خفیہ معلومات کی تشہیر، ’آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت مقدمات درج ہوں گے‘
خواجہ آصف نے بتایا کہ ’جرم کی سزا دو سال قید اور جرمانے کی صورت میں بھگتنا ہو گی‘ (فوٹو: پکسابے)
وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ ’وفاقی حکومت نے حساس اور خفیہ معلومات کی غیر مجاز تشہیر خاص طور پر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر خفیہ دستاویزات کی کھلے عام نمائش کا سخت نوٹس لیا ہے۔‘
پیر کو سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر اپنے ایک بیان میں وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ ’اس طرح کی معلومات کا پھیلاؤ پاکستان کے سٹریٹیجک اور اقتصادی مفادات کو زک پہنچانے کے علاوہ اس کے دوست اور برادر ممالک کے ساتھ تعلقات کو بھی شدید نقصان پہنچا سکتا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ حکومت نے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر خفیہ دستاویزات (خصوصاً جن دستاویزات پر سیکرٹ بھی لکھا ہو) کی کھلے عام نمائش کا سخت نوٹس لیا ہے۔
وزیر دفاع نے بتایا کہ ’اس تناظر میں وفاقی حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ ان تمام افراد کے خلاف آفیشل سیکرٹ ایکٹ 2023 کے تحت مقدمات درج کیے جائیں گے جو خفیہ معلومات یا دستاویزات کے افشاء کرنے یا پھیلانے میں بالواسطہ یا بلاواسطہ ملوث پائے جائیں گے۔ اس جرم کی سزا دو سال قید اور جرمانے کی صورت میں بھگتنا ہو گی۔‘
اس سے قبل وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) سے سائبر کرائم کی تحقیقات کا اختیار واپس لے کر نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی کے نام سے ایک الگ ادارے کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔
یہ ایجنسی سائبر کرائم سے متعلق مقدمات کی تحقیقات کرے گی۔
وفاقی حکومت نے فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے سائبر کرائم ونگ کے اختیارات ختم کر دیے تھے۔
حکومت نے نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی کے قیام سے متعلق نوٹیفکیشن گزٹ آف پاکستان میں شائع کیا۔
24 اپریل کو جاری کردہ نوٹیفیکشن کے مطابق نیشنل سائبر کرائمز انویسٹی گیشن ایجنسی ایک الگ اتھارٹی کے طور پر وزارت داخلہ کے ماتحت کام کرے گی۔
نوٹیفکیشن میں بیان کی گئی تفصیل کے مطابق ڈائریکٹر جنرل کو دو برس کے دورانیے کے لیے وفاقی حکومت تعینات کرے گی۔
’ایف آئی اے سائبر کرائمز کی تمام انکوائریاں، تحقیقات اور اثاثے ایجنسی کے سپرد کر دیے گئے ہیں۔‘