Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آیا صوفیہ پر یونان کے ردعمل کی مذمت

یونان کا اعتراض ترکی اور اسلام کے ساتھ دشمنی کا اظہار ہے۔ (فوٹو احوال نیوز)
ترکی کی وزارت خارجہ نے استنبول کے تاریخی ورثے آیا صوفیہ میں 86 سال بعد نماز جمعہ کی ادائیگی پر یونان کے اعتراض اور یونانی پرچم برداروں کے مظاہروں کی مذمت کی ہے۔
عرب نیوز کے مطابق ترکی کی وزارت خارجہ کے ترجمان ہامی اکسوئی نے ایک تحریری بیان میں کہا ہے کہ 'یونان نے ایک مرتبہ پھر اسلام اور ترکی کے ساتھ اپنی دشمنی کا اظہار کیا ہے جس کا واضح ثبوت آیا صوفیہ مسجد میں عرصہ بعد  نماز کی ادائیگی پر یونان کے ردعمل کا اظہار ہے۔'

ترکی کے دیگرثقافتی اثاثوں کی طرح اس تاریخی اثاثے کی بھی اہمیت بحال ہے۔ (فوٹو: عرب نیوز)

واضح رہے کہ کئی دہائیوں بعد آیا صوفیہ کے تاریخی ورثے کو میوزیم سے مسجد کے طور پر استعمال کےعدالتی فیصلے پر یونان کی تنقید سے ترکی اور یونان کے مابین کشیدہ تعلقات کا اظہار ہوا ہے۔
ترکی کے صدر رجب طیب اردگان کی آیا صوفیہ کی عمارت میں نماز جمعہ میں شمولیت پر پورے یونان کے گرجا گھروں میں سوگ کی گھنٹیاں بجائی گئیں۔

بیشتر یونانی عیسائی اسے اپنے مذہب کا مرکزی مقام تصور کرتے ہیں۔(فوٹو عرب نیوز)

یونان کی بحالی جمہوریت کی 46 ویں سالگرہ کے موقع پر اپنے پیغام میں یونان کے وزیراعظم کریاکوس میٹسوٹاکس نے ترکی کو 'پریشانی پیدا کرنے والا' اور اس  تبدیلی کو 'اکیسویں صدی کی تہذیب کا مقابلہ' قرار دیا ہے۔
رجب طیب اردگان کی جانب سے تاریخی مقام آیا صوفیہ پر نماز جمعہ کی ادائیگی نے وہاں مسلمانوں کی عبادت کی بحالی کے عزائم پر مہر ثبت کردی ہے جسے بیشتر یونانی اپنے آرتھوڈوکس عیسائی مذہب کا مرکزی مقام تصور کرتے ہیں۔

کئی دہائیوں بعد تاریخی ورثے کو میوزیم سے مسجد کے طور پر استعمال کیا گیا۔ (فوٹو: عرب نیوز)

ترک وزارت خارجہ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ یونان کے ساحلی شہر تھسیالونکی میں حکومت اور پارلیمنٹ کے اراکین کی جانب سے عوام کو مشتعل کرنے، ترکی مخالف بیانات اور ترکی کے قومی پرچم کو نذر آتش کرنے پر شدید مذمت کی جاتی ہے۔
مذمتی بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ آیا صوفیہ کے تاریخی ورثے کو ترک عوام کی مرضی کے مطابق مسجد کے طور پر نماز کے لیے کھولا گیا اور ترکی کے دیگر ثقافتی اثاثوں کی طرح اس تاریخی اثاثے کی بھی اہمیت بحال ہے۔
واضح رہے کہ ترکی اور یونان  فضائی حدود  کے مسئلے پر بھی آمنے سامنے ہیں۔ اسی طرح نسلی اعتبار سےتقسیم شدہ قبرص کا بھی تنازع ہے۔
رواں ہفتے دونوں ملکوں نے بحیرہ روم میں اپنے علاقے کی حد بندی پر بھی سخت موقف کا اظہار کیا ہے۔ یہ ایسا علاقہ ہے جو قدرتی وسائل سے مالا مال ہے۔

شیئر: