Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بلبل اکیڈمی کی جھرنا نے ایسا رقص کیا کہ منیر نیازی پر وجد طاری ہو گیا

سنہ 2012 میں شبنم کو پاکستانی حکومت کی جانب سے لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ دیا گیا: فائل فوٹو
سنہ 1959 میں مغربی پاکستان کے ادیبوں نے مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) کا دورہ کیا، ان میں سے بعض نے واپسی پر اس سفر کا احوال قلمبند کیا، جس میں معروف بنگالی شاعر کوی جسیم الدین کا ذکر بھی آتا ہے جو سب سے بڑی اپنائیت سے ملے، مہمانوں کو اپنے گھر بھی مدعو کیا اور کھانے کے بعد رقص وسرود کی محفل سجی۔
میزبان نے ایک رقاصہ جھرنا کا تعارف کروایا۔ بتایا کہ وہ دسویں جماعت کی طالبہ ہے اور رقص میں مشّاق ہے۔ معروف ادیب اے حمید کے بقول ’ایک دبلی پتلی سانولی سی لڑکی نے آکر سب کو ادب سے سلام کیا۔ سیاہ آنکھیں، تیکھے نقش اور لمبے سیاہ بال۔‘
جھرنا کے رقص اور حسن نے حاضرین کا دل موہ لیا۔ مہمان شاعر ادیب مائل اور گھائل ہوگئے۔
ہم ہوئے تم ہوئے کہ میر ہوئے
اس کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے
ممتاز شاعر منیر نیازی نے ایک انٹرویو میں بتایا ’جھرنا بلبل اکیڈمی میں زیر تربیت تھی مگر اس نے ایسا رقص کیا کہ اس محفل میں موجود شاعر و ادیب مبہوت ہوگئے۔ جب ہم کمرے میں واپس آئے تو ابن انشا جھرنا سے اس قدر متاثر ہوئے کہ انہوں نے راتوں رات جھرنا کے ساتھ اپنی شادی کا دعوت نامہ مرتب کرڈالا۔‘
منیر نیازی نے ہفت روزہ ’نصرت ‘ میں ’بنگال کا سفر‘ کے عنوان سے جو روداد لکھی، اس میں بھی جھرنا کا ذکر کیا۔
ہم نے اوپر جس انٹرویو کا حوالہ دیا ہے اس میں منیر نیازی نے ابن انشا کے جھرنا پر فریفتہ ہونے کی بات تو بتائی ہے لیکن اپنے نیک ارادوں کی خبر نہیں دی۔ خیر، شاعر ادیب اپنے بارے میں کچھ مخفی رکھنا بھی چاہیں تو ان کے ساتھی راز طشت از بام کردیتے ہیں۔
فارغ بخاری نے ’ادب لطیف‘ میں قسط وار بنگال کا سفرنامہ لکھا تو اس میں بتایا کہ اے حمید نے جب اعلان کیا کہ وہ جھرنا کے سب سے پہلے عاشق ہیں اور ابن انشا نے شادی کارڈ تک چھپوانے کا فیصلہ کرلیا تو اس پر منیر نیازی بولے ’تم سب بکتے ہو۔ جھرنا کو مجھ سے اور صرف مجھ سے محبت ہے، وہ کن انکھیوں سے میری طرف للچائی نظروں سے دیکھتی ہوئی پائی گئی ہے۔ میں یہاں سیٹل ہونے کا تہیہ کرچکا ہوں، ہم منیر جھرنا کے نام سے ایک نیا رومان بنیں گے جو مغربی و مشرقی پاکستان کا مشترکہ لوک رومان ہوگا۔‘

نامور بنگالی رقاص بلبل چودھری کے نام پر ڈھاکہ میں قائم بلبل اکیڈمی میں جھرنا تربیت حاصل کررہی تھی۔ منیر نیازی نے اس اکیڈمی کا دورہ کرنے کے بعد اپنا تاثر کچھ یوں بیان کیا ’بلبل اکیڈمی کی عمارت دیکھ کر ہی وجد طاری ہوجاتا ہے۔ ایک پرانا محل جس میں ڈھاکہ کے اچھے گھرانوں کی لڑکیاں رقص اور گانے کی تعلیم حاصل کرتی ہیں۔ کہیں جھرنا اور روزیاں ناچ ناچ کر پسینہ پسینہ ہورہی ہیں کہیں نینا آواز کا جادو جگا رہی ہے۔‘

جھرنا کو ’شبنم‘ نامور فلم ڈائریکٹر احتشام نے ہی بنایا۔ فوٹو: سکرین گریب

یہ تو جوان جہان ادیبوں کا حال تھا لیکن میرزا ادیب کا جیا بھی بے قرار ہو رہا تھا۔ ’یار فارغ جھرنا تو قیامت تھی۔‘
اور تو اور نسیم حجازی بھی جھرنا کا رقص دیکھ کر جھوم اٹھے تھے۔
جھرنا نے رقص سے جو سماں باندھا اس کے بارے میں فارغ بخاری نے لکھا ’....جیسے بنگالی ناموں میں اس کا نام منفرد تھا، اسی طرح وہ خود بھی دلفریب خدوخال کی ایک نہایت خوب صورت دوشیزہ تھی۔ اور جب وہ رقص کرنے لگی تو یوں لگا جیسے واقعی کسی پہاڑی کے دامن سے کوئی جھرنا پھوٹ کر بہنے لگا ہو۔ نرم رو، صاف و شفاف، ٹھنڈے پانی کا کومل جھرنا۔ اور لق و دق صحرا کی جلتی لو سے جھلسے ہوئے تشنگی سے نڈھال مسافروں کی طرح ہماری ترسی اور للچائی ہوئی نظریں اس کے جسم کی اچھلتی کودتی لہروں پر جم کر رہ گئیں۔ وہ بڑے خلوص سے ناچ رہی تھی۔ اس کا انگ انگ تھرک رہا ہے خصوصاً اس کی بڑی بڑی معصوم آنکھوں کے سحر کارانہ حرکات میں تو نریتہ کلا کا تمام فن سمٹ آیا تھا۔ مجھے آج یقین ہورہا تھا کہ رقص واقعی انسانی جسم کے حسن وتقدس کے عرفان کا پہلا اور آخری زینہ ہے۔ غالباً اسی زینے پر پہنچ کر کسی نے رقص کو انسانی جسم کی شاعری کہا تھا ... بنگال کی یہ الھڑ سلومی پوری تمکنت اور وقار سے اپنے فن کا مظاہرہ کررہی تھی۔‘
جھرنا کی طرف ادیبوں کا ملتفت ہونا ایک وقتی جذبہ تھا، اس لیے بات ارادوں سے آگے نہ بڑھ سکی۔ قسمت کی خوبی دیکھیے کہ جھرنا کی قسمت کا ستارہ مغربی پاکستان کی اردو فلم انڈسٹری میں چمکنا تھا اور اس نے شبنم کے نام سے شہرت حاصل کرنی تھی۔ اور شہرت بھی ایسی کہ جس کا دائرہ عشروں پر محیط رہا۔
سنہ 1962 میں نامور فلم ڈائریکٹر احتشام کی فلم ’چندا‘ سے اردو فلموں میں ان کے کرئیر کا آغاز ہوا جو سنہ 1997 میں اختتام کو پہنچا۔ جھرنا کو ’شبنم‘ بھی احتشام نے ہی بنایا۔
موسیقار رابن گھوش سے ان کی شادی ہوئی۔
سنہ 1967 میں یہ لوگ ڈھاکہ چھوڑ کر مغربی پاکستان آن بسے۔ یہاں شبنم کی فلم انڈسٹری سے وابستگی کے دوران چند نازک موڑ ایسے آئے جب لگا کہ وہ ڈھاکہ واپس چلی جائیں گی۔ سب سے پہلے یہ امکان 1971 میں بنگلہ دیش بننے کے بعد پیدا ہوا لیکن وہ پاکستان میں رہیں اور ان کا فنی سفر کامیابی سے جاری رہا۔
سنہ 1979 میں چند اوباشوں نے لاہور میں ان کے گھر میں گھس کر جس لفنگے پن کا مظاہرہ کیا، اس نے ان کے جسم و روح پر چرکے لگائے لیکن انہوں نے بڑی ہمت سے یہ سب کچھ سہار لیا، خود کو بکھرنے نہ دیا اورپاکستان نہ چھوڑا۔

سنہ 2012 میں شبنم کو پاکستانی حکومت نے لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ دیا فوٹو: ڈیلی سٹار ڈاٹ نیٹ

ان سے جو ظلم ہوا اس حوالے سے برسوں بعد معروف رائٹر اصغر ندیم سید نے افسانہ لکھا جو ان کی کتاب ’کہانی مجھے ملی‘ میں شامل ہے۔
بڑے بڑے حادثات انہوں نے جھیل لیے اور بنگلہ دیش واپس نہ گئیں لیکن ان کی قسمت میں ایک دن یہاں سے رخصت ہونا لکھا تھا، جس کا سبب ان کے والد کی علالت بنی اور وہ 22 برس پہلے ڈھاکہ چلی گئیں۔ یہاں سے جانے کے بعد پاکستان نے انہیں اور انہوں نے پاکستان کو بھلایا نہیں۔
لاہور میں بیتے دنوں کی یاد ان کے ذہن سے محو نہ ہوسکی اور یہ شہرِ بے مثال انہیں رہ رہ کر یاد آتا ہے۔ انسان آخر اس جگہ کو کیسے بھول سکتا ہے جہاں سے اسے عزت، دولت اور شہرت ملی ہو۔ ان کے شوہر رابن گھوش نے بھی موسیقار کی حیثیت سے بڑا نام کمایا۔
سنہ 2012 میں انہیں پاکستانی حکومت نے لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ دیا جسے وصول کرنے آئیں تو لوگوں کی محبت نے انہیں سرشار کردیا۔
انہوں نےاس بات پر خوشگوار حیرت ظاہر کی کہ نوجوان نسل بھی انہیں پہچانتی ہے۔ 2017 میں کراچی اور لاہور کے لٹریچر فیسٹیول میں بھی لوگوں نے انہیں بڑی محبت اور عزت دی۔
سنہ 2019 میں لکس سٹائل ایوارڈز میں انہیں لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ دیا گیا۔ شبنم کی پذیرائی کا یہ سلسلہ جاری رہنا چاہیے کیونکہ انہوں نے پاکستان فلم انڈسٹری کی بڑی خدمت کی ہے۔

شیئر: