Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

لکھاری حالات و سماج سے کٹ کر نہیں رہ سکتا: عاطف توقیر

عاطف توقیر آج کل جرمنی میں مقیم ہیں اور وہ صحافت کے پیشے سے بھی وابستہ ہیں۔
نوجوان نسل میں مقبول اردو شاعر عاطف توقیر کہتے ہیں کہ پاکستان میں مجموعی طور پر کتاب پڑھنے کا رحجان ختم ہوتا جا رہا ہے لیکن دوسری طرف سوشل میڈیا اور دیگر تکنیکی ترقی کی وجہ سے الفاظ کے ساتھ  رابطہ اب تک موجود ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’یعنی یوں کہیے کہ لوگوں کا کتاب سے رابطہ تو کافی حد تک منقطع ہوا ہے لیکن ایسا نہیں ہے کہ لفظ سے رابطہ ختم ہوا ہے کیونکہ سوشل میڈیا کے ذریعے لوگوں تک الفاظ پہنچ رہے ہیں۔‘
عاطف توقیر کا مجموعہِ کلام ’رد‘ بہت جلد ان کے مداحوں کے ہاتھوں میں ہوگا۔ عاطف کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ ان کے کلام کی کئی ایک ویڈیوز سوشل میڈیا پر اکثر اوقات وائرل ہوتی رہی ہیں۔
ان کے کلام میں سے ’شکریہ غاصبوں‘ اور ’غدار‘ بہت مشہور ہوئیں۔

 

عاطف توقیر آج کل جرمنی میں مقیم ہیں اور وہ صحافت کے پیشے سے بھی وابستہ ہیں۔ پچھلے دنوں ان کا کراچی آنا ہوا جہاں ان کے لیے ایک چھوٹے سے مشاعرے کی محفل سجائی گئی جس میں ان کے مداحوں اور پرستاروں نے بڑی تعداد میں شرکت کی تھی۔
اردو نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے عاطف توقیر نے کہا کہ انہیں یاد نہیں کہ انہوں نے شاعری کرنا کب سے شروع کی۔ البتہ شاعری سے شغف ان کو تب سے ہے جب سے انہوں شاید ہوش بھی نہ سنبھالا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے یاد ہے کہ جب مجھے پڑھنا نہیں آتا تھا تو میرے گھر والے بتاتے ہیں کہ اس وقت بھی میں مختلف شعرا کی کتب، کبھی غالب، کبھی فیض، کبھی اقبال، کبھی میر، ان کی کتب نکال کر کے ان کے مصرعوں پر انگلی پھیرا کرتا تھا۔‘
عاطف توقیر نے بتایا کہ انہوں نے اپنی پہلی نظم تب لکھی تھی جب ان کی عمر تقریبا چھ سال ہوگی۔ ’میں اس وقت بھی تک بندی کا استعمال کرتے ہوئے یعنی موسیقیت کی مدد سے شعر کہہ رہا تھا۔‘

عاطف توقیر نے کم عمری میں ہی نظمیں لکھنا شروع کیں۔

آٹھویں جماعت میں انہوں نے ایک نظم لکھی جو کچھ یوں تھی کہ:
تصور وہ کہاں جس میں تیری مورت نہیں ہوتی
تری یادوں سے بچنے کی کوئی صورت نہیں ہوتی
وہ بتاتے ہیں کہ ’مزے کی بات ہے کہ میری اس کتاب میں وہ نظمیں بھی شامل ہوں گی جو میں نے 12ویں جماعت میں لکھی تھیں۔ اور وہ مشہور نظم ’شکریہ‘ بھی جو میں نے 1999 میں لکھی تھی۔‘
اپنی کتاب کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ کتاب ’رد‘ اس کلام پر مشتمل ہوگی جو پچھلے 20 برسوں میں انہوں نے قلمبند کیا۔ ’یہ مجموعہ دو یا تین ماہ میں قارئین کے ہاتھوں میں ہوگا۔‘

عاطف توقیر کے کلام میں سے ’شکریہ غاصبوں‘ اور ’غدار‘ بہت مشہور ہوئیں۔

عاطف توقیر کہتے ہیں کہ ’اس کتاب میں تمام ہی طرح کے مضامین ہیں۔ اس میں جذباتی شاعری بھی ہے، اس میں رومانوی شاعری بھی ہے۔ اس میں تاریخی باتیں بھی ہیں۔ اس میں سماج بھی موجود ہے، تو جو یہ کتاب رد ہے یہ ایک فرد  کے تمام تر رابطوں یا تعلقات کی عکاس ہوگی یعنی ایک فرد خود اپنے اندر کیا محسوس کرتا ہے اور ایک فرد جو معاشرے میں ہے اور معاشرے سے بندھا ہوا ہے اسے معاشرہ کس طرح متاثر کرتا ہے۔ ’رد‘ اصل میں ایک فرد اور اس کے معاشرے کی مکمل داستان ہے۔‘
اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہ وہ کس کو بڑا شاعر مانتے ہیں یا عصر حاضر کا بڑا شاعر کون ہے، انہوں نے کہا کہ شاعر بڑا یا چھوٹا نہیں ہوتا بلکہ اس کی شاعری بڑی یا چھوٹی ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’ہمارا شاعر شاعری پڑھ کر لکھنے کا عادی ہوگیا ہے۔ وہ دیگر مضامین نہیں پڑھ رہا۔ وہ ثقافتوں اور دیگر زبانوں کا مطالعہ نہیں کر رہا اور اسی وجہ سے ہمارے یہاں جو مضامین ہیں شاعری میں وہ محدود ہوکر رہ گئے ہیں۔‘
مطالعے کے رجحان کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اب ایسی خاصی ویب سائٹس بن گئی ہیں جن پر اردو کی شاعری، افسانے اور شعرا کی  پوری پوری کتابیں موجود ہیں۔ ’ہزاروں لاکھوں لوگ ان پر شاعری کو پڑھتے ہیں اور اس کے علاوہ یوٹیوب پر لوگوں نے اپنے اپنے چینل بنا لیے ہیں۔ جن پر پوری کی پوری کتابیں، شاعری یا کہنا یوں چاہیے کہ آڈیو و ویڈیو موجود ہوتی ہیں۔
’تو ایسا نہیں ہے کہ سوشل میڈیا کی وجہ سے لفظ سے رابطہ مفقود ہوا ہے بلکہ اب اسی کے ذریعہ یہ لوگوں تک پہنچ رہا ہے۔‘

عاطف توقیر سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں کتاب پڑھنے کا رجحان ختم ہوتا جا رہا ہے۔ 

کیا آج کل شاعری صرف رومانوی ہو کر رہ گئی ہے اور انقلابی شاعری اب ناپید ہے؟
اس بارے میں عاطف توقیر کہتے ہیں کہ ’انقلابی شاعری کی گنجائش کی جہاں تک بات کی جائے تو جو بھی معاشرہ تغیر پذیر ہوتا ہے اس معاشرے میں جو لکھاری ہے وہ اپنا تبصرہ کرتا ہے۔ میری ذاتی رائے میں شاعری انقلابی، سماجی یا رومانوی سے زیادہ شاعری کا بینادی تعلق ہوتا ہے بطور سماج کے ایک فرد کے کہ وہ کیا محسوس کرتا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ہر دور میں انقلابی شاعری کی جگہ باقی رہے گی کیونکہ کوئی بھی لکھاری اپنے حالات و سماج سے کٹ کر نہیں رہ سکتا۔ ’اور وہ کسی خاص صورتحال پر کمنٹ کرتا ہے تو وہ کسی مزاحمت کی صورت میں یا سچ کی صورت میں قائم رہتا ہے۔‘

شیئر: