Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

حروفِ ابجد کی جادوگری

اصطلاح میں ’حروف ابجد‘  اُن مخصوص کلمات کو کہا جاتا ہے جن میں فارسی یا ہندی آوازیں (پ، چ، ژ، گ،ٹ، ڈ، ڑ) شامل نہیں۔ (فوٹو: ڈریمز ٹائمز ڈاٹ کام)
فال نامہ ہے زندگی بھی ظفر
جی رہا ہوں حروف ابجد میں
حروف تہجی کا دوسرا نام 'حروف ابجد' ہے، تاہم اصطلاح میں ’حروف ابجد‘  اُن مخصوص کلمات کو کہا جاتا ہے جن میں فارسی یا ہندی آوازیں (پ، چ، ژ، گ،ٹ، ڈ، ڑ) شامل نہیں۔ یہ کُل آٹھ کلمات ہیں جن کی تشکیل میں عربی زبان کے تمام حروف تہجی شامل ہیں۔ یہ کلمات ’ابجد، ہوز، حطی، کلمن ، سعفص ، قرشت، ثخذ  اور ضظغ ہیں۔‘
عربی سمیت دنیا کی بیشتر زبانوں کے حروف تہجی کی اصل کنعانی حروف ہیں، انہیں فونیقی (فونیشیئن) حروف بھی کہا جاتا ہے۔

 

کنعان، فلسطین کا قدیم نام ہے یہیں سے یہ حروف ایک طرف عرب و ایران اور دوسری طرف روم و یونان پہنچے۔ یہ حروف ابتدا میں مختلف اشیا کی تصویریں تھیں، مثلاً جسے ہم الف، با، جیم اور دال (ا، ب، ج، د) کے نام سے جانتے ہیں وہ بالترتیب الف (بیل)، بیت (گھر)، جمل (اونٹ) اور دال (پھاٹک) کی تصویریں تھیں، ان تصویروں کی دھندلی سی جھلک بعض حروف میں آج بھی دیکھی جا سکتی ہے، مثلاً ’ج‘ پر غور کریں تو اس میں آپ کو اونٹ کا سر خم دار گردن سمیت نظر آئے گا۔ یہ تصویریں بتدریج علامات میں ڈھلیں اور مختلف آوازوں کی نمائندہ قرار پائیں۔ ’آواز‘ کے ذکر پرمنیر نیازی یاد آگئے جن کا کہنا ہے:
آواز دے کے دیکھ لو شاید وہ مل ہی جائے
 ورنہ یہ عمر بھر کا سفر رائیگاں تو ہے 
’حروف ابجد‘ میں ہر حرف کا ایک عدد (نمبر) مقرر ہے، مثلاً الف، ب، ج، د (ابجد) بالترتیب 1،2،3،4 کے نمائندہ ہیں تو ض، ظ، غ (ضظغ) بالترتیب 800،900،1000 کے اعداد کو ظاہر کرتے ہیں۔ اس بات کو باآسانی سمجھنا ہو تو امتحانی پرچے یا کسی قانونی دستاویز پرغور کریں جس میں ذیلی یا ضمنی اعداد کے لیے 1،2،3،4 کی جگہ 'الف، ب ، ج، د' لکھا ہوتا ہے۔
ابجدی اعداد کی یہی ترتیب یونانی اور لاطینی کی راہ سے انگریزی میں بھی پائی جاتی ہے، ذرا Alpha (الفا) beta (بِیٹا)،gamma  (گاما) اور delta (ڈلٹا) پرغور کریں، یہ درحقیقت ’الف، ب، ج، د‘ ہی کی تبدیل شدہ صورتیں ہیں، اوراکثر موقعوں پر 1،2،3،4 کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔ 
حروف کی اس عددی قیمت کو برتنے کا فن 'علمِ اعداد' اور 'علم ہندسہ' کہلاتا ہے۔ آپ نے اکثر گھروں، دکانوں یا گاڑیوں پر '786' لکھا دیکھا ہوگا، اصل میں یہ 'بسم اللہ الرحمٰن الرحیم' کے کل حروف کا حاصل عدد ہے۔ اسی لیے اس عدد کو حصول برکت کے لکھا اور آویزاں کیا جاتا ہے۔ 
حروف ابجد کی عددی قیمت 'علم جفر' اور 'علم رمل' کے علاوہ 'تاریخ گوئی' میں بھی برتی جاتی ہے۔ تاریخ گوئی یا مادہِ تاریخ وہ جملہ، فقرہ ، مصرع یا شعر ہوتا ہے جس کے اعداد بہ حسابِ ابجد نکالنے سے کسی واقعے کی تاریخ نکل آئے۔
یہ واقعہ بادشاہ کی تاج پوشی و تخت نشینی، کسی معرکے میں کامیابی، کسی کی پیدائش یا وفات، کسی کا تاریخی نام اور کسی عمارت کا سنگ بنیاد یا افتتاح سمیت کسی بھی خاص موقع پر مشتمل ہوسکتا ہے۔ 

الفاظ کے ملبے میں معنی ڈھونڈتے ہوئے 'C' تک پہنچے تو کُھلا کہ لاطینی حرف 'C' اکثر زبانوں میں 'ج' کی آواز دیتا ہے (فوٹو: ٹوئٹر)

علامہ اقبال کو تاریخ گوئی یا مادہِ تاریخ کہنے میں مہارت حاصل تھی۔ ان کی کہی ہوئی بہت سی تاریخیں اس بات کا ثبوت ہیں۔ مثلاً کوتوالی لاہور کی عمارت مکمل ہوئی توعلامہ نے اُس کا مادہِ تاریخ ’عمارتِ فرّخ فرجام ‘ کے الفاظ میں نکالا، اس فقرہ کا مطلب ’عمارت کی تکمیل مبارک‘ ہے اور ان الفاظ کے اعداد کا حاصل جمع 1915 ہے جو اس عمارت کی تعمیر کا سال ہے۔ اب عمارت کی رعایت سے دہلی کے 'شہپر رسول' کا شعر ملاحظہ کریں:
ہوگی اس ڈھیر عمارت کی کہانی کچھ تو
ڈھونڈ الفاظ کے ملبے میں معانی کچھ تو
الفاظ کے ملبے میں معنی ڈھونڈتے ہوئے 'C' تک پہنچے تو کُھلا کہ لاطینی حرف 'C' اکثر زبانوں میں 'ج' کی آواز دیتا ہے، مثلاً ترکی زبان میں جمعہ کو 'Cuma'، جماعت کو 'Cemaat' اور مسجد کو 'mescit' لکھا جاتا ہے۔ 'C' کی یہ آواز اپنی اصل کے مطابق ہے۔ اس وضاحت کے بعد اب آپ انگریزی حروف تہجی (alphabet) پرغور کریں، اس میں آپ کو حروف ابجد کے تین کلمات اپنی حقیقی ترتیب کے مطابق دکھائی دیں گے،ان میں اول: ابجد (ا،ب،ج،د) .A.B.C.D ، دوم: کلمن (ک، ل، م، ن) .K.L.M.N اور سوم: قرشت (ق، ر، ش، ت) .Q.R.S.T ہے۔   
ڈیجیٹل لاک (digital lock) سے بہت پہلے ماہر کاریگر ایسا قفل (تالا) متعارف کرواچکے تھے، جو چابی کے بجائے مخصوص حروف ترتیب دینے پر کُھلتا اور بند ہوتا ہے۔ یہ قفل حروف کی نسبت سے 'قفلِ ابجد' یا 'ابجد کا تالا' کہلاتا ہے۔
میرزا غالب نے قفل کی اس خوبی کو خوبصورتی کے ساتھ شعر میں برتا ہے:
تجھ سے قسمت میں مری صورت قفل ابجد
تھا لکھا بات کے بنتے ہی جدا ہو جانا

حروف کی عددی قیمت کو برتنے کا فن 'علمِ اعداد' اور 'علم ہندسہ' کہلاتا ہے۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

اب ’ابجد‘ کے اس طولانی قصے کو تمام کرتے اور لفظ ’قصہ‘ کی بات کرتے ہیں۔ ’قصہ‘ کی اصل لفظ ’اَلقَصُّ‘ ہے، جس کے معنی ’نشانِ قدم پر چلنا‘ ہیں۔
اسی سے اصطلاح ’قِصَاص‘ ہے جس میں مجرم کو ویسی ہی سزا کا سامنا کرنا پڑتا ہے جیسا جرم اُس نے کیا ہوتا ہے۔
جہاں تک ’قصہ‘ کی بات ہے تو اس کے معنی بیان، سرگزشت اور واقعہ کے ہیں۔  جیسے ’حصہ‘ کی جمع ’حِصَص‘ ہے، ایسے ہی ’قصہ‘ کی جمع ’قِصَص‘ ہے۔
قبیلہ قریش کے جد امجد ’قُصَی بن کِلاب‘ کے نام کی وجہ تسمیہ میں بھی ’قصہ‘ کو دخل ہے۔ ’قصی‘  کا نام ’زید‘ تھا، وہ اپنے بچپن میں مکہ سے بہت دور ملک شام میں زیرِ پرورش تھے اس دوران ایک واقعہ کے بعد ان کی والدہ نے ان کے بلند حوصلہ والد ’کِلاب بن مرہ‘ اور عالی نسب خاندان کا قصہ سنایا، یوں اس قصہ کی نسبت سے انہیں ’قُصَی‘ پکارا گیا۔
چونکہ عام طور پر قصہ بیان کیے جانے والے مقام سے کسی اور جگہ پیش آیا ہوتا ہے، ایسے میں اس کے معنی میں دوری کا مفہوم بھی پایا جاتا ہے، اس بات کو ’مسجد الاقصیٰ‘ کی ترکیب میں دیکھ سکتے ہیں جس کے معنی ’دور کی مسجد‘ ہیں۔
مسجد کی رعایت سے علامہ اقبال کا مشہور زمانہ شعر ملاحظہ کریں اور اجازت دیں۔
مسجد تو بنادی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے
من اپنا پرانا پاپی ہے برسوں میں نمازی بن نہ سکا

شیئر: