نواز شریف کو دوبارہ پارٹی صدر بنانے کا فیصلہ کیوں کیا گیا؟
نواز شریف کو دوبارہ پارٹی صدر بنانے کا فیصلہ کیوں کیا گیا؟
پیر 13 مئی 2024 17:05
رائے شاہنواز -اردو نیوز، لاہور
شہباز شریف نے اپنے استعفے میں نواز شریف کو پارٹی صدارت کا اصل حق دار قرار دیا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
وفاق اور پنجاب کی حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ ن کے اندر بڑے پیمانے پر پارٹی عہدوں میں تبدیلی لائی جا رہی ہے۔
پارٹی کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ 28 مئی کو پارٹی کی جنرل کونسل کا اجلاس طلب کیا گیا ہے جہاں نئے عہدے داروں کا انتخاب ہو گا۔ سب سے بڑی تبدیلی جو مسلم لیگ ن کرنے جا رہی ہے وہ یہ ہے کہ نواز شریف دوبارہ پارٹی صدر بن رہے ہیں۔
اس سے قبل تین مرتبہ مسلم لیگ ن اپنی جنرل کونسل کا اجلاس گذشتہ چند مہینوں میں بلا کر موخر کرتی رہی ہے۔
سب سے پہلے گذشتہ برس نومبر میں یہ اجلاس طلب کیا گیا تھا جس میں نواز شریف کو صدر منتخب کیا جانا تھا، تاہم قریبی حلقوں نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپنی اپیلوں کے فیصلے کا انتظار کریں، یوں اس وجہ سے قانونی طور پر پارٹی لیڈرشپ کی تبدیلی کا عمل رک گیا۔
عدالتی مقدمات سے بری ہونے کے بعد جنوری میں ایک مرتبہ پھر اس عمل کو انتخابات کی وجہ سے روک دیا گیا، اور پھر آٹھ فروری کے عام انتخابات کے غیرمتوقع نتائج کے بعد تیسری مرتبہ بھی معاملات جوں کے توں رہے۔
گذشتہ دنوں جب نواز شریف چین کے نجی دورے پر گئے تو اس دوران رانا ثنااللہ کی صدارت میں پنجاب کے تنظیمی اجلاس میں ایک قراردار منظور کی گئی جس میں نواز شریف کو پارٹی صدارت کا عہدہ سنبھالنے کی درخواست کی گئی۔
یوں پارٹی صدرات کی تبدیلی کا عمل اپنے حتمی مرحلے میں داخل ہوا۔ اس مقصد کے لیے پارٹی کی جنرل کونسل کا اجلاس 11 مئی کو رکھا گیا۔ اس سے قبل لاہور میں پارٹی کے صدر دفتر میں نواز شریف نے تین اجلاسوں کی صدارت کی اور یہ طے پایا کہ جنرل کونسل کا اجلاس 28 مئی کو بلایا جائے۔
ان اجلاسوں میں شریک مسلم لیگ ن کے رہنما جاوید لطیف نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’یہ التوا تکینکی بنیادوں کی وجہ سے ہوا ہے۔ 11 مئی کو جنرل کونسل کا اجلاس طے تھا لیکن پارٹی آئین کے مطابق اس سے پہلے پارٹی کی سی ای سی کا اجلاس ہونا بھی ضروری تھا۔ اور سی ای سی کا اجلاس اتنے کم وقت میں بلانا ممکن نہیں تھا۔ اس لیے زیادہ تر ممبران نے تجویز دی کہ جنرل کونسل کا اجلاس 28 مئی کو رکھا جائے، کیونکہ یہ وہ دن تھا جب نواز شریف نے اس قوم کو ایٹمی طاقت بنایا تھا۔ اور یہ تجویز سب کو پسند آئی۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’اسی طرح سی ای سی کا اجلاس 18 مئی کو بلایا گیا ہے۔ یہ تجویز بھی زیرِغور رہی کہ جنرل کونسل کا اجلاس اسلام آباد یا کسی چھوٹے صوبے میں رکھا جائے لیکن آخر میں لاہور کا قرعہ ہی نکلا۔‘
خیال رہے کہ شہباز شریف 11 مئی کو صدارت کے عہدے سے استعفی دے چکے ہیں۔ انہوں نے اپنے استعفے میں نواز شریف کو پارٹی صدارت کا اصل حق دار قرار دیا ہے۔
نواز شریف پارٹی صدارت واپس لے کر کیا پالیسی تبدیلی لانا چاہتے ہیں؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے جاوید لطیف کا کہنا تھا کہ ’یہ پارٹی ہے ہی نواز شریف کی، اس میں کسی کو شبہ نہیں ہونا چاہیے۔ اور ہمارا خیال ہے کہ اس وقت پارٹی کو ان کی قیادت کی شدید ضرورت ہے۔ وہ ہمارے لیڈر ہیں، ان کی جماعت اقتدار میں ہے تو پارٹی کی ایگزیکٹو اتھارٹی بھی ان کے پاس ہونی چاہیے۔ جس طریقے سے ثاقب نثار نے ان سے ان کی پارٹی چھیننے کی کوشش کی تھی وہ سب کے سامنے ہے۔ اور پارٹی کی قیادت ان کے پاس واپس آنے سے یہ سکور بھی سیٹل ہو گا۔‘
جب پنجاب کے تنظیمی اجلاس میں نواز شریف کو پارٹی صدارت دینے کی قرارداد منظور کی گئی تھی تو رانا ثنااللہ نے صحافیوں کے سوالات کے جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پارٹی کے اندر یہ رائے پائی جاتی ہے کہ نواز شریف کے قریبی ساتھیوں کو اس الیکشن سے ’جان بوجھ کر باہر‘ کیا گیا۔
مسلم لیگ ن کے ایک اور اہم رہنما رانا مشہود کا کہنا ہے کہ ’پارٹی کی صدارت میں تبدیلی اس لیے بھی اہم تھی کہ وزیراعظم شہباز شریف اس وقت دن رات ملکی مسائل کو حل کرنے میں صرف کر رہے ہیں، ان کے پاس وقت نہیں ہے کہ وہ پارٹی معاملات کو بھی دیکھیں۔ اور ویسے بھی میں سمجھتا ہوں کہ جس غیرمنصفانہ طریقے سے ان (نواز شریف) کو پارٹی صدارت کے عہدے سے ہٹایا گیا ان کی واپسی بھی ضروری تھی۔‘