Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

تین لاکھ 50 ہزار ڈھکنوں سے نقشہ بنا کر عالمی ریکارڈ توڑنے والی سکول پرنسپل

سکول پرنسپل کا کہنا تھا کہ انہیں بچپن سے نقشے بنانے کا شوق ہے۔ (فوٹو: عرب نیوز)
جدہ میں خلود الفادلی نامی سکول پرنسپل نے پلاسٹک کی بوتلوں کے ڈھکنوں سے دنیا کے نقشے کا سب سے بڑا موزیک بنایا ہے جس سے ان کا نام گنیز ورلڈ ریکارڈ میں شامل کر لیا گیا ہے۔
عرب نیوز کے مطابق گرین لیوز پلے گروپ نامی سکول کی پرنسپل نے پلاسٹک کی بوتلوں کے تین لاکھ 50 ہزار ڈھکنوں سے 250 سکوائر میٹر کا نقشہ بنا کر گذشتہ سال کا ریکارڈ توڑا ہے جو کہ لبنان کے علاقے مزیارا میں کیرولین چیپٹینی نامی خاتون نے بنایا تھا۔
انہوں نے ہلال کا 196.94 سکوائر میٹر کا موزیک بنایا تھا۔
خلود الفادی نے عرب نیوز سے بات کرتے ہوئے مسرت کا اظہار کیا اور کہا کہ انہیں محسوس ہورہا ہے کہ ان کی محنت رنگ لائی ہے۔
’تصویر سے فرق نہیں پڑتا کیونکہ (اس کے) سائز سے پتہ چلتا ہے کہ میں نے ریکارڈ توڑا ہے یا نہیں اور گنیز ورلڈ ریکارڈ کا ریکارڈ توڑنے یا نیا ریکارڈ بنانے کے لیے بہت کچھ درکار ہوتا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ موسم کی خرابی کے باعث کھلے آسمان کے نیچے بنایا جانے والا ان کا موزیک متاثر ہو رہا تھا۔ اس لیے انہیں پرانا ریکارڈ توڑنے میں دشواری پیش آ رہی تھی۔
’کچھ دن ایسے بھی تھے جب ہوا بوتلوں کے تمام ڈھکنوں کو اپنی جگہ سے ہلا کر اُڑا رہی تھی، جس کی وجہ سے پراجیکٹ میں ایک ہفتے کی تاخیر ہوئی۔ تاہم عزم، مستقل مزاجی اور اپنے رضاکاروں اور اہلِ خانہ اور اپنے شوہر کی مدد سے میں نے اپنا کام جاری رکھا اور ہار نہیں مانی۔‘
اس پراجیکٹ کا مقصد تین اہم دنوں پر روشنی دالنا تھا، جن میں پلاسٹک جمع کرنے اور ری سائیکلنگ کا عالمی یومِ ماحولیات، ماحول کو بچانے کے لیے سمندر میں پلاسٹک پھینکنے سے روکنے کی آگاہی کا سمندروں کا عالمی دن اور رضاکارانہ کاموں کی آگاہی کا اقوام متحدہ کا پبلک سروس ڈے شامل ہیں۔
خلود الفادی کا کہنا تھا کہ تینوں دن سعودی عرب کے وژن 2030 اور اس کے اہداف پر پورا اترتے ہیں۔

ریکارڈ توڑنے والا نقشہ 250 سکوائر میٹر کا ہے۔ (فوٹو: عرب نیوز)

انہوں نے بتایا کہ اس پراجیکٹ سے وہ بچوں میں آگاہی پیدا کرنا چاہتی ہیں کیونکہ وہ ’مستقبل کی نسل ہیں۔‘
خلود الفادی نے بتایا کہ انہیں یہ پراجیکٹ کرنے کا حوصلہ اپنے طلبہ کے جوابات سے ملا جب انہوں نے سکول میں گلوبل وارمنگ اور ری سائیکلنگ کا مضمون متعارف کروایا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک طالب علم نے سوال کیا کہ ’کیا اس کا مطلب ہے کہ ہمارا کرہ ارض مر جائے گا؟‘
انہوں نے بتایا اس طالب علم نے یہ سوال برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کیا جیسے کہنا چاہ رہا ہو کہ کوئی ’ہمارے سیارے کے ساتھ ایسا کرنے کی جرأت بھی کیسے کر سکتا ہے۔‘
خلود الفادی نے کہا کہ لوگ خود میں بدلاؤ لانے سے شروعات کر سکتے ہیں اور کرہ ارض کو محفوظ کرنے کا ایک طریقہ ہے کہ ’پلاسٹک جمع کر کے اس کا پراجیکٹ بنایا جائے۔‘
اپنے پراجیکٹ کے لیے پلاسٹک کی بوتلوں کے ڈھکن جمع کرنے کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ ’کام شروع کرنے کے 40 دن کے اندر اندر خبر پھیلتی گئی اور جدہ، مکہ، مدینہ اور طائف سے لوگوں نے (ڈھکن) دیے۔‘

خلود الفالدی کا کہنا تھا کہ سعودی عرب کے مختلف علاقوں سے لوگوں نے انہیں ڈھکن دیے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

ان کا کہنا تھا کہ جن لوگوں نے ڈھکن دیے وہ اس پراجیکٹ کے مکمل ہونے کا بے صبری سے انتظار کر رہے تھے۔
’وہ نقشے کا اتنا بڑا اور خوبصورت موزیک دیکھ کر حیران تھے اور انہوں نے وعدہ کیا کہ پلاسٹک بچا کر اسے دوبارہ استعمال کریں گے یا کرہ ارض کو محفوظ کرنے کے لیے اسے مجھے عطیہ کر دیں گے۔‘
اپنے اس تجربے کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ری سائیکل کرنے والی چیزوں سے آرٹ بنا کر انہیں بہت اچھا محسوس ہوا۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ نقشوں سے انہیں بچپن سے انسیت ہے۔
’مجھے بچپن سے نقشے بنانا اچھا لگتا ہے۔ مجھے معلوم نہیں کیوں لیکن (اس سے) ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میں اُڑ رہی ہوں۔ اتنا بڑا نقشہ دیکھنا ایک خواب جیسا تھا۔‘

شیئر: