Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

'آئین کے تحت سینیٹ الیکشنز سے خواتین کی مخصوص نشستیں ختم ہو جائیں گی'

سینیٹر رضا ربانی نے بھی ریفرنس میں فریق بننے کی درخواست دے دی (فوٹو: سینیٹ)
سپریم کورٹ میں سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے کروانے کے حوالے سے صدارتی ریفرنس کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے کہا کہ 'اگر سینیٹ انتخابات آئین کے تحت کرائے جائیں تو خواتین کی مخصوص نشستیں ختم ہو جائیں گی۔ آئین سینیٹ الیکشنز کی بات تو کرتا ہے لیکن اس کا کوئی طریقہ کار وضع نہیں کیا گیا۔'
انھوں نے مزید کہا کہ 'سپریم کورٹ صدارتی ریفرنس پر فیصلہ کرنے کی پابند ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی سزا کے حوالے سے دائر ریفرنس کے علاوہ اب تک دائر ہونے والے ریفرنسز پر فیصلے دیے گئے ہیں۔'چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے صدر ڈاکٹر عارف علوی کی جانب سے بھیجے گئے ریفرنس کی سماعت کی۔

 

دوسری جمعیت علمائے اسلام ف نے سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے کرانے کی مخالفت کی گئی ہے۔
پیر کو سماعت کے آغاز پر سینیٹر کامران مرتضیٰ نے عدالت کو بتایا کہ 'جمعیت علمائے اسلام پاکستان کا جواب رجسٹرار آفس قبول نہیں کر رہا۔ عدالت نے دو ہفتے کا وقت دیا تھا مگر ہمارا جواب جمع نہیں کر رہے۔'
اس پر چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ 'آپ جواب جمع کرائیں وصول کر لیں گے۔'
سینیٹر کامران مرتضیٰ نے بتایا کہ 'ان کی جماعت اوپن بیلٹ کے بجائے آئین کے تحت سینیٹ انتخابات کرانے کی حامی ہے۔' اس دوران سینیٹر رضا ربانی اور دو اور وکلا نے کیس میں فریق بننے کی استدعا  کی جو منظور کر لی گئی۔
ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے جواب جمع کرانے کے لیے سپریم کورٹ سے مہلت مانگ لی۔ عدالت نے استدعا منظور کرتے ہوئے سندھ حکومت کو ایک ہفتے کا وقت دے دیا۔
اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے تحریری معروضات جمع کرائیں تو چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ 'تمام فریقین کے جوابات آنے کے بعد سب کو دیکھیں گے۔'

جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ 'کیا کوئی آزاد حیثیت میں سینیٹ الیکشن لڑ سکتا ہے؟' (فوٹو: سینیٹ)

اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل میں کہا کہ 'صدارتی ریفرنس آرٹیکل 226 کے سکوپ سے متعلق ہے۔ سپریم کورٹ، صدر کی جانب سے بھیجے گئے ریفرنس پر رائے دینے کی پابند ہے۔ سپریم کورٹ مستقبل کی قانون سازی سے متعلق بھی رائے دے سکتی ہے۔ صدارتی ریفرنس آرٹیکل 186 کے تحت قابل سماعت ہے۔'
جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ 'کیا کوئی آزاد حیثیت میں سینیٹ الیکشن لڑ سکتا ہے؟ 'اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ آزاد حیثیت میں امیدواروں کے سینیٹ الیکشن لڑنے پر پابندی نہیں۔'
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ 'عدالت نے فیصلہ کرنا ہے کہ یہ سوال قانونی یا عوامی مفاد کا ہے یا نہیں۔'
اٹارنی جنرل نے کہا کہ 'ماضی میں بھی قوانین پر سپریم کورٹ سے رائے لی گئی۔ کئی بار قانون سازی سے قبل صدر نے عدالتوں سے رائے مانگی۔ عدالت ماضی میں بھی صدارتی ریفرنسز قابل سماعت قرار دے چکی ہے۔'

جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ 'کیا کوئی آزاد حیثیت میں سینیٹ الیکشن لڑ سکتا ہے؟ (فوٹو: سینیٹ)

'بنگلہ دیش کو تسلیم کرنے کے معاملے پر بھی صدارتی ریفرنس آیا تھا۔ عدالت نے کہا تھا کہ پارلیمنٹ بنگلہ دیش کو تسلیم کرنے یا مسترد کرنے کی قرارداد منظور کر سکتی ہے۔ عدالت عظمیٰ ذوالفقار علی بھٹو ریفرنس کی سزا  کے علاوہ عدالت تمام ریفرنسز پر فیصلہ دے چکی ہے۔'
اٹارنی جنرل نے کہا کہ 'جہاں جہاں آئین کے مطابق انتخابات کروانے کا کہا گیا وہاں آئین نے اس کا طریقہ کار بھی وضع کیا ہے۔ آئین سینیٹ انتخابات کی بات تو کرتا ہے لیکن اس کا کوئی طریقہ کار وضع نہیں کیا گیا۔ آرٹیکل 226 میں انتخابات آئین کے تحت کروانے کا کہا گیا ہے۔'
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ 'آئین میں انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے کسی جگہ آئین کی روح سے کروانے یا آئین کے تحت کروانے کا کہا گیا۔'
'اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ 'اگر مان لیا جائے کہ سینیٹ انتخابات آئین کے تحت ہوتے ہیں تو خواتین کی مخصوص نشستیں ختم ہو جائیں گی۔'
چیف جسٹس نے پوچھا کہ 'آئین کے تحت کون سے انتحابات ہوتے ہیں؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ 'جن انتخابات کا طریقہ کار آئین میں نہیں وہ قانون کے تحت ہوں گے۔'

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ 'عدالت ریفرنس کا مجموعی طور پر جائزہ لے کر ہی فیصلہ کرے گی' (فوٹو: اے ایف پی)

جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ 'کیا الیکشن ایکٹ 2017 متفقہ طور پر منظور ہوا تھا؟ الیکشن ایکٹ میں لکھا ہے کہ سینیٹ الیکشن خفیہ ووٹنگ سے ہو گا۔'
اٹارنی جنرل نے کہا کہ 'انڈیا میں بھی سینیٹ انتحابات اوپن بیلٹ سے ہوتے ہیں۔ صدارتی انتحابات کا مکمل طریقہ آئین میں درج ہے۔ صدارتی انتحابات آئین کے تحت خفیہ رائے شماری سے ہوتے ہیں۔'
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ 'سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے انتخاب کا طریقہ کار آئین میں نہیں۔ کیا سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کا الیکشن آئین کے تحت ہوتا ہے۔
'آئین کے تحت الیکشن کی جو تشریح آپ نے کی اس کے مطابق سپیکر کا انتخاب قانون کے تحت بنتا ہے۔ جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ ' اٹارنی جنرل صاحب آپ کو اس نکتے کی مزید وضاحت کرنا ہوگی۔'
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ 'سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے انتخاب کا طریقہ کار اسمبلی رولز میں ہے۔ آئین اسمبلی کو رولز بنانے کا اختیار دیتا ہے۔ سپریم کورٹ کے رولز بھی آئین کے تحت ہی بنائے گئے۔ رولز آئین کے تحت بنے اس لیے الیکشن بھی آئین کے تحت ہی ہوگا۔'
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ 'عدالت مجموعی طور پر جائزہ لے کر ہی فیصلہ کرے گی۔' عدالت نے صدارتی ریفرنس پر سماعت بدھ تک ملتوی کر دی۔

شیئر: