Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’حسمی‘ پہاڑوں پر قدیم اسلامی تحریریں اور تاریخی نقوش

نیوم پروجیکٹ کے دائرے میں آنے والے بلند و بالا پہاڑوں کے تاریخی نقوش سیاحوں، ماہرین آثار قدیمہ اور مختلف قسم کےعربی رسم الخط کے شائقین کے حلقوں میں گفتگو کا موضوع بننے لگے ہیں۔
نیوم سعودی عرب کے شمال میں واقع ہے۔ یہاں تاریخی نقوش سے آراستہ پہاڑ کھلے عجائب گھر کا درجہ رکھتے ہیں۔ چٹانوں پر اسلام کی آمد سے پہلے کے بھی نقوش ہیں اور بعد کے ادوار کے بھی۔ 
العربیہ نیٹ کے مطابق مغربی تبوک کے ’بجدہ‘ کوہستانی علاقے میں ’حسمی‘ پہاڑیاں قدیم اسلامی تحریروں اور تاریخی نقوش سے مالا مال ہیں۔  

حسمی پہاڑوں کے نقوش یہاں جنم لینے والے تمدن اور تاریخ کا پتہ دے رہے ہیں۔ فوٹو گرافر عبدالالہ الفارس نے اس حوالے سے بتایا کہ ماہرین آثار قدیمہ، مورخین اور عربی زبان کے ارتقا کا مطالعہ کرنے والے حسمی پہاڑی علاقے کو عربی تحریروں اور نقوش کا پہلا مرکز سمجھتے ہیں۔
’سب سے پہلے یہ نقوش اسی علاقے میں دریافت ہوئے۔ یہ نقوش پہاڑوں کے سامنے والے حصوں پر بنے ہوئے ہیں۔ علاوہ ازیں کوہستانی دروں اور پہاڑوں کے غار نما مقامات پر بھی یہ نقوش نظر آتے ہیں۔ ‘
الفارس نے بتایا کہ تاریخ نویسوں نے اسے ’لھجۃ حسمائیۃ‘ (حسمائی بولی) کا نام دیا ہے۔ یہ نبطی بولی سے ملتی جلتی عربی بولی ہے۔

اس کی انفرادیت یہ ہے کہ سب سے پہلے عربی رسم الخط کی شروعات اسی سے ہوئی۔ اس میں حروف کوفی رسم الخط کی طرح ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ 
 ’حسمی‘ تبوک کے جنوب مغرب میں واقع ہے۔ یہ مشہور علاقے بجدہ میں پڑتا ہے۔  یہاں چٹانوں پر موجود نقوش اور اسلامی تاریخی تحریریں وطن عزیز سعودی عرب کی تاریخ کا اہم اضافہ ہیں۔  

الفارس کے مطابق حسمی تبوک سے تقریبا سو کلو میٹر دور بجدہ واقع ہے اور اس کا محل وقوع منفرد ہے۔ یہ فطری شکل میں قوس نما پہاڑی چٹان ہے۔ یہاں ریت کے رنگین تودے ہیں۔ بجدۃ کے ٹیلے اپنے حسن اور رنگین ریت کے تناظر میں اپنی ایک پہچان رکھتے ہیں۔

ان کے  اطراف سیکڑوں کلو میٹر کے دائرے میں ہزاروں چٹانیں پھیلی ہوئی ہیں۔ ہر چٹان اپنے سائز اور منفرد شکل کے حوالے سے اپنی ایک پہچان رکھتی ہے۔

یہاں گاڑی سے سفر کیا جاسکتا ہے۔ بجدہ جنوبی اردن کی وادی رم کا توسیعی حصہ ہے۔ یہ کوہ پیمائی کے لیے بہترین جگہ ہے۔ 

شیئر: