Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا فروری کا مہینہ 30 دن کا بھی ہوتا ہے؟

تحقیق سے پتا چلا کہ فروری 30 دن تک بھی پاؤں پھیلاتا رہا ہے (فوٹو: سوشل میڈیا)
میں نے جب بھی دوستوں کو کھانا کھلانے سے بچنا ہو تو انہیں 30 فروری کی تاریخ دے دیتا ہوں۔ میرے دوست بھی مجھ سے کہیں زیادہ ’ٹیکنیکل‘ ہیں، وہ میرے 30 فروری کو بھی 28 فروری قرار دے کر اس روز مجھ سے کھانا کھا لیتے ہیں۔
اس بار بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ فروری ابھی آیا ہی تھا کہ دوستوں کے پورے جمگھٹے نے مجھ سے کھانا کھلانے کی فرمائش کر دی۔ میں نے حسب معمول ان کو 30 فروری کی تاریخ دی تو ایک دوست نے کہا کہ ہو سکتا ہے فروری بھی کبھی 30 دن کا ہوتا ہو۔
اس کی بات سن کر میں کھانے کا بل بھول گیا اور اس کشمکش میں پڑ گیا کہ آخر فروری ہی 28 یا 29 دنوں کا کیوں ہوتا ہے؟
یا پھر فروری اتنا آوارہ گرد کیوں ہے؟ کیوں یہ 28 کا ہوتے ہوئے ہر چوتھے سال 29 کا ہو جاتا ہے۔
تحقیق کرنے بیٹھا تو پتا چلا کہ صرف 29 ہی نہیں بلکہ فروری 30 دن تک بھی پاؤں پھیلاتا رہا ہے اور میرے دوست کی مذاق اور تکے بازی میں کی گئی بات درحقیقت درست ہے۔
جی ہاں تاریخ میں ایسے واقعات ملتے ہیں جب فروری نے لیپ کے سال سے بھی بڑھ کر 30 کا ہندسہ چھوتے ہوئے یکم مارچ تک پیش قدمی کی۔
قصہ کچھ یوں ہے کہ 1700 میں فن لینڈ بھی سویڈن کا حصہ ہوا کرتا تھا۔ اس وقت وہاں جولین سیزر کے کیلنڈر کی مناسبت سے مہینے چل رہے تھے کہ ایک روز حکومت وقت نے جولین کیلنڈر کو چھوڑ کر عیسوی کیلنڈر پر چلنے کا فیصلہ کیا اور یہ قدم اٹھا لیا گیا۔
جولین کیلنڈر کے مطابق اس سال فروری 29 دن کا ہونا تھا یعنی لیپ ایئر تھا تاہم کیلنڈر تبدیل کیے جانے کے بعد وہاں لیپ ایئر نہیں تھا۔ چار سال بعد اور پھر اس کے چار سال بعد یعنی 1704 اور 1708 لیپ ایئر کے طور پر آئے جس سے یہ مشکل پیدا ہو گئی کہ مہینے کو کس طرح سے پورا کیا جائے کیونکہ عوامی سطح پر بھی لیپ ایئر کی حمایت کی جا رہی تھی، اس لیے دو سال بعد مخمصے سے بچنے کے لیے حکومت نے واپس جولین کیلنڈر پر آنے کا فیصلہ کیا۔
1712 کے فروری کے 30 دن تھے کیونکہ جولین کیلنڈر پر واپس آنے کے بعد دو لیپ ایئرز کو بیک وقت شامل کیا گیا جس کی وجہ سے دنوں کی تعداد بڑھی۔

قدیم برطانوی کیلنڈر کی تصویر (فوٹو: وکی پیڈیا)

 سویڈن میں آخری بار 1753 میں گریگورین کے حوالے سے تبدیلی ہوئی جب 11 روز کی درستی کی گئی، سو اس کا فروری یکم مارچ تک گیا۔ کیلنڈر میں ہونے والی ایسی اصلاحات سے کوئی خوش دکھائی نہیں دیا، لوگوں کا خیال تھا کہ ان کی زندگی کے 11 روز چرا لیے گئے ہیں۔
سوویت یونین کا 30 روزہ فروری
1930 اور 1931 وہ سال ہیں جب سوویت یونین میں فروری کا مہینہ 30 روز پر مشتمل تھا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ 1929 میں حکومتی سطح پر انقلابی کیلنڈر لانے کی منصوبہ بندی کی گئی۔
 اس کیلنڈر کے مطابق ہفتے کے ایام کو سات سے گھٹا کر پانچ کر دیا گیا جس کے بعد کام کاج کے حوالے سے ہر مہینہ 30 دن کا ہو گیا، اس کے علاوہ بچ جانے والے پانچ، چھ روز کو بغیر کسی مہینے کے مان لیا گیا اور انہیں چھٹیاں قرار دے دیا گیا۔
یہ قدم اس لیے اٹھایا گیا تھا کہ اس سے صنعتی سطح پر ہونے والے کام کی استعداد بڑھائی جائے اور ہر ہفتے آنے والی چھٹی کی رکاوٹ کو ختم کیا جائے۔

گریگوری کیلنڈر 1582 میں متعارف کرایا گیا تھا (فوٹو: آئی سٹاک)

ہفتے کی بحالی
یہ سلسلہ جاری رہا اور نئے کیلنڈر کے مطابق ہفتے اور مہینے کا وقت آگے بڑھتا رہا، تاہم اتوار کی چھٹی کی روایت کو ختم کرنا خاصا مشکل ثابت ہوا۔ ہفتے میں ایک چھٹی نہ ملنے کی وجہ سے لوگوں میں بے چینی پیدا ہوئی جس کا اثرا یہ ہوا کہ ’انقلابی‘ کے ساتھ ساتھ گریگورین کیلنڈر بھی آگے بڑھتا رہا جس کا ثبوت اس دور کے کمیونسٹ پارٹی کے اخبار ’اداوا‘ سے بھی ملتا ہے۔
سوویت انقلابی کیلنڈر کو اس لیے بھی ناپسند کیا گیا کہ ہفتے کے پانچ روز میں ایک بھی چھٹی نہیں تھی حالانکہ اس سے قبل لوگ ہفتے میں ایک چھٹی کرنے کے عادی تھے اس لیے 1940 میں ہفتے کے سات دنوں کو بحال کر دیا گیا۔
تیرہویں صدی کے دانشور جوہانیس ڈی سیکروبوسکو نے لکھا ہے کہ ’آٹھ اور 48 قبل مسیح کے درمیان لیپ ایئر کا فروری 30 روز کا ہوتا تھا اس وقت فروری کی طرح جولائی اور اگست کے مہینے چھوٹے ہوتے تھے۔‘

1930 کے سوویت کیلنڈر کی ایک تصویر (فوٹو: وکی میڈیا)

فروری کا دورانیہ بڑھتا گھٹتا کیوں ہے؟
سال میں 365 دن ہوتے ہیں لیکن زمین کے سورج کے گرد گردش کا دورانیہ 365 دن، پانچ گھنٹے، 49 منٹ اور 12 سیکنڈ ہے یعنی تقریباً ایک چوتھائی دن زیادہ ہے۔
زمین کی گردش کے دوران ہی موسموں کی تبدیلی کا عمل جاری رہتا ہے۔ اگر ہر سال کو 365 کے ایام تک محدود رکھا جائے تو ہر سال قریباً چھ گھنٹے کا فرق پڑنے لگتا ہے جس سے کیلنڈر اور موسموں کے درمیان فاصلہ بڑھ جاتا ہے۔
اس فرق کو پُر کرنے کے لیے ہر سال لیپ سیکنڈز اور لیپ سال کی بدولت گھڑیوں اور کیلنڈر میں زمین اور موسموں میں مطابقت پیدا کی جاتی ہے۔
اس طرح ہر سال کے اضافی قریباً چھ چھ گھنٹے مل کر چوتھے سال پر کم و بیش چوبیس گھنٹے بن جاتے ہیں جسے لیپ ایئر میں پورے دن کے طور پر مانتے ہوئے فروری میں ایک روز کا اضافہ کر دیا جاتا ہے۔

جولیس سیزر نے فیصلہ کیا کہ ہر چار سال میں ایک 366 روز کا ہو گا (فوٹو: سوشل میڈیا)

جب فروری نہیں ہوتا تھا
آٹھ قبل مسیح میں رومن حکومت کا کیلنڈر 10 ماہ کا تھا جس کا آغاز مارچ سے ہوتا تھا اور اختتام دسمبر پر ہوتا تھا یعنی جنوری کا مہینہ بھی نہیں تھا۔ یہ سلسلہ چلتا رہا پھر اس وقت کے بادشاہ نوما پومپیلیئس نے اس میں دو ماہ کا اضافہ کیا جس سے سال کے دنوں کی تعداد 355 ہو گئی تاہم دنوں کی ترتیب خراب ہونے پر 27 روز کا لیپ ایئر ڈال دیا گیا، پھر چار روز نکال دیے گئے اور چوبیس فروری سے لیپ ایئر کا آغاز ہونے لگا۔
45 قبل مسیح میں روم کے بادشاہ جولیس سیزر نے ماہرین سے مشورے کے بعد فیصلہ کیا کہ ہر چار سال میں ایک 366 روز کا ہو گا۔
پھر یہ طے کیا گیا کہ ہر 400 سال میں سے 100 کے بجائے 97 لیپ ایئر ہوں گے۔

ہر سال 365 دنوں میں اضافی 6 گھنٹوں سے 4 سال بعد فروری 29 کا ہو جاتا ہے (آرڈی ڈاٹ کام)

بعد ازاں سیزر کی ہدایت پر فروری کو نکال کر کیلنڈر ازسرنو ترتیب دیا گیا، انہوں نے کیلنڈر کو سورج کے ساتھ جوڑ دیا اور سال کو 365 روز تک محدود کر دیا گیا، جس سے فروری دوسرے نمبر پر آ گیا اور آج تک اسی پوزیشن پر ہے۔
دنیا میں رائج کیلنڈرز
گریگورین (عیسوی)، اسلامی ہجری اور دیسی کے علاوہ دنیا میں کئی کیلنڈرز استعمال ہو رہے ہیں جن میں رومن، جولین، جیوش،چینی، ایتھوپیائی، ہندو، بدھ، مصری، ایرانی بربر اور دوسرے کیلنڈرز شامل ہیں۔
  • واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں

شیئر: