرہوگیا۔

حالات کے جبر نے آخر کار لاہور چھوڑنے پر مجبور کیا اور بڑے دکھی دل کے ساتھ یہ شہر انہوں نے اس امید پر چھوڑ دیا کہ جلد وہ واپس لوٹ آئیں گی۔ سفر کا رنج اپنی جگہ لیکن ایک بڑا مسئلہ یہ تھا کہ حاملہ ہونے کی وجہ سے ان کی اپنی طبیعت ٹھکانے پر نہ تھی، خیر وہ ہرج مرج کھینچتیں دہرہ دون اور پھر دہلی پہنچیں۔ تقسیم کے وقت ہونے والے کُشت وخون اور خواتین کی ساتھ ظلم و زیادتی نے ان کے دل ودماغ پربڑے چرکے لگائے ، اس درداور کرب کا اظہار انھوں نے جس نظم کی صورت میں کیا اسے لازوال شہرت حاصل ہوئی:
آج آکھاں وارث شاہ نوں کتوں قبراں وچّوں بول
تے اَج کتابِ عشق دا کوئی اگلا ورقہ پھول
اِک روئی سی دھی پنجاب دی توں لکھ لکھ مارے وَین
آج لکھاں دھیاں روندیاں تینوں وارث شاہ نوں کیہن
اُٹھ درد منداں دیا دردیا، اُٹھ تک اپنا پنجاب
اَج بیلے لاشاں وچھیاں تے لہودی بھری چناب
کسے نے پنجاں پانیاں وِچ دِتّی زہر رلا
تے اونہاں پانیاں دہرت نوں دتّا زہررلا
دھرتی تے لہو دسیا قبراں پیّاں چون
پریت دیاں شہزادیاں اَج وچ مزاراں رون
اَج سبھے کیدو بن گئے حسن عشق دے چور
اَج کِتھوں لیائیے لبھ کے وارث شاہ اک ہور

ادبی جریدے سویرا میں شائع ہونے والی تصویر (بشکریہ سویرا)

امرتا پریتم نے لاہور چھوڑا تو پھر دوبارہ اس شہر پلٹ کر نہیں آئیں۔ پنجابی زبان کے ممتاز سکالر شفقت تنویر مرزا نے ’ڈان‘ اخبار میں لکھا تھا کہ ساٹھ کی دہائی کے شروع میں مجلس شاہ حسین نے انھیں لاہور آنے کی دعوت دی جو انھوں نے مسترد کردی۔ اسی طرح بعد میں بھی ان کو لاہور بلانے کی کوششیں ہوتی رہیں جو بارآور ثابت نہ ہوئیں۔ امرتا بھلے سے لاہور نہ آئیں لیکن اس شہر میں ان سے محبت کرنے والے، ان کے پڑھنے والے ،انھیں یاد کرنے والے ہر دور میں موجود رہے۔ ان سے محبتوں کا سلسلہ تقسیم کے بعد شروع ہوا جس کا سلسلہ ان کی وفات کے بعد بھی جاری وساری ہے۔
اس محبت کے اولین نمونوں میں سے ایک نمونہ ممتاز پنجابی شاعر احمد راہی کی محبت ہے جنھوں نے پنجابی شاعری میں سنگ میل کا درجہ حاصل کرنے لینے والی اپنی کتاب ’ترنجن‘ کا انتساب امرتا پریتم کے نام کیا اور سنہ 1952 میں ممتاز ادبی جریدے ’سویرا‘ کے ایڈیٹر کی حیثیت سے ان کے بارے میں شذرہ لکھا۔ اسی پر ہم اپنی تحریر کو ختم کرتے ہیں:
’اگر کہہ دیا جائے کہ امرتا اس وقت پنجابی زبان کی سب سے اچھی شاعرہ ہے تو روایت کے اندھے پرستاروں کو جلال آجائے گا، لیکن یہ عتاب تو برداشت کرنا ہی پڑے گا کہ حقیقت بہر حال حقیقت ہے۔ امرتا کی شاعری موضوع اور فارم کے اعتبار سے عام پنجابی شاعری سے مختلف ہے۔ دوسرے بڑے شاعروں کی طرح اس نے بھی اپنے لیے نئی راہیں تراشیں اور اب اس کا رنگ اتنا منفرد اور گہرا ہوچکا ہے کہ سو پردوں سے بھی جھلک پڑتا ہے۔ 
امرتا مغربی پنجاب کے ایک سکھ گھرانے میں پیدا ہوئی۔ اس کی ذہنی تربیت میں ’پریت نگر‘ کے صاف ستھرے اور جاندار ماحول کا بڑا ہاتھ ہے، جہاں امرتا کے ذہن نے ہمہ گیر انسان دوستی کے تصور سے جلا پائی۔ فسادات کے موضوع پر لکھی ہوئی اس کی نظم ’آکھاں وارث شاہ نوں‘ ہندوستان گیر شہرت حاصل کرچکی ہے اور ہندوستان کی مختلف زبانوں میں اس نظم کا ترجمہ ہوچکا ہے۔
امرتا کی کہانیوں اور نظموں کے کئی مجموعے چھپ کر بے حد مقبول ہوچکے ہیں۔ تقسیم ملک سے پہلے لاہور میں رہتی تھی، آج کل دلی میں مقیم ہے۔‘

شیئر: