Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اب بھی سبق سیکھیں گے یا نہیں

کورونا سے پہلے کی دنیا بہت شناسا تھی اور بعد کی دنیا اتنی ہی نا آشنا (فوٹو: اے ایف پی)
فرض کیجیے اگر کورونا نے اس وقت دنیا کو نہ جکڑا ہوتا تو اخباروں کی شہ سرخیاں اور ٹیلی وژن پر ہیڈلائنز اور پروگرام کے موضوع کس قدر مختلف ہوتے۔
امریکہ اپنے الیکشن میں مگن ہوتا، برطانیہ بریگزٹ سے نبرد آزما ہوتا، انڈیا کا اندرونی مذہبی منافرت کا خلفشار اپنے عروج پر ہوتا، افغانستان کے دو صدور بکھرتے ہوئے افغان امن عمل معاہدے کو جوڑے رکھنے کی تگ و دو میں لگے ہوتے اور پاکستان میں بحث مڈ ٹرم الیکشن، شریف خاندان کی واپسی، نیب کی کارروائیوں اورمعیشت کے ارد گردگھوم رہی ہوتی۔ 
مسلسل تیسرا ہفتہ ہے کہ قلم اٹھایا ہے تو موضوع کورونا کے علاوہ کوئی اور ہو ہی نہیں پا رہا۔ اس برق رفتار دنیا میں کسی ایک نقطے پر توجہ زیادہ دیر مرکوز رکھنا ممکن ہی نہیں، ہنگامہ خیزی کچھ ایسی ہے کہ چند لمحوں میں ہی انسانی دماغ  ایک چیز سے کسی دوسری طرف مائل ہو جاتا ہے۔
ویسے اگر چیک کرایا جائے تو کوئی بعید نہیں کہ پتا چلے کہ پوری دنیا کو ہی “ attention deficit disorder” ہوتا جا رہا ہے۔
البتہ گذشتہ چند ہفتوں سے تو لگتا ہے کہ دنیا بالکل ساکت ہوگئی ہے کیونکہ کورونا جسے ہم چند ہفتے پہلے صرف ایک معمولی سی وبا سمجھ رہے تھے اب وہ نہ صرف ہر ذی شعور کے حواسوں پر مکمل طور پر سوار ہے بلکہ دنیا بھر کے معاشی نظام کو تلپٹ کرنے پر تلی ہوئی ہے۔
ایک کورونا کے وائرس نے سب تجزیے، سب تخمینے ، سب منصوبہ سازی تتر بتر کر دی ہے۔ جب تک اس کا توڑ نہیں ڈھونڈ لیا جاتا دنیا کا ہر دھندہ فی الحال چوپٹ ہے، بنی نوع انسان کی حالت اس تنکے کی سی ہے جو مکمل طور پر پانی کے بہاؤ کے رحم و کرم پر ہے۔
کورونا سے پہلے کی دنیا بہت شناسا سی تھی اور کورونا کے بعد کی دنیا اتنی ہی نا آشنا۔
کچھ باتیں البتہ بہت واضح ہو چکی ہیں کہ انسانیت نے اگر جینا ہے اور مرنا ہے تو ایک  ساتھ۔
دنیا اتنی سمٹ چکی ہے کہ چین کے ایک گمنام قصبے سے شروع ہونے والی بیماری آسٹریلیا سے برازیل تک تمام قوموں کو متاثر کر چکی ہے۔ ہر ملک جانتا ہے کہ چاہے پہلے یا بعد میں، باری سب کی آنی ہے۔

چھوٹے سے چینی قصبے سے شروع ہونے والا وائرس پوری دنیا میں پھیل گیا (فوٹو: اے ایف پی)

چاہے لاکھ بارڈر بند ہوں اور پروازیں معطل، اس بین الاقوامی وبا نے اپنا اثر دکھا دیا ہے۔ جیسے جیسے اشیا کی فراہمی کم ہو رہی ہے، اس کا اثر صحت سے تجارت تک منتقل ہونے میں دیر نہیں۔
تجارت اور معیشت کا براہ راست تعلق سیاست سے ہے۔ یہ باہمی انحصار (interdependence ) شاید اس وبا کا سب سے بڑا سبق ہے۔
بین الاقوامی تعلقات کے علاوہ لمحہ فکریہ یہ بھی ہے کہ اب وینٹیلیٹرز کی تعداد سے سینیٹائزر کی کمپوزیشن تک عام لوگوں کو پتا لگ چکی ہے۔ یہ بھی لگ پتا گیا ہے کہ شعبہ صحت کی کس قدر اہمیت ہے۔
نہ صرف صحت بلکہ سائنس اور نئی ایجادات پر انسانیت کا کس قدر انحصار ہے۔ کورونا کی ٹیسٹنگ کٹس سے لے کر ویکسین تک، اب سب نظریں سائنس کی طرف اٹھ رہی ہیں۔ اس وقت کے لیڈر سیاسی، مذہبی اور عسکری نہیں بلکہ اصل ہیروز سائنس دان، ڈاکٹرز اور نرسیں ہیں۔
ملکوں کو یہ بھی سوچنا ہے کہ ایک دوسرے پر جنگ مسلط رکھنے کے لیے اسلحے کی دوڑ اور تباہی کا سامان کام آئے گا یا طبی آلات اور لیبارٹریاں کیونکہ بظاہر ایک وائرس سے ہی اتنا نقصان ہو رہا ہے جتنا ملک ایک دوسرے سے جنگ میں بھی نہ کر سکیں۔ 
اس کے ساتھ ریاستوں کو یہ بھی سوچنا ہے کہ عوام کا ان کے ساتھ رشتہ اعتماد کا ہے یا بداعتمادی کا۔ وہ ملک جہاں پر عوام نے ریاست کے احکامات پر فوری اور رضاکارانہ عمل کیا وہاں اس وبا کو محدود کرنے میں مدد ملی۔

ہمارے ہاں ابھی بھی لاک ڈاؤن کے فائدے اور نقصانات کا تقابل ہو رہا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

کچھ ملکوں نے فوری فیصلے کیے اور عوام نے سخت حالات کے ساتھ سمجھوتا کیا جبکہ کچھ ملکوں میں ابھی اقدامات پر بحث جاری ہے اور عوام نے گھبرا کر دکانیں تک خالی کر دیں۔ ہمارے اپنے ہاں شروع میں سب اچھا کی گردان جاری رہی تاوقتیکہ متاثرین کی تعداد دنوں میں سینکڑوں تک پہنچ گئی۔
ابھی بھی لاک ڈاؤن کے فائدے اور نقصانات کا تقابل ہو رہا ہے۔ اسی سے ہماری ریاستی کنفیوژن کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
اس نامراد کورونا نے ایسے ایسے نا ممکنات کو ممکن کر دکھایا ہے کہ عقل دنگ رہ گئی ہے، مثلاً حکومت اور سیاسی مخالفین میں ایسا اتفاق پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آیا، جو لوگ ایک دوسرے کی بات سننے کے روادار نہیں تھے اب اس مسئلے کے حل کے لیے ساتھ مل بیٹھنے کی دعوت دینے میں پہل کر رہے ہیں۔
یہ بھی سوچنا ہوگا کہ آخر اس تعاون کے لیے بحران کا ہی کیوں انتظار کرنا پڑا۔  آخر عام دنوں میں عوامی مسائل پر کیوں اکھٹے نہیں ہوا جاسکتا اور اس وبا کے ٹل جانے بعد کیا پھر وہی business as usual ہوگا۔
پھر وہی الزام تراشی اور سیاسی دھینگا مشتی، جب تک کہ کوئی اگلا بحران نہ آجائے۔ لوگ تو شاید سبق سیکھ لیں گے، کیا ارباب اختیار بھی سبق سیکھیں گے یا نہیں؟

شیئر:

متعلقہ خبریں