Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جب کرکٹ نے سرحد مٹا دی

قرۃ العین حیدر کے مطابق’انڈیا پاکستان کا میچ ہوا تو چند روز کے لیے گمان ہوتا تھا پنجاب تقسیم نہیں ہوا۔‘
29 جنوری 1955 کو انڈین کرکٹ ٹیم نے لاہور میں پاکستان کے خلاف ٹیسٹ میچ کھیلنا تھا۔ انڈیا میں پاکستانی ہائی کمشنر راجہ غضنفر علی خان کی کوششوں سے، میچ دیکھنے کے خواہش مند انڈینز کے لیے ویزہ کی شرط ختم کردی گئی، اس سے یہ ہوا کہ لوگوں کی بڑی تعداد سرحد پار سے واہگہ بارڈر کے راستے میچ دیکھنے پہنچ گئی۔
زندہ دلانِ لاہور نے بڑی محبت سے ان کا سواگت کیا۔ دیدہ و دل فرشِ راہ کردیا۔ محبت کا زمزمہ بہا۔ یاربیلی ایک دوسرے کے گلے لگ کرروئے۔
یہ میچ اور اس کی وجہ سے جس خوبصورت فضا نے جنم لیا، اسے ہمارے نامی گرامی لکھنے والوں نے توجہ کا مستحق گردانا۔
اس میچ کا ذکر نامور فکشن نگار قرۃ العین حیدر نے اپنے معروف ناول ’آگ کا دریا‘ میں کیا۔ عظیم افسانہ نگار سعادت حسن منٹو نے یہ میچ دیکھنے کا ارادہ کر رکھا تھا جس کی تکمیل میں ان کی موت حائل ہوگئی۔ ممتاز شاعر فیض احمد فیض کے جیل سے اہلیہ کے نام ایک خط میں اس میچ کا حوالہ موجود ہے۔
ادیبوں نے ہی نہیں اور بھی ممتاز افراد نے اس میچ کے بارے میں اپنی یادداشتیں بیان کی ہیں۔
معروف سماجی اور سیاسی ایکٹیوسٹ طاہرہ مظہر علی خان نے ایک انٹرویو میں اس جوش وخروش کے بارے میں بتایا تھا جو اس موقعے پر دیکھنے میں آیا۔ نامور کرکٹ کمنٹیٹر اور لکھاری عمر قریشی کی کتاب ’ہوم ٹو پاکستان‘  میں ان دنوں جو رونق میلہ لگا اس کا ذکر بھی  ہے اور میچ کا احوال بھی۔ سینیئر براڈ کاسٹر شاہد ملک کی تصنیف ’خوش کلامی‘ میں بھی  ایک ایسے واقعے کا بیان ہے جس سے لاہوریوں کی مہمانوں سے لگاوٹ ظاہر ہوتی ہے۔
اس میچ کی سیاسی اور سماجی اہمیت کے بارے میں تاثرات کا ریکارڈ ہونا نہایت اہم بات ہے لیکن لکھاریوں نے اس میچ کے ایک اور اہم  پہلو پر بھی قلم اٹھایا ہے جس کا تعلق کھیل اور کھلاڑی سے ہے۔

پاکستان کے بیٹسمیمن امتیاز احمد اور وقار حسن میچ کے دوران۔ 

ٹیسٹ میچ میں پاکستانی بیٹسمین مقصود احمد کے 99 رنز پر آؤٹ ہونے سے تماشائی خاصے مایوس ہوئے، ان کے اس دکھ میں نامی گرامی لکھنے والے  شریک ہوئے۔ اس آؤٹ سے ممتاز ادیب اور صحافی چراغ حسن حسرت افسردہ ہوئے۔ معروف  مصنف مستنصر حسین تارڑ نے اسے سانحہ قرار دیا۔ عمرقریشی اور نامور تاریخ دان اشتیاق احمد نے لوگوں کی مایوسی اور اداسی کا تذکرہ کیا۔ اور تو اور ایک پنجابی  ناول کا  ایک کردار بھی مقصود احمد کے سینچری نہ کرسکنے  کے غم میں گُھلتا ہے۔
آئیے اس میچ کے بارے میں نامور شخصیات کے خیالات، ایک لڑی  میں پرونے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے قرۃ العین حیدر کے ناول ’آگ کا دریا‘ سے رجوع کرتے ہیں:
انڈیا پاکستان کا میچ ہوا تو چند روز کے لیے گمان ہوتا تھا پنجاب تقسیم نہیں ہوا اور لاہور اور امرتسر حسب سابق ایک ہی صوبے کے دو شہر ہیں۔ ہزاروں سکھ اور ہندو جوق در جوق سائیکلوں پر بیٹھ کر لاہور آئے۔ لاہور کے حلوائیوں نے ان کو مفت مٹھائی کھلائی۔ تانگے والوں نے ان سے کرایہ نہیں لیا۔ قیامت کی چہل پہل رہی۔ آئیڈیلسٹ قسم کے کالم نگاروں نے اخباروں میں عظمت انسان کے گن گائے، بڑے دلخراش واقعات بھی ہوئے۔ ایک بوڑھا اندھا سکھ مشرقی پنجاب سے آیا اور اپنے سابق شہر کے گلی کوچوں کے درو دیوار چھوتا پھرا۔ اس نے کہا مجھے میرے ویران مکان میں لے چلو جو کہیں شاہ عالمی میں تھا۔ لوگوں نے اسے وہاں تک پہنچایا اور وہ اپنے گھر کی دیواروں سے لپٹ لپٹ کر رویا۔
سعادت حسن منٹو کے بھانجے حامد جلال نے اپنے مضمون ’منٹو ماموں کی موت‘ میں بتایا ہے:
اپنی موت سے ایک دن پہلے انھوں نے ایک ریستوران میں اپنے دوستوں سے کہا تھا حامد جلال کو واپس آجانے دو میں اسی کے ساتھ ٹیسٹ میچ میں حنیف محمد کا کھیل دیکھنے جاؤں گا۔
حامد جلال کے بقول: ’درحقیقت ان کی زندگی کی آخری دو خواہشوں میں سے ایک خواہش یہ بھی تھی۔
فیض احمد فیض نے جیل سے خط میں ایلس فیض کو لکھا:
غالباً لاہور شہر آج کل کرکٹ کے بخار میں مبتلا ہوگا۔

فیض احمد فیض نے جیل سے ایلس فیض کو لکھے گئے خط میں اس میچ کا ذکر کیا۔

ایلس نے جواب دیا:
کرکٹ کے بخار کی بابت تمہاری رائے بالکل درست ہے۔ لاہور جیسا دکھتا ہے ویسا ہی اصل میں ہوتا بھی ہے۔ آج کل سکھوں کے جتھے کے جتھے گھوم رہے ہیں۔
ایک دوسرے  خط میں میاں کو بتایا:
لاہور کرکٹ کے بخار میں ہانپ رہا ہے۔ آج صبح بھی سکھوں کی ٹولیاں مال روڈ پر ادھر ادھر مٹر گشت کرتی نظر آرہی ہیں، جیسے وہ اپنی جنتِ گم گشتہ کی تلاش کررہے ہوں۔ مجھے تو ایسے لگا جیسے ہم خود دلی کی سڑکوں پر گھوم رہے ہیں۔ شاید کہیں کوئی ایسی نشانی نظر آجائے جس سے وہاں گزرا ہوا پرانا زمانہ یاد آجائے۔ موسم میں بہار کی آہٹ صاف سنائی دے رہی ہے۔‘ (ترجمہ:مظہر جمیل)
طاہرہ مظہر علی خان نے جگنو محسن کو ٹی وی انٹرویو میں عہدِ رفتہ کو آواز دیتے ہوئے بتایا: ’لاہور میں مال روڈ پر پیازی اور پیلی پگڑیوں والے سکھ نظر آنے لگے، مسلمانوں نے گلے لگایا، پیار کیا۔ یہ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔

مصنف مستنصر حسین تارڑ نے بھی مقصود احمد کے 99 رنزپر آؤٹ ہونے کا ذکر کیا۔ 

طاہرہ مظہر علی نے بتایا کہ ان کے شوہر مظہر علی خان کے ایک دوست جو کمیونسٹ پارٹی کے رکن تھے، ان کی بیوی بھی میچ دیکھنے آئی تھیں،  انہوں نے اس سے کہا کہ  پیسوں کی ضرورت ہو تو مجھ سے لے لو، میں کبھی ہندوستان آئی تو واپس کردینا، اس پر مہمان خاتون نے جواب دیا کہ اسے پیسے نہیں چاہییں، انھوں نے بتایا کہ ہوٹل میں کھانا مفت ملا، تانگے والوں نے کرایہ نہیں لیا، کپڑا اگر چار گز خریدا تو دو گز فری ملا،اس لیے  پیسے تو لگے ہی نہیں۔
عمر قریشی نے ’ہوم ٹو پاکستان‘ میں ہمسایہ ملک  سے آئے مہمانوں کے بارے میں لکھا کہ ’وہ کسی تفریحی پارک میں آئے سکول کے بچے لگ رہے تھے۔ ان کی خوشی اس قدر واضح تھی کہ اسے محسوس کیا جاسکتا تھا۔ لاہور نے انہیں خوش آمدید کہا اور اپنا دل کھول کر رکھ دیا جو اس قدر فراخ تھا کہ اس میں سارے مہمان سما جائیں۔
عمر قریشی نے ایک نابینا سکھ کا ذکر بھی کیا ہے، شہر میں قدم رکھتے ہی جس کی آنکھوں میں آنسو جھلملانے  لگے، چھٹی حس جس کے لیے آنکھوں کا کام کررہی تھی۔
شاہد ملک کے بقول ’۔۔۔لاہورمیں ہندوستانی پنجاب سے آئے ہوئے مہمانوں کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے لوگ بڑی تعداد میں امڈ آئے تھے۔ ایک مرحلے پر یوں لگا کہ ہجوم کے نتیجے میں انارکلی بازار میں ٹریفک رک جائے گی۔ اس پر ایک جالندھری مہمان کسی دکان کے بلند و بالا تختے پر کھڑے ہوگئے اور انھوں نے مجمعے کو مخاطب کرتے ہوئے یہ جملہ کہا ’بھراؤ، ایداں نہ کرو، تکدے جاؤ تے لنگھدے جاؤ۔
اس میچ کی وجہ سے جس محبت بھری جذباتی فضا نے جنم لیا، اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ فسادات کی تلخی لوگوں کے ذہنوں سے محو ہوگئی تھی اور وہ آگے کی طرف دیکھ رہے تھے۔

شاہد ملک کے بقول لاہور میں ہندوستانی پنجاب سے آئے ہوئے مہمانوں کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے لوگ بڑی تعداد میں امڈ آئے تھے۔

اب ہم اس ٹیسٹ میچ سے وابستہ دوسری انمٹ یاد کی  طرف بڑھتے ہیں جس کا تعلق مقصود احمد کے 99 رنزپر آؤٹ ہونے سے ہے۔ اس ’سانحے‘ کے چشم دید گواہ مستنصر حسین تارڑ لکھتے ہیں:
انڈیا پاکستان کے لاہور ٹیسٹ کے دوران ایک ایسا سانحہ ہوا جو اب بھی لاہوریوں کونہیں بھولتا۔ ۔ ۔ مقصود احمد اپنے شہزادوں ایسے سٹائل سے بے خطر کھیلتے، ہندوستانی بولروں کی پٹائی کرتے 99 کے سکورتک جا پہنچے۔ ان دنوں ہندوستان کے خلاف سنچری کرنا ایک معجزے سے کم نہ تھا۔ لارنس گارڈن کی جم خانہ گراؤنڈ میں جمع لوگوں میں ایک ہیجان آمیزکرنٹ دوڑنے لگا کہ مقصود سنچری کرنے والے ہیں۔ پھر وہ  ہوا جس کے گھاؤ آج تک تازہ ہیں۔ ادھر سے سلو بولر گپتے نے گیند کی۔ مقصود ایک شاندار سٹروک کھیلنے اورسنچری مکمل کرنے کے لیے کریزسے تین چار قدم آگے گئے، بیٹ گمایا، بال گھومتا ہوا ان کے قابومیں نہ آیا اور وکٹ کیپر تمہانے نے انہیں 99 پر سٹمپ آؤٹ کر دیا۔ پورے لاہور میں ایک سناٹا چھا گیا، حیدرآباد میں ایک شخص ریڈیو پر کمنٹری سنتا ہوا مقصود کے  99 پر آؤٹ ہوجانے کی تاب نہ لا کر دل کا دورہ پڑنے سے چل بسا۔ متعدد لوگ بے ہوش ہو گئے۔ بعد میں بیان آئے کہ یہ ہندوستانی بڑے کمینے ہیں، ایک پاکستانی کو سنچری کرتا دیکھ کربرداشت نہ کر سکے۔
وکٹ کیپر تمہانے اسے نہ کرتا سٹمپ، سنچری ہوجاتی تو بے شک کر لیتا۔ ۔ ۔ بھلا یہ کوئی سپورٹس مین سپرٹ ہے، بلکہ یہ مطالبہ بھی ہوا کہ اگر کوئی بیٹسمین 99 تک پہنچ جائے تواسے ایک اضافی رن عطا کر دینا چاہیے یعنی صرف پاکستانی بیٹسمین کو۔ اہل لاہور نے آج  تک بولر گپتے اور وکٹ کیپر تمہانے کو معاف نہیں کیا، اسی لیے تو مجھے آج بھی ان غیر معروف ہندوستانی کھلاڑیوں کے نام یاد ہیں۔
اشتیاق احمد نے اس میچ کے 50 برس ہونے پر انگریزی کالم میں لکھا کہ اس میچ کی یادیں ان کے ذہن پر نقش ہیں۔ مقصود احمد کے آؤٹ ہونے پر ماحول کے سوگوار ہونے کا ذکر کیا اور لکھا کہ اس کے بعد گھروں کو لوٹتے ہوئے ہم نے  خود کو بکھرا ہوا محسوس کیا۔

اس میچ میں عمر قریشی اور جمشید مارکر نے کمنٹری کی۔ 

اس میچ میں عمر قریشی اور جمشید مارکر نے کمنٹری کی۔ مقصود احمد کے 99 رنزپرآؤٹ ہونے کی ’منحوس‘ خبر سامعین تک عمر قریشی کی آوازکے ذریعے پہنچی جنھوں نے برسوں بعد  مقصود احمد کی اننگز کے بارے میں لکھا کہ اس کی یاد حافظے میں یوں تازہ ہے، جیسے کل کی بات ہو۔ انہوں نے اسے کسی بھی کمنٹیٹر کی ڈریم اننگز قرار دیا۔
عمرقریشی نے لکھا کہ ’مقصود احمد کے آئوٹ ہونے پر گرائونڈ میں ایسے  خاموشی اور سناٹا تھا جیسے مشترکہ خاندان میں کسی کی ناگہانی موت ہو گئی ہو۔‘
چراغ حسن حسرت کے بیٹے ظہیر جاوید  اپنے والد پر مضمون میں لکھتے ہیں: ’وہ کرکٹ کمنٹری بھی بہت شوق سے سنتے تھے اور بھائی مقصود جب 99 پر آؤٹ ہوئے توان کا ملال دیکھنے سے ہی معلوم ہوسکتا تھا، بیان سے نہیں سمجھا جا سکتا۔
پنجابی کے معروف ادیب نین سکھ کے ناول ’مادھولال حسین: لہور دی ویل‘ میں ایک کردار استاد فیقا جو کرکٹ کا شیدائی ہے اسے بھی مقصود احمد کے آؤٹ ہونے کا بہت رنج ہوا اور بقول مصنف ’اوہدا دل بند ہوندا ہوندا رہ گیا (اس کا دل بند ہوتے ہوتے رہ گیا)۔

شیئر: