Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

وزیر محمد: پاکستان کرکٹ ٹیم کے ’وزڈن‘

محمد برادران کی اپنی والدہ کے ساتھ ایک تصویر جو حنیف محمد کی کتاب میں شائع ہوئی
کرکٹ کی تاریخ میں محمد برادران کو منفرد مقام حاصل ہے۔ چار بھائیوں نے ٹیسٹ کرکٹ میں پاکستان کی نمائندگی کی۔ پانچویں نے فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلی، ٹیسٹ کرکٹر بننے کی منزل کے قریب پہنچے، کپتان عبدالحفیظ کاردار نے 1955میں انڈیا کے خلاف ڈھاکہ ٹیسٹ شروع ہونے سے ایک دن پہلے، رئیس محمد کو یہ نوید جانفزا سنائی کہ وہ کل کے ٹیسٹ میں ٹیم کا حصہ ہوں گے لیکن میچ شروع ہونے سے پہلے وہ ڈراپ کرکے بارھویں کھلاڑی بنادیے گئے۔ اس ناانصافی کی کبھی تلافی نہ ہوسکی۔
حنیف محمد عظیم بیٹسمین، مشتاق محمد عمدہ بیٹسمین اور کامیاب کپتان، صادق محمد سٹائلش اوپنر۔
آج ہم  نے ذکر کرنا ہے بھائیوں میں سب سے بڑے وزیر محمد کا جن کا تذکرہ باقی ٹیسٹ کرکٹر بھائیوں کے مقابلے میں بہت کم ہوتا ہے۔ وزیر محمد کا چرچا کم ہونے کی بنیادی وجہ تو یہی ہے کہ کرکٹ کے میدان میں ان کی کارکردگی چھوٹے بھائیوں کی بہ نسبت فروتر ہے۔ دوسرے وہ 45 برس سے انگلینڈ میں مقیم ہیں، اس عرصے میں کرکٹ سے متعلق کوئی ذمہ داری بھی انہیں نہیں سونپی گئی۔

وزیر، رئیس اور حنیف محمد (یہ تصویر بھی حنیف محمد کی کتاب میں شائع ہوئی)

22 دسمبر 1929کو جونا گڑھ میں آنکھ کھولنے والے وزیر محمد نے پاکستان کی طرف سے 20 ٹیسٹ کھیلے۔ قومی ٹیم کی چند ابتدائی یادگار کامیابیوں میں ان کا اہم کردار رہا جس پر انہیں ناز ہے۔
اگست 1954 میں پاکستان کرکٹ ٹیم نے انگلینڈ کو، اس کی سرزمین پر، اوول ٹیسٹ میں شکست دے کر دنیا کو حیران کردیا۔ اس میچ کے اصل ہیرو صحیح معنوں میں فضل محمود تھے جنھوں نے بارہ وکٹیں حاصل کیں۔ لیکن اس جیت میں وزیر محمد کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ میزبان ٹیم پہلی اننگز میں 130رنز بناکر ڈھیر ہوگئی تو پاکستان  نے تین رنز کی برتری کے ساتھ دوسری اننگز کا آغاز کیا۔ 82 کے سکور پر پاکستان کے آٹھ کھلاڑی پویلین لوٹ گئے۔ اس نازک صورت حال میں وزیر محمد  نے ذوالفقار احمد کے ساتھ مل کر 58 رنز جوڑے۔ اس کے بعد آخری وکٹ کی شراکت میں محمود حسین کے ساتھ مجموعی سکور میں قیمتی 24 رنز کا اضافہ کیا۔ اتفاق سے پاکستان اتنے ہی رنز سے یہ میچ جیتا۔ وزیر محمد 42 رنز بناکر ناٹ آﺅٹ رہے۔ یہ ٹیسٹ میچ میں پاکستان کی طرف سے سب سے زیادہ انفرادی سکور تھا۔
اس میچ میں وزیرمحمد سے دو تین دفعہ کیچ بھی ڈراپ ہوا۔ اس حوالے سے مزے کا ایک قصہ ہمیں پاکستانی وکٹ کیپر امتیاز احمد نے سنایا تھا۔ ان کے بقول ’میچ میں ایک مرحلے پر کامپٹن  نے شاٹ کھیلا تو گیند فضا میں بلند ہوئی، فیلڈر کے پاس اسے ہاتھوں میں محفوظ کرنے کے واسطے مناسب وقت تھا، وزیر محمد کیچ پکڑنے کے لیے حرکت میں آئے تو ساتھی کھلاڑی کہنے لگے کہ ’وزیر! خدا کا واسطہ ہے، کیچ پکڑ لینا، ملک کی عزت کا سوال ہے۔‘ لیکن کیچ تو خیر وہ کیا کرتے گیند ان کے ہاتھوں میں آنے کے بجائے ماتھے سے جا ٹکرائی۔

کرکٹ کی تاریخ میں محمد برادران کو منفرد مقام حاصل ہے فوٹو: ٹوئٹر

1956میں پاکستان نے آسٹریلیا کو پہلی دفعہ ٹیسٹ میچ ہرایا۔ کراچی میں میٹنگ وکٹ پر مہمان ٹیم پہلی اننگز میں 80رنز بنا پائی۔ پاکستان ٹیم کے 70پر پانچ کھلاڑی آﺅٹ ہوگئے جس کے بعد وزیر محمد نے کپتان عبدالحفیظ کاردار کے ساتھ مل کر ٹیم کو مشکل صورت حال سے نکالا اور 67 رنز کی عمدہ اننگز کھیلی۔ 
حنیف محمد اور وزیر محمد کے لیے 1958 کا دورہ ویسٹ انڈیز بہت بارآور ثابت ہوا۔ حنیف محمد نے برج ٹاﺅن ٹیسٹ میں 337 رنز کی تاریخی اننگز کھیلی جسے ٹیسٹ میچ بچانے کی عظیم ترین کوشش کہا جاتا ہے۔ اس سیریز میں پاکستان  نے پورٹ آف سپین میں میزبان ٹیم کو ایک اننگز سے شکست دی تو اس تاریخی کامیابی میں وزیر محمد کی 189رنز کی شاندار اننگز  نے کلیدی کردار ادا کیا۔ یہ اس ٹیسٹ میچ کی اکلوتی سنچری تھی۔
کنگسٹن ٹیسٹ میں بھی وہ سنچری بنانے میں کامیاب ہوئے۔ جارج ٹاﺅن ٹیسٹ میں 97 رنز کے ساتھ ناٹ آﺅٹ رہے۔ویسٹ انڈیز میں ان کی کارکردگی کے پیش نظر امید یہی تھی کہ وہ حنیف محمد کے ساتھ مزید کئی سال ٹیم کا حصہ رہیں گے لیکن افسوس ایسا نہ ہوسکا۔ وہ اپنی فارم برقرار نہ رکھ سکے اور ان کی کارکردگی کا گراف بتدریج نیچے آتا گیا۔ ویسٹ انڈیز کے دورے کے بعد چار ٹیسٹ میچ کھیل سکے۔ 1959میں انہوں  نے ڈھاکہ میں آسٹریلیا کے خلاف آخری ٹیسٹ کھیلا۔
1963میں انہیں نوجوان کھلاڑیوں پر مشتمل انگلینڈ کا دورہ کرنے والی پاکستان ایگلٹس ٹیم کا کپتان مقرر کیا گیا۔ اس دورے سے ان کی کپتانی میں کئی ایسے نوجوان کھلاڑیوں کو گروم ہونے کا موقع ملا جنہوں نے آگے چل کر کرکٹ میں نام کمایا۔ اس ٹیم میں ان کے چھوٹے بھائی مشتاق محمد اور صادق محمد بھی شامل تھے۔ 

وزیر محمد بھائیوں میں سب سے بڑے ہیں فوٹو: باؤنڈری بکس ڈاٹ کام

صادق محمد فطری طور پر دائیں ہاتھ کے بیٹسمین تھے لیکن کرکٹ میں اپنے ابتدائی برسوں میں وزیر محمد کی ہدایت پر انہوں نے ’کھبے‘ ہاتھ سے بیٹنگ شروع کردی تو ان کی کارکردگی میں خاصی بہتری آئی۔ وزیر محمد  نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ اس زمانے میں کھبے ہاتھ سے کھیلنے والے بہت کم تھے، اس لیے فرسٹ کلاس کرکٹ میں بولروں کو ایسے بیٹسمینوں کو بولنگ کرانے کا زیادہ تجربہ بھی نہیں تھا، تو اس کا فائدہ بھی صادق محمد کو ہوا۔
وزیر محمد کے خیال میں ان کے بھائی رئیس محمد بھائیوں میں سب سے سٹائلش بیٹسمین تھے۔ ان کے ٹیسٹ کرکٹر نہ بننے کا انہیں افسوس ہے۔
حنیف محمد کے ساتھ وہ قومی ٹیم میں کھیلے۔ ڈومیسٹک کرکٹ میں ان کے کپتان رہے۔ حنیف محمد  نے 1959 میں فرسٹ کلاس کرکٹ میں کراچی کی طرف بہاولپور کے خلاف 499 رنز بناکر ڈان بریڈمین کے 452رنز کا ریکارڈ توڑا۔ وہ اپنی اس اننگز کا کریڈٹ وزیر محمد کو دیتے جو کراچی کی ٹیم کے کپتان تھے۔ ایک قومی اخبار کو انٹرویو میں انھوں نے بتایا، ’وزیر بھائی ٹیم کے کپتان تھے۔ میں نے تین سو کر لیے توکہنے لگے، تم نے بریڈ مین کا ریکارڈ توڑنا ہے۔ میں نے کہا ابھی ڈیڑھ سو باقی ہیں، یہ کیسے ہوگا؟ کہنے لگے جیسے کھیل رہے ہو تم کر لو گے، بس فٹ اور ریلکس رہو۔ مجھے فٹ رکھنے کے لیے انھوں نے میری مالش بھی کی۔‘

حنیف محمد  نے 1959 میں ڈان بریڈمین کا ریکارڈ توڑا، وہ اپنی اس اننگز کا کریڈٹ وزیر محمد کو دیتے تھے فائل فوٹو: روئٹرز

وزیر محمد کرکٹ کے بارے میں معلومات کا خزینہ ہیں جس کی وجہ سے حنیف محمد کے بقول انہیں ’وزڈن‘ کہا جاتا۔ حنیف محمد نے اپنی آپ بیتی میں لکھا ہے کہ وزیر محمد نئے ٹیلنٹ کے پارکھ تھے، اس لیے جب کسی باصلاحیت نوجوان کے کھیل سے متاثر ہوتے، اس کے بارے میں کراچی کرکٹ ایسوسی ایشن کے صدر مظفر حسین کو آگاہ کرتے۔ پاکستان کے ممتاز وکٹ کیپر وسیم باری کے ٹیلنٹ کو بھی سب سے پہلے انہوں نے پہچانا اور حنیف محمد اور مظفر حسین کو مطلع کیا۔
1969 میں عبدالحفیظ کاردار نے حنیف محمد پر ریٹائرمنٹ کے لیے دباﺅ ڈالا۔ وزیر محمد اس وقت سلیکٹر تھے۔ کاردار چاہتے تھے کہ وہ حنیف محمد کو ریٹائر ہونے پر آمادہ کریں لیکن انہوں نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ ان کے بھائی ابھی مزید تین چار سال کرکٹ کھیل سکتے ہیں۔ البتہ کاردار کی سوچ سے حنیف محمد کو وزیر محمد نے بھاری دل سے آگاہ کردیا۔
وزیر محمد آج نوے برس کے ہوگئےہیں۔ اس وقت وہ پاکستان کے سب سے عمر رسیدہ ٹیسٹ کرکٹر ہیں۔ انگلینڈ میں وہ ایک باوقار زندگی گزاررہے ہیں۔ فرصت کے اوقات میں باغبانی کرتے ہیں اور ٹی وی پر کرکٹ میچ دیکھتے ہیں۔

شیئر:

متعلقہ خبریں