Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’میرے دوست، تصادم سے بچنا چاہیے‘ امریکی اور چینی صدور میں اتفاق

چینی اور امریکی صدور کے درمیان آن لائن ملاقات ہوئی ہے جس میں اہم امور پر تبادلہ خیال ہوا (فوٹو: روئٹرز)
امریکی صدر جو بائیڈن اور چینی صدر شی جن پنگ نے کہا ہے کہ دونوں کو دنیا کی خاطر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے کسی بھی تصادم سے بچنا چاہیے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق سوموار کو دونوں عالمی معیشتوں کے صدور کے درمیان ہونے والی ورچوئل ملاقات میں بات چیت کا آغاز کیا گیا ہے۔
شی جن پنگ نے جو بائیڈن کو ’پرانا دوست‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ دونوں ممالک کو درپیش چیلنجز کو حل کرنے کے لیے رابطہ کاری بڑھانی چاہیے۔
جو بائیڈن نے چینی صدر سے انڈو پیسفک خطے میں انسانی حقوق سمیت دیگر ایشوز پر توجہ دینے کا وعدہ بھی کیا۔
ملاقات کے آغاز میں جو بائیڈن نے وائٹ ہاؤس سے کہا، جہاں ایک بڑی سکرین پر چینی صدر نظر آ رہے تھے، ’میرا خیال ہے کہ مجھے رسمی طور پر بات چیت شروع کرنی چاہیے اگرچہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ کوئی تکلف نہیں رکھتے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’میں اور آپ اس حوالے سے بات کر چکے ہیں، تمام ممالک کو ایسے ہی ضوابط کی پیروی کرنی ہیں۔‘
جو بائیڈن کے مطابق ’امریکی و چینی دو طرفہ تعلق کا گہرا اثر صرف ہمارے ممالک ہی نہیں بلکہ دنیا کے دیگر ممالک پر بھی ہے۔‘
چینی صدر شی جن پنگ نے ایک ترجمان کی وساطت سے جواب دیتے ہوئے کہا ’عالمی معیشتیں اور سکیورٹی کونسل کے رکن ہونے کے طور پر امریکہ اور چین کو باہمی رابطہ کاری اور تعاون کو بڑھانا چاہیے۔‘
یہ مذاکرات جن کا قدم بائیڈن کی جانب سے اٹھایا گیا ہے شام سات بج کر 45 منٹ پر شروع ہوئے جن میں تعلق بہتر بنانے اور تلخیاں کم کرنے پر زور دیا گیا۔

چین اور امریکہ میں کورونا وبا، تجارت، مسابقتی قوانین، جوہری معاملات اور تائیوان ایشو سمیت دیگر امور پر اختلافات ہیں (فوٹو: سوشل میڈیا)

دونوں رہنماؤں کے درمیان ہونے والی ملاقات کو رپورٹرز کے ایک چھوٹے گروپ نے کور کیا جبکہ ملاقات سے قبل ماہرین کا خیال تھا کہ یہ کئی گھنٹے جاری رہ سکتی ہے۔
چین اور امریکہ کورونا وبا کے آغاز کے اسباب، تجارت، مسابقتی قوانین، بیجنگ کے بڑھتے جوہری معاملات اور تائیوان پر دباؤ سمیت دیگر ایشوز پر اختلافات ہیں۔
امریکی حکام کو دونوں ممالک کے درمیان ٹھوس معاہدوں کی زیادہ امید نہیں ہے، جن میں تجارتی میدان بھی شامل ہے۔
وائٹ جانب سے اس سوال کا جواب دینے سے گریز کیا گیا کہ کیا امریکہ فروری میں ہونے والے اولمپکس کے لیے اپنے حکام بیجنگ بھیجے گا۔
امریکی قانون سازوں اور تنظیموں کے کارکنوں نے جو بائیڈن پر زور دیا ہے کہ گیمز کا بائیکاٹ کیا جائے۔
واشنگٹن سٹریٹیجک اینڈ انٹرنیشنل سٹڈیز سے وابستہ ماہر سکاٹ کینیڈی کہتے ہیں کہ دونوں کی بات چیت کے انداز سے ظاہر ہے کہ دونوں جانب سے کوشش کی جا رہی ہے کہ تعلقات میں استحکام لایا جائے۔
تاہم انہوں نے ساتھ یہ بھی کہا کہ ’اصل سوال یہ ہے کہ آیا وہ کسی معاہدے تک پہنچ جائیں گے یا کم از کم دوسرے کو اپنی رائے رکھنے کا موقع دیتے ہوئے توسیعی اقدامات سے پرہیز کریں گے۔‘

شیئر: