Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان میں شارکس کی تعداد میں 85 فیصد کمی

پاکستان میں شارک کا گوشت مقامی طور پر استعمال کیا جاتا ہے. (فوٹو: سی این این)
ورلڈ وائلڈ فنڈ فار نیچر (ڈبلیو ڈبلیو ایف) کا کہنا ہے کہ گزشتہ 50 سالوں کے دوران پاکستان میں شارکس کی تعداد میں 85 فیصد سے زائد کمی ہو چکی ہے۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کی جانب سے سنیچر کو جاری پریس ریلیز کے مطابق 1970 کے بعد دنیا بھر میں شارکس اور ریز کی آبادی میں 71 فیصد تک کمی آئی ہے۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق پاکستان میں پچھلے 50 سالوں میں شارکس کی آماجگاہوں میں 85 فیصد تک کمی واقع ہوئی ہے، جو اوسط عالمی کمی سے کہیں زیادہ ہے۔ جبکہ ریز کی آماجگاہوں میں 75 فیصد کمی آئی ہے۔

 

پاکستان میں شارکس کو ساحلی علاقوں اور سمندر میں سے مختلف قسم کے جالوں کی مدد سے پکڑا جاتا ہے۔
اس کا گوشت مقامی طور پر استعمال کیا جاتا ہے جبکہ اس کے پنکھ ہانگ کانگ اور چین برآمد کیے جاتے ہیں۔  
پاکستان میں ایک زمانے میں بڑی تعداد میں شارکس پکڑی جاتی تھیں۔ کہا جاتا ہے کہ شارک کی پیداوار میں 1990 کی دہائی کے دوران کافی اضافہ ہوا، جب شکار کے لیے مخصوص فشریز قائم کی گئی اور خاص جال متعارف کروائے گئے۔
اورماڑا اور جیوانی شارک پکڑنے کے بنیادی مرکز تھے، جہاں شارک فشریز کو 2004 میں بند کر دیا گیا۔
شارکس کی آبادی میں کمی کے حوالے سے ڈبلیو ڈبلیو ایف کے عالمی شارک رہنما اینڈی کارنیش کا کہنا ہے کہ ’بحر ہند میں ماہی گیری کے بنیادی انتظامات کی کمی کی وجہ سے شارکس کی بہت سی اقسام خطرے کا شکار ہیں۔‘
جب کہ ورلڈ وائلڈ فنڈ فار نیچر پاکستان کے ٹیکنیکل ایڈوائزر محمد معظم خان نے شارک کے شکار پر قابو پانے پر زور دیا ہے تاکہ اس کے استحصال کو روکا جا سکے۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کے سنیئر ڈائریکٹر پروگرامز رب نواز نے صوبائی حکومتوں کو سراہا ہے جنہوں نے ان کی تنظیم کی تجاویز پر شارک کے شکار پر قابو پانے کے لیے قوانین پاس کیے ہیں، جو ان کے تحفظ کے لیے ایک بڑا قدم ہے۔

شیئر: