Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سینیٹ انتخابات: حکومت کیا چاہتی ہے اور اپوزیشن کی مخالفت کیوں؟

موجودہ سینیٹ کے آدھے ارکان اگلے سال گیارہ مارچ کو اپنی چھ سالہ مدت پوری کر لیں گے (فوٹو: ٹوئٹر)
وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ حکومت سینیٹ الیکشن وقت سے قبل کروائے گی اور یہ شو آف ہینڈز کے ذریعے ہوگا جب کہ اپوزیشن رہنماؤں نے قبل ازوقت انتخابات اور شو آف ہینڈز کے طریقہ کار کی مخالفت کی ہے۔
اس سلسلے میں اردو نیوز نے جاننے کی کوشش کی ہے کہ آئین اور قانون میں سینیٹ انتخابات کے حوالے سے کون سی شقیں لاگو ہوتی ہیں اور الیکشن کمیشن کی کیا حکمت عملی ہے؟
موجودہ سینیٹ کے آدھے ارکان اگلے سال گیارہ مارچ کو اپنی چھ سالہ مدت پوری کر لیں گے اور اس سے قبل ان کی نشستوں پر نئے انتخابات ہوں گے۔
یاد رہے کہ سینیٹ کے 104 ممبران ہیں ان میں آدھے ہر تین سال بعد ریٹائر ہو جاتے ہیں اور ان کی نشستوں پر انتخابات منعقد کیے جاتے ہیں۔
سینیٹ الیکشن حکومت و اپوزیشن کے لیے اہم کیوں؟
اس وقت سینیٹ میں جس کو پارلیمنٹ کا ایوان بالا بھی کہا جاتا ہے اپوزیشن کو حکومت پر واضح عددی اکثریت حاصل ہے جس کی وجہ سے حکومت کو کسی بھی قانون کی ایوان بالا سے منظوری کے لیے اپوزیشن کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔
چونکہ سینیٹ کے انتخابات کا الیکٹورل کالج قومی اور صوبائی اسمبلیاں ہوتی ہیں جہاں 2018 کے انتخابات میں کامیابی کے بعد پی ٹی آئی کی اکثریت ہے اس لیے حکومت بے تابی سے سینٹ انتخابات کا انعقاد چاہتی ہے اور وزیراعظم نے انتخابات کو وقت سے قبل کروانے کا عندیہ دیا ہے۔
دوسری طرف اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کا کہنا ہے کہ 2018 کے انتخابات شفاف نہیں تھے اس لیے ان کی بنیاد پر سینیٹ میں پی ٹی آئی کو اکثریت حاصل کرنے کا حق حاصل نہیں۔ اسی وجہ سے اپوزیشن نے سینیٹ انتخابات سے قبل اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کا اعلان کر رکھا ہے تاکہ انتخابات کے انعقاد سے پہلے حکومت کا حاتمہ ہو سکے۔
سینیٹ انتخابات میں حکومت کیا چاہتی ہے؟
وزیراعظم عمران خان نے چند دن قبل پشاور میں میڈیا سے گفتگو میں یہ تسلیم کیا کہ حکومت سینیٹ الیکشن قبل ازوقت کروانا چاہتی ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہارس ٹریڈنگ کے خاتمے کے لیے شو آف ہینڈز کے ذریعے سینیٹ الیکشن کروانے کا فیصلہ کیا ہے۔

رضا ربانی کا کہنا ہے کہ آئین میں خفیہ رائے شماری کا مقصد ایوان بالا میں  ہر صوبائی نکتہ نظر کو جگہ دینا تھا (فوٹو:سینیٹ)

وزیراعظم نے اپوزیشن جماعتوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ’یہ سارا ڈرامہ ہو رہا ہے، ان کا خیال ہے کہ سینیٹ کا الیکشن نہ ہو، وہ تو فیل ہونا ہے کیونکہ ہم الیکشن پہلے کرائیں گے۔‘
وزیراعظم نے کہا کہ ’ہمیں اٹارنی جنرل نے بتایا کہ آئین میں ترمیم کے بغیر بھی ہو سکتا ہے اس لیے ہم اس بات کو سپریم کورٹ کے سامنے رکھ رہے ہیں۔
اردو نیوز کے پاس دستیاب اٹارنی جنرل خالد جاوید کے وزیراعظم کو لکھے گئے خط کے مطابق گو کہ آئین کا آرٹیکل 226 یہ لازم کرتا ہے کہ وزیراعظم اور وزیر اعلی کے سوا آئین کے تحت ہونے والے تمام انتخابات خفیہ رائے شماری کے ذریعے ہوں گے۔ سینیٹ انتخابات کو اوپن بیلیٹ کے ذریعے کرانے کے لیے آئینی ترمیم کی ضرورت نہیں بلکہ اگر الیکشن ایکٹ 2017 میں صدارتی آرڈیننس کے ذریعے ترمیم کر دی جائے تو انتخاب کا طریق کار تبدیل ہو سکتا ہے اور اسے خٖفیہ رائے شماری سے کھلی رائے شماری میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔
تاہم اٹارنی جنرل نے تجویز دی ہے کہ چونکہ یہ معاملہ حساس ہے اس لیے حکومت کو چاہیے کہ اس پر سپریم کورٹ سے رائے لے۔
تاہم جمعرات کو مقامی میڈیا سے بات کرتے ہوئے اٹارنی جنرل الد جاوید خان نے واضح کیا کہ سینیٹ الیکشن شو آف ہینڈ نہیں بلکہ اوپن بیلٹ کے ذریعے ہوں گے۔

اٹارنی جنرل نے تجویز دی ہے کہ چونکہ یہ معاملہ حساس ہے اس لیے حکومت کو چاہیے کہ اس پر سپریم کورٹ سے رائے لے۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

انہوں نے وضاحت کی کہ شو آف ہینڈ کے ذریعے سینیٹ الیکشن ممکن نہیں کیونکہ سینیٹ انتخابات میں ووٹر ایک سے زائد نشستوں کے لیے ووٹ استعمال کرتا ہے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ ہر ووٹ پر ووٹر کا نام درج ہو گا اس لیے یہ شو آف ہینڈز کی طرح ہی کھلے رائے شماری سمجھی جائے گی۔
ماہرین کے مطابق حکومت کھلی رائے شماری اس لیے چاہتی ہے کہ خفیہ رائے شماری میں خدشہ ہے کہ گزشتہ انتخابات کی طرح اس بار بھی پی ٹی آئی کے ارکان کہیں اپوزیشن کے سینیٹ امیدواروں کو ووٹ نہ دے دیں۔

اپوزیشن کیوں حکومتی تجویز کی مخالف ہے؟

اپوزیشن رہنماؤں نے حکومت کی طرف سے قبل ازوقت انتخابات یا شو آف ہینڈز یا کھلی رائے شماری کی تجویز کو مسترد کر دیا ہے اور اس حوالے سے قانونی لڑائی لڑنے کا بھی اعلان کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ آئین کی تشریخ کر سکتی ہے نیا قانون نہیں بنا سکتی۔
جمعرات کو ایک پریس کانفرنس کے دوران مسلم لیگ نواز کی نائب صدر مریم نواز کا کہنا تھا کہ وہ شو آف ہینڈز کے خلاف نہیں مگر اس وقت اس کے پیچھے شفافیت نہیں ہے۔

وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ حکومت سینٹ الیکشن وقت سے قبل کروائے گی اور یہ شو آف ہینڈز کے ذریعے ہوگا۔(فوٹو: ٹوئٹر)

انہوں نے چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس وقت حکومت کو شو آف ہینڈ کیوں یاد نہیں آیا؟
’اس وقت اپوزیشن ارکان کو توڑنے کے لیے ریاستی طاقت کا استعمال کیا گیا اور اب خود کمزور ہوئے تو شو آف ہینڈ یاد آ گیا۔
اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے پی ڈی ایم میں شامل جمعیت علمائے پاکستان کے رہنما اویس نورانی نے کہا کہ شو آف ہینڈز اچھی چیز ہے اور ان کی جماعت اصولی طور پر اس کی مخالف نہیں ہے۔
پیپلز پارٹی کے رہنما رضا ربانی کا کہنا ہے کہ آئین میں خفیہ رائے شماری کا مقصد ایوان بالا میں  ہر صوبائی نکتہ نظر کو جگہ دینا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ شو آف ہینڈز کے ذریعے قوم پرست اور مذہبی جماعتیں حصہ نہیں لے سکیں گی۔

آئین اور قانون کیا کہتا ہے۔

آئین کا آرٹیکل 59 سینیٹ کی سیٹوں کی تقسیم اور اراکین کی مدت اور الیکشن کے حوالے سے وضاحت کرتا ہے۔ جبکہ آئین کےآرٹیکل 224 کے تحت یہ لازم ہے کہ سینیٹ کے انتخابات ارکان کی مدت ختم ہونے سے صرف ایک ماہ قبل ہی منعقد ہو سکتے ہیں۔
گویا اگر معیاد گیارہ مارچ 2021 کو ختم ہو رہی ہے تو الیکشن 11 فروری 2021 کے بعد ہی ہو سکتے ہیں اس سے قبل نہیں ہو سکتے۔

کنور دلشاد کے مطابق وزیراعظم کو قبل ازوقت انتخاب کا بیان نہیں دینا چاہیے تھا (فوٹو: ٹوئٹر)

اسی طرح آئین کے آرٹیکل 226 کے تحت ماسوائے وزیراعظم اور وزیراعلی تمام انتخابات جو آئین کے تحت ہوں وہ خفیہ رائے شماری سے ہی ہو سکتے ہیں۔اسی طرح ملک میں الیکشن کروانے کے لیے جو قانون اس وقت رائج ہے اس کو الیکشن ایکٹ 2017 کہتے ہیں۔
اس قانون کی شق 122 کے تحت سینیٹ کے انتخابات خفیہ رائے شماری سے ہی ہو سکتے ہیں۔ یہی وہ قانون ہے جس کے بارے میں اٹارنی جنرل نے وزیراعظم کو لکھا ہے کہ اسے ایک صدارتی آرڈیننس کے تحت حکومت سینیٹ الیکشن سے قبل تبدیل کر سکتی ہے اور خفیہ رائے شماری اور کھلی رائے شماری میں بدل سکتی ہے۔

ماہرین کیا کہتے ہیں؟

اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد نے وزیراعظم عمران خان کے قبل ازوقت سینٹ انتخاب اور اٹارنی جنرل کے خط میں اٹھائے گئے نکتے سے اختلاف کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اٹارنی جنرل نے اپنے خط کے ذریعے پارلیمنٹ کے ایوان بالا کی حثییت ایک یونین کونسل کے برابر کر دی کیونکہ یونین کونسل میں انتخاب شو آف ہینڈز کے ذریعے ہو سکتا ہے سینٹ میں اس حوالے سے آئین واضح ہے کہ سیکرٹ بیلٹ ہو گا۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کو قبل ازوقت انتخاب کا بیان نہیں دینا چاہیے تھا کیونکہ ایسا کرکے انہوں نے الیکشن کمیشن کے کام میں مداخلت کی۔
کنور دلشاد کے مطابق آئین کے آرٹیکل 59, 213  اور 224 میں سینیٹ انتخابات کے حوالے سے تمام اختیارات الیکشن کمیشن کو دیے گئے ہیں اور وزیراعظم کے بیان سے اس حوالے سے ابہام پیدا ہوا۔

سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن کے مطابق اٹارنی جنرل نےوزیراعظم کو خط لکھ کر الیکشن کمیشن کو مکمل نظر انداز کیا۔(فوٹو: ٹوئٹر)

ان کا کہنا تھا کہ تین سال قبل جب انتخابات ہوئے تھے تو الیکشن کمیشن نے دو فروری کو شیڈول جاری کیا تھا.
اسی طرح سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن کے مطابق اٹارنی جنرل نےوزیراعظم کو خط لکھ کر الیکشن کمیشن کو مکمل نظر انداز کیا۔
’پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ہو رہا ہے کہ حکومت الیکشن کمیشن کو نظر انداز کر رہی ہے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ چیف الیکشن کمشنر کی حثیت سپریم کورٹ کے جج کے برابر ہوتی ہے ۔

الیکشن کمیشن انتخابات آئین کے آرٹیکل 224 کے تحت منعقد کروائے گا: ترجمان

اس تمام بحث پر اردو نیوز نے الیکشن کمیشن کے ترجمان ندیم قاسم کا موقف جاننے کے لیے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ کمیشن کی پوزیشن واضح ہے کہ سینیٹ انتخابات آئین کے تحت ہوتے ہیں اور آئین کے تحت انہیں ارکان کی مدت ختم ہونے سے ایک ماہ قبل کسی بھی وقت کروایا جا سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ چونکہ آدھے ارکان کی مدت گیارہ مارچ 2021 کو ختم ہو رہی ہے اس لیے الیکشن گیارہ فروری سے گیارہ مارچ تک کسی بھی وقت منعقد کیے جا سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ الیکشن آئین کے آرٹیکل 59 اور 224 کے تحت منعقد ہوں گے لہذا قبل از وقت انتخابات نہیں ہوں گے۔

شیئر: