Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

'بلوچستان ایئرایمبولینس کی لگژری کا متحمل ہوسکتا ہے؟'

بلوچستان میں صحت کی بنیادی سہولیات کا فقدان ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)
بلوچستان حکومت نے نئے مالی سال کے بجٹ میں اڑھائی ارب روپے کی خطیر رقم سے ایئرا یمبولنس کی خریداری کا اعلان کیا ہے۔ حزب اختلاف کے ارکان سمیت ڈاکٹر تنظیموں اور سوشل میڈیا پر صارفین نے صوبائی حکومت کے اس فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ ایسے صوبے میں جس کے بیشتر حصے میں صحت کا بنیادی نظام ہی موجود نہیں، ہر سال حاملہ خواتین اور نوزائیدہ بچوں کی ایک بڑی تعداد طبی سہولیات تک رسائی نہ ہونے کے باعث موت کا شکار ہو جاتی ہیں اور جہاں صوبے کے دور دراز علاقوں میں عام ایمبولنس تک دستیاب نہیں وہاں فضائی ایمبولنس جیسی لگژری پر اربوں روپے خرچ کرنے کا فیصلہ دانشمندانہ نہیں ہو سکتا۔ 
تنقید کے بعد وزیراعلیٰ جام کمال کو صوبائی اسمبلی کے اجلاس میں اور اپنے ٹویٹر اکاﺅنٹ پر تین مرتبہ وضاحت دینا پڑی۔
ان کا کہنا ہے کہ صوبے میں ایئر ایمبولنس کو استعمال میں لانے کے لیے مطلوب عملہ، لائسنس، ہینگر اور دیگر سہولیات پہلے سے موجود ہیں، ایئر ایمبولنس کے اخراجات برداشت نہ کر سکنے والوں کو رعایت دی جائے گی اور جو کر سکتے ہیں ان سے مارکیٹ ویلیو کے مطابق فیس لی جائے گی۔
ان کے بقول یہ ایسا پراجیکٹ ہے جس سے آمدن ہو سکتی ہے اور یہ عوام کو فائدہ بھی دے سکتا ہے۔ تاہم ان کے بقول ایئرایمبولنس کی خریدار ی کی ابھی صرف تجویز دی گئی ہے اس پر کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا۔ 
محکمہ صحت بلوچستان کے پچھلے سال کے اعداد و شمار کے مطابق بلوچستان کے 30 اضلاع میں مجموعی طور پر 339 سرکاری ایمبولنسز موجود ہیں جن میں سے 240 فعال اور باقی 99 ایمبولنسز خراب ہیں۔ جبکہ 146 مزید ایمبولنسز کی ضرورت ہیں۔
پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کوئٹہ کے جنرل سیکرٹری ڈاکٹر مشتاق بھنگر کا کہنا تھا کہ 'بلوچستان میں حکومت صحت کے شعبے کی ضروریات ہی پوری نہیں کر پا رہی، اڑھائی ارب روپے کی خطیر رقم سے ایئر ایمبولنس کی خریداری کا فیصلہ صرف اشرافیہ کی سہولت کے لیے ہو سکتا ہے۔ اس سے ایک کروڑ 20 لاکھ کی آبادی میں کتنے لوگ فائدہ اٹھا سکیں گے؟' 
انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں صحت کا کل بجٹ 38 ارب روپے ہے جس میں ترقیاتی بجٹ صرف سات ارب روپے ہیں۔ باقی سارا بجٹ تنخواہوں اور غیر ترقیاتی اخراجات کی مد میں خرچ ہوتا ہے۔
ان کے بقول صوبے میں صحت کی بنیادی سہولیات کا فقدان ہے، صوبائی دار الحکومت کوئٹہ کے بڑے ہسپتالوں میں بھی بنیادی سہولیات کی کمی ہے، دور دراز کے اضلاع کے ہسپتالوں میں تو سرنج تک نہیں ملتی۔ وہاں کے لوگوں کو علاج کے لیے سینکڑوں کلومیٹر طویل سفر کر کے کوئٹہ یا ملک کے باقی صوبوں تک جانا پڑتا ہے۔ 
ڈاکٹر مشتاق بھنگر نے مزید کہا کہ بلوچستان میں زچہ بچہ کی اموات کی شرح دنیا کے بیشتر ممالک سے زیادہ ہے۔ صوبے میں ہر ایک لاکھ حاملہ خواتین میں سے 785 دوران زچگی موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں۔ اسی طرح صوبے میں ہر ایک ہزار بچوں میں سے 111 بچے پانچ سال کی عمر سے پہلے مختلف بیماریوں کا شکار ہو کر مرتے ہیں۔ 
ان کے مطابق یہاں ہر سال ٹائیفائیڈ، ملیریا، ہیباٹائٹس جیسی بیماریوں سے کورونا کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ اموات ہوتی ہیں۔ نئے بجٹ میں ان بیماریوں کے لیے بہت قلیل رقم رکھی گئی ہے۔

'دور دراز کے اضلاع کے ہسپتالوں میں تو سرنج تک نہیں ملتی' (فوٹو: اے ایف پی)

ان کے مطابق 'کینسر سے ہر سال ہزاروں افراد مرتے ہیں مگر پورے بلوچستان میں کوئی کینسر ہسپتال ہی نہیں۔ شیخ زاید ہسپتال کوئٹہ میں کینسر بلاک کا سنگ بنیاد تو رکھ دیا گیا مگر اب تک کام شروع ہی نہیں کیا گیا۔ ڈھائی ارب روپے سے ایئر ایمبولنس کی خریداری کے بجائے دور دراز علاقوں میں صحت کی سہولیات کی بہتری پر خرچ کرنے چاہیے۔' 
ٹویٹر پر بھی بیشتر صارفین نے وزیراعلیٰ بلوچستان کے وضاحتی پیغام کے جواب میں تنقید کے نشتر برسائے۔
ماہرہ علی نے کہا کہ 'کیا بلوچستان اس لگژری کا متحمل ہوسکتا ہے۔ کیا ہم اپنے بچوں پر خرچ کر سکتے ہیں؟ ہر سال دو لاکھ نوزائیدادہ بچے غذائیت کی کمی کا شکار ہوکر مرتے ہیں۔ اتنی عدم مساوات کے ساتھ ہم کیسے ایک قوم کی حیثیت سے ترقی کرسکتے ہیں؟'
فرحان دہوار نامی صارف نے لکھا کہ 'ہماری ایمبولینسز گھر سے ہسپتال تک پہنچنے کے لیے آلات سے لیس نہیں اور اگر آلات سے لیس ہیں تو انہیں ایلیٹ استعمال کرتی ہے۔ 
صارفین نے اس بات پر بھی سوال اٹھائے کہ جب صوبے کے بیشتر اضلاع میں ایئر پورٹ ہی نہیں تو ایئر ایمبولنس وہاں کیسے جائے گی۔
گل میروانی نے لکھا کہ 'ضلعی ہیڈکواٹر ہسپتال میں ملیریا کے ٹیسٹ کے لیے لیبارٹری موجود نہیں۔ ڈیلیوری کیس کے لیے ڈاکٹر نہیں، آپ مریضوں کو فضائی سفر کے خواب دکھا رہے ہو۔'
نظام بلوچ نے لکھا کہ 'وزیراعلیٰ صاحب آپ کی ایئر ایمبولنس صرف وزراء کے استعمال کے لیے ہوگی۔ کتنی ایمبولنسز ہسپتالوں کو دی گئی ہیں۔ لوگوں کے پاس دوائی نہیں اور آپ ایئر ایمبولنس کی بات کر رہے ہیں۔' 
کچھ صارفین نے حکومتی فیصلے کی حمایت بھی کی اور کہا کہ ایئر ایمبولنسز بلوچستان جیسے بڑے اور متنشر آبادی والے صوبے کی ضرورت ہے۔

شیئر: