Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

وہ حیرت کی تصویر بن گئی

زینت شکیل ۔کراچی 
وہ چھکڑے کے پیچھے تھی۔ وہ لوگ قصبے سے نکل کر چھوٹے شہر میں رہائش تلاش کرچکے تھے۔ جب فرصت ملی تو کہنے لگی کہ ہم لوگ خواہ مخواہ اتنی پرانی چیزیں اٹھاکر یہاں لائے۔ جب سڑک پر روک کر چونگی والا دیکھتا ہوگا تو کیا سوچتا ہوگا کہ شہر میں یہ سب چیزیں کون استعمال کرتا ہے۔ چارپائی، پیڑھی، لحاف اور گدی، ساتھ میں ہمارے پرانے برتن اور ہر بستر بنانے کیلئے چاول کا ڈھیروں ڈھیر تنکے نما  بھوسہ۔ وہ کہنے لگا کہ چیک کرنا اس لئے ضروری ہوتا ہے کہ کبھی کبھار لوگ ظاہر ایسا ہی کرتے ہیں جیسا کہ ہم گائے بکریوں کے استعمال کیلئے چارہ لیکر جارہے ہیں ۔ وزن میں ہلکا ہے ،اس لئے زیادہ چڑھا دیا لیکن اس چارے کے اندر نئی مہنگی گاڑی ہوتی ہے جو ایک شہر سے دوسرے شہر پہنچائی جارہی ہوتی ہے۔ وہ حیرت کی تصویر بن گئی کہ دنیا میں ایسا بھی ہوتا ہے۔
وہ آج اپنے اپارٹمنٹ میں موجود ایسی فیملی کے یہاں چائے پر گئی جو یہاں آتے ہی بات چیت شروع کرچکی تھیں۔ نہایت اخلاق سے  بٹھایا ۔وہیں چائے کا دور چل رہا تھا کہ لائٹ چلی گئی ۔ فوراً جنریٹر چلالیا ۔ دوبارہ گپ شپ شروع ہوگئی۔ وہ بتانے لگیں کہ میرے 8 ماموںہیں جو مختلف ممالک میں ہیں۔ وہ یہاں رہتے ہیں، وہ سول سروس میں ہیں۔ ایک ریٹائرڈ کرنل ہیں جو اب بزنس کرتے ہیں۔ پھر  تو باری باری تمام رشتہ داروں کے بارے میں بتاتے ہوئے  اس نے کہا کہ میرے شوہر فلاں ڈپارٹمنٹ میں20ویں گریڈمیں ہیں اور کسٹم میں ہونے کی وجہ سے ہم لوگ بہت جگہ گھومنے کے علاوہ شاپنگ بھی باہر سے ہی کرتے ہیں۔ گھر کی ہر چیز ان کی امارت کا منہ بولتا    ثبوت پیش کررہی تھی۔ کئی اور باتیں ہوئیں جو اچھی بھی تھیں اور نہیں بھی۔ نہیں اس صورت میں کہ وہ واپسی میں کچھ افسردہ ہوگئی تھیں۔
گھر واپس آئی تو وہ نہاری کے ساتھ کھانا کھانے کیلئے تندروری روٹی لے آیا تھا ۔ اب دونوں بچے شوق سے کھانا کھا رہے تھے۔ چھوٹے چھوٹے لقمے، کبھی باپ کے ہاتھ سے، کبھی ماں کے ہاتھ سے لے رہے تھے۔ کبھی ہنستے، کبھی بولتے او راسکول جانے ،وہاں پڑھنے کی بات اشتیاق سے پوچھتے رہے کہ یہاں کب سے اسکول جانا شروع کریں گے۔ وہ آج زیادہ مزے سے کھا نانہ کھا سکی۔ ذہن منتشر تھا۔
دنیا میں کسی کے پاس بھی مکمل خوشی موجود نہیں اور اگر کوئی خوش و خرم ہے تویہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے مالک حقیقی سے ناتہ جوڑ لیا ہے۔ وہی اتنے خوش نصیب ہیں کہ دنیا کی سختی انہیں اپنے اردوں میں متزلزل نہیں کرتی۔ آج جب وہ پڑوسن کے گھر گئی تو اس گھر کا چمچماتا فرش، فرنیچر اور پردے اتنے اچھے لگ رہے تھے کہ بار بار تعریفی کلمات کہنے کو دل چاہ رہا تھا۔ جب پڑوسن نے چائے لگائی تو کراکری اتنی   مہنگی جیسا کہ شوپیس ہوں۔ انہیں چھوتے ہوئے ڈر لگے کہ کہیں گر کر ٹوٹ نہ جائیں۔ وہ خود اتنی حسین، اس کے ساتھ اپنی خوش ذوقی کا ثبوت دیتے ہوئے بہترین لباس اور خوبصورت میچنگ ہلکی جیولری ۔ وہ تو انہیں چیزوں میں ذہن لگائے بیٹھی تھی کہ انہوں نے اسے  آٹھوں ماموؤں کا ذکر کردیاکہ کوئی کسی ملک میں ہے کوئی کہیں او ربڑے بزنس ان کے نام ہیں۔ ایکسپورٹ امپورٹ کا کاروبار ہے۔ زمینیں جائدادیں بے شمار ہیں، لیکن جو دل کاٹتی ہوئی بات تھی وہ کسی نہ کسی طرح ذکر ہوگئی کہ جن کاذکر ہوا ان میں سے کسی کے بیٹے کا ایک ہاتھ موجود نہیں۔ کسی کو پیدائشی نقص کے طور پر لنگ ہے، کسی کو معمولی حادثے نے کوما میں پہنچا دیا ہے اور جس پڑوسن کے گھر وہ مووجود تھی وہاں وہی اکیلی خاتون تھیں، ان کے شوہر گھر پر کم اور باہر زیادہ  وقت گزارنے کے عادی تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ گھر  پر کون وقت ضائع کرے۔کہیں کوئی پارٹی انجوائے کیوں نہ کی جائے جہاں بیگم کو لے کر بھی نہ جانا ہو۔ بس وہ خود ہوں اور اپنے دوستوں کی محفل ہو۔ 
اس نے چاروں طرف نگاہ دوڑائی ، اسکے شوہر نے دیکھا کہ وہ شاید آنے جانے میں تھک گئی ہے، کھانا بھی ڈھنگ سے نہیں  کھایا، خود سارے برتن سمیٹ کر کچن میں پہنچا دیئے۔ دھلنے والے برتن دھو ڈالے۔ بچوں کو مچھر سے پریشانی تھی چنانچہ گلوب جلاکر چاروں طرف ململ کے کپڑے سے مچھردانی بنالی۔ دونوں بچوں کو لئے وہ بے خبر سورہاتھا اور وہ اپنے خوبصورت پر سکون ماحول میں شکرانے کے طور پر مسکراتی گئی۔ اٹھی اور وضو کرکے دو رکعت شکرانے کے ادا کرنے کی نیت باندھ لی۔ 
وہ سوچ رہی تھی کہ جب ہم مالک حقیقی کی بے انتہاء نعمتوں کا ادراک کرلیں گے تو ان چیزوں کی طرف نگاہ اٹھاکر بھی نہیں دیکھیں گے جو دولت کے انبار تو لگا دیتی ہے لیکن پرسکون نیند نہیں دے سکتی۔ جس دن ہمیں یہ بات سمجھ میں آجائے گی ہم سمجھداربن جائیں گے۔ 
 
 
 

شیئر: