Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ڈسکہ انتخاب: الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کرنے کی استدعا مسترد

پاکستان کی سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کی جانب سے حلقہ این اے 75 ڈسکہ میں دوبارہ ضمنی انتخاب سے متعلق الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کرنے کی ابتدائی استدعا مسترد کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت 19 مارچ تک ملتوی کر دی۔
پانچ مارچ کو  تحریک انصاف کے امیدوار علی اسجد ملہی کی جانب سے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی گئی تھی جس میں الیکشن کمیشن کے این اے 75 سے متعلق فیصلے کو معطل کرنے کی استدعا کی گئی تھی۔
منگل کو سپریم کورٹ میں جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے درخواست کی سماعت کی۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کیس میں ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ’الیکشن کمیشن آئینی ادارہ ہے اور ہم کیس سنیں گے انتخاب دوبارہ تو ہر صورت ہوگا۔‘

 

انہوں نے کہا کہ ’سپریم کورٹ الیکشن کمیشن کا بے حد احترام کرتی ہے، فیصلہ یہ کرنا ہے کہ دوبارہ الیکشن پورے حلقے میں ہونا ہے یا صرف چند حلقوں میں کرایا جائے۔‘
جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ ’معاملے کا ہر پہلو سے جائزہ لیں گے، ہم چاہتے ہیں کہ امیدوار دوبارہ الیکشن کی بھرپور تیاری کریں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ میں کیس زیر التوا ہونے پر شاید انتخاب کی تاریخ تبدیل کی، اس پر وکیل تحریک انصاف نے بتایا کہ ’الیکشن کمیشن نے پنجاب حکومت کی درخواست پر دوبارہ انتخابات کی تاریخ بدلی ہے۔‘
سماعت کے دوران جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ’ان کی فیملی نے 2018 کے انتخابات میں ووٹ ڈالا اور واپس آکر پولنگ کے عمل کی تعریف کی۔‘
 ان کا کہنا تھا کہ 2018’ کے عام انتخابات پرامن تھے اور الیکشنز پرامن ہونے کی وجہ پاک فوج کی تعیناتی تھی۔‘
جسٹس عطا بندیال نے کہا کہ ’این اے 75 ڈسکہ کے ضمنی الیکشن میں فوج تعینات نہیں تھی۔ امن و امان برقرار رکھنے کے لیے فوج تعینات نہ کرنا الیکشن کمیشن کی غلطی تھی۔‘
انہوں نے کہا کہ ’الیکشن کمیشن نے امن و امان کے لیے پولیس پر بھروسہ کیا۔‘
الیکشن کمیشن کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ’امن وامان کے حوالے سے الیکشن کمیشن نے آئی جی پنجاب سے رپورٹ بھی طلب کی۔‘

جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ ’2018 کے انتخابات پرامن ہونے کی وجہ پاک فوج کی تعیناتی تھی‘ (فوٹو: اے ایف پی)

جسٹس عمر عطا بندیال  نے استفسار کیا کہ ’کیا آئی جی پنجاب نے الیکشن کمیشن کو رپورٹ دی؟‘
 اس پر وکیل الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ ’آئی جی پنجاب نے الیکشن کمیشن کو رپورٹ جمع نہیں کرائی۔‘
جسٹس عمر عطا بندیال نے پوچھا کہ ’جواب نہ دینے پر الیکشن کمیشن نے آئی جی پنجاب کو نوٹس کیوں نہیں دیا؟‘
عدالت میں ایڈووکیٹ آن ریکارڈ نے بتایا کہ ’مسلم لیگ ن کے وکیل سلمان اکرم راجا کے ساتھی کو کورونا ہوگیا ہے، وہ نہیں آسکے۔‘
پی ٹی آئی کے امیدوار علی اسجد ملہی کے وکیل شہزاد شوکت نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’ڈسکہ میں کل 360 پولنگ سٹیشنز ہیں، 4 لاکھ سے زائد ووٹرز ہیں، مسلم لیگ ن کی امیدوار نوشین افتخار نے عدالت میں شکایت کی 23 پولنگ سٹیشنزکے نتائج موصول نہیں ہوئے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ ’آپ کو 340 پولنگ سٹیشنز کے نتائج موصول ہوئے؟‘
وکیل علی اسجد ملہی نے جواب میں کہا کہ ’ریٹرننگ افسر نے بتایا کہ صرف 14  پولنگ سٹیشنز کے نتائج موصول نہیں ہوئے، الیکشن کمیشن نے تشدد، لڑائی جھگڑے کی بنیاد پر ری پولنگ کا حکم دیا ہے۔‘


وکیل نے بتایا کہ ’الیکشن کمیشن نے 23 پولنگ سٹیشنز کے نتائج کی تصدیق کے لیے امیدواروں کو نوٹس جاری کیا۔‘
جسٹس قاضی امین نے کہا کہ ’پولنگ سٹیشنز پر تشدد ہوا، کنٹرول کرنا انتظامیہ کی ذمہ داری تھی۔‘
وکیل علی اسجد ملہی نے کہا کہ ’ڈی آر او نے رپورٹ میں سول انتظامیہ پر کوئی الزام نہیں لگایا، الیکشن کمیشن ڈی آر او کی رپورٹ کے باوجود پورے حلقے میں انتخابات کرانے پر مصر رہا۔‘
جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ ’الیکشن کمیشن کے فیصلے میں بہت ساری باتوں کی نشاندہی کی گئی ہے، الیکشن کمیشن کے فیصلے کے مطابق پولیس نہ ہونے سے بعض پولنگ سٹیشنز پر تشدد ہوا۔‘
 الیکشن کمیشن نے گذشتہ روز سپریم کورٹ میں جمع کرائے گئے تحریری جواب میں کہا تھا کہ ’پنجاب حکومت نے این اے 75 ڈسکہ میں ضمنی الیکشن میں من پسند افسران تعینات کر کے انتخابات متنازع بنائے، کمیشن کے ساتھ تعاون نہیں کیا گیا۔‘
کمیشن کا کہنا تھا کہ ’ضلعی انتظامیہ کی ناکامی کی وجہ سے الیکشن والے دن سنگین تشدد کے واقعات دیکھنے میں آئے، حکومتی عہدیداروں، سکیورٹی ایجنسیز اور سیاسی نمائندوں نے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی۔‘

الیکشن کمیشن نے ڈسکہ کے پورے حلقے میں 10 اپریل کو دوبارہ انتخاب کرانے کا حکم دے رکھا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

تحریک انصاف کے امیدوار علی اسجد ملہی نے اپنے جواب میں کہا ہے کہ ’انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ذمہ دار ٹھہرانا غلط ہے۔‘
 مسلم لیگ ن کی امیدوار نوشین افتخار نے تحریری جواب میں کہا کہ ’20 پریذائیڈنگ افسران کا غائب ہونا تشویشناک ہے ، تحریک انصاف کی الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف درخواست کو جرمانہ عائد کرکے خارج کیا جائے۔‘
واضح رہے کہ الیکشن کمیشن نے این اے 75 ڈسکہ کے ضمنی انتخاب کو کالعدم قرار دیتے ہوئے پورے حلقے میں 10 اپریل کو دوبارہ الیکشن کرانے کا حکم دے ہے۔ الیکشن کمیشن کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ’حلقے میں ضمنی انتخاب شفاف نہیں ہوا، انتخابی ماحول خراب کیا گیا اور لڑائی جھگڑے کے واقعات ہوئے، ووٹرز کو ووٹ ڈالنے کے لیے بہتر ماحول نہیں ملا اور تمام پولنگ سٹیشنز پر دوبارہ پولنگ ہوگی۔‘

شیئر: