Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

وفاقی کابینہ تحلیل ہونے کے بعد حکومتی دفاتر کی صورت حال کیا ہے؟

وزیراعظم عمران خان کی ہدایت پر قومی اسمبلی اور وفاقی کابینہ کی تحلیل کے بعد سرکاری دفاتر میں نظام تقریباً مفلوج ہوگیا ہے اور مختلف وزراتوں میں اہم ترین اجلاس بھی ملتوی کردیے گئے ہیں۔
اسلام آباد کا پاک سیکریٹریٹ وفاقی حکومت کے نظام میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ یہاں پر مختلف وفاقی وزارتوں کے دفاتر اور عملہ ہوتا ہے، تاہم پیر کو اردو نیوز کی جانب سے پاک سیکریٹریٹ کے دورے کے دوران معلوم ہوا ہے زیادہ تر وزارتوں میں اہم افسران اور اہلکار آج ڈیوٹی پر نہیں آئے۔
متعدد وزارتوں میں پیر کو اہم اجلاس شیڈول میں شامل تھے مگر وہ منسوخ کردیے گئے تھے۔ سنٹرل ڈویلپمنٹ ورکنگ پارٹی کے اجلاس، جس میں پروجیکٹس کی منظوری دی جاتی ہے، وہ بھی منسوخ ہوئے۔
وفاقی کابینہ کی تحلیل کے بعد وفاقی وزرا اور مشیروں کے دفاتر خالی تھے اور ان سے منسلک دیگر عملہ بھی غائب رہا۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے ایک افسر کا کہنا تھا کہ آج صبح انہیں معلوم نہیں تھا کہ کہاں رپورٹ کرنا ہے کیوں کہ ان کی ڈیوٹی وفاقی وزیر کے ساتھ ہوتی ہے اور ان کا اپنا محکمہ دوسرا ہے۔
ان کے مطابق ’مجھے صبح کال کرکے اپنے سینیئرز سے پوچھنا پڑا کہ اب میرا کیا ہوگا، کیا مجھے اپنے اصل محکمے میں واپس بھیج دیا جائے گا؟ کسی کو کچھ سمجھ نہیں آرہی کہ اب کیا کرنا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’سب کو انتظار ہے کہ کچھ صورت حال واضح ہو تو اپنا کام شروع کریں۔‘
دوسری طرف وفاقی وزیر فواد چوہدری جب سرکاری کار میں سپریم کورٹ پہنچے تو صحافیوں نے ان سے سوال کیا کہ کیا ابھی تک ان کو سرکاری پروٹوکول، مراعات اور گاڑی استعمال کرنے کی اجازت ہے تو ان کا مسکراتے ہوئے کہنا تھا کہ ’ہاں یہ چیزیں 15 روز تک رہیں گی۔‘

اتوار کو رات گئے کابینہ ڈویژن نے وزیراعظم عمران خان اور ان کی کابینہ کو ڈی نوٹیفائی کر دیا تھا (فائل فوٹو)

وزرات پٹرولیم، تجارت، داخلہ ، پلاننگ صحت اور تعلیم میں حاضری بہت ہی کم تھی اور دفاتر میں ہُو کا عالم رہا۔ ایک اور افسر کا کہنا تھا کہ رمضان کی وجہ سے بھی حاضری پر فرق پڑا ہے تاہم غیر یقینی کی صورت حال کا بہت نقصان ہو رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ملکی معیشت پہلے ہی مشکلات کا شکار ہے مگر سیاسی غیر یقینی نے صورتحال کو مزید خراب کر رکھا ہے۔
ان کا کہنا تھا  ’جو بھی ہونا ہے جلد ہونا چاہیے تاکہ بحران ختم ہو سکے اور استحکام کی فضا پیدا ہو۔‘
پاکستان سٹاک ایکسچینچ میں بھی کاروباری ہفتے کے پہلے روز انڈیکس میں شدید مندی دیکھی جا رہی ہے۔ کاروبار کا آغاز منفی رجحان سے ہوا اور 100 انڈیکس 729 پوائنٹس کی کم دیکھی گئی۔

وزارتوں سے متعلق سرکاری دفاتر میں پیر کو حاضری بہت کم رہی (فائل فوٹو)

اتوار کو قومی اسمبلی میں سابق وفاقی وزیر قانون فواد چوہدری نے اپوزیشن پر حکومت کی تبدیلی کی غیرملکی سازش میں شریک ہونے کے الزام  عائد کرتے ہوئے ڈپٹی سپیکر سے اسے مسترد کرنے کی درخواست کی تھی، جس کو مانتے ہوئے ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے تحریک عدم اعتماد کو مسترد کر دیا تھا۔
اس کے فورا بعد وزیراعظم عمران خان نے صدر عارف علوی کو قومی اسمبلی تحلیل کرنے کی سفارش کی تھی جسے منظور کرتے ہوئے صدر نے اسمبلی توڑ دی تھی۔
رات گئے کابینہ ڈویژن نے وزیراعظم عمران خان اور ان کی کابینہ کو ڈی نوٹیفائی کر دیا تھا جس کے بعد وزارتیں خالی ہو گئی تھیں۔
یاد رہے کہ اپوزیشن نے ڈپٹی سپیکر کے اقدام کو آئین کی کھلی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے سپریم کورٹ سے اسے معطل کرنے کی استدعا کی ہے جبکہ اعلٰی عدالت نے پہلے ہی از خود نوٹس لے کر معاملے کی سماعت شروع کر رکھی ہے۔

شیئر: