Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’کروکر مچھلیوں کی صورت میں گویا ہماری لاٹری لگ گئی‘

گزشتہ برس بھی جیونی میں کروکر مچھلیاں پکڑی گئی تھیں۔ (فوٹو: ٹوئٹر سمروز مجید بلوچ)
پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے ساحل سمندر پر ماہی گیروں کے ہاتھ ایک ساتھ 18 قیمتی مچھلیاں لگیں جن میں سے 22 کلو وزنی سب سے بڑی مچھلی پانچ لاکھ روپے میں فروخت ہوئی ہے۔
شکار کی گئی قیمتی مچھلی ’کروکر‘ کو مقامی بلوچی زبان میں ’کیر‘ اور اردو میں ’سوا‘ مچھلی کہا جاتا ہے۔ ان مچھلیوں کا شکار 15 مئی کو گوادر کے علاقے جیونی کے سمندر میں ایرانی سرحد کے قریب گنز کے مقام پر کیا گیا۔
ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ (ڈبلیو ڈبلیو ایف) پاکستان کے جیونی میں انفارمیشن سینٹر کے ریسرچ ایسوسی ایٹ سدھیر احمد نے اردو نیوز کو بتایا کہ یہ مچھلیاں ساجد عمر نامی ناخدا اور ان کے ساتھی ماہی گیروں کے جال میں پھنسی جن میں سے سب سے بڑی مچھلی 22 کلو وزنی تھی جبکہ باقی مچھلیوں کا وزن 10 سے 12 کلو تھا۔
انہوں نے بتایا کہ ’22 کلو وزنی مچھلی کی بولی 23 ہزار روپے فی کلو کے حساب سے لگی جبکہ باقی مچھلیاں دو ہزار سے سات ہزار روپے تک فی کلو کے حساب سے فروخت ہوئی اور مجموعی طور پر ماہی گیروں کو آٹھ لاکھ روپے کی آمدن ہوئی جو اِن ماہی گیروں کی چار سے پانچ ماہ کی مجموعی آمدن کے برابر ہے۔‘
مچھلیاں پکڑنے والے ساجد عمر نے بتایا کہ انہوں نے ایک روز قبل شام کو ساحل کے قریب جال بچھا رکھا تھا جب صبح سویرے ہم دوبارہ گئے تو ہماری جال میں 18 کیر مچھلیاں پھنسی ہوئی تھیں، جن میں سے ایک بڑی تھی۔
انہوں نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم روزانہ پانچ سے چھ ہزار روپے کماتے ہیں لیکن آج ہی دن میں کروکر مچھلیوں کی صورت میں لاکھوں روپے کی کمائی سے گویا ہماری لاٹری لگ گئی۔‘
یاد رہے کہ گزشتہ مئی میں بھی جیونی میں کروکر مچھلیاں پکڑی گئی تھیں جن سے ایک مچھلی 80 لاکھ روپے میں فروخت ہوئی تھی۔

کروکر مچھلی کو مقامی بلوچی زبان میں ’کیر‘ اور اردو میں ’سوا‘ مچھلی کہا جاتا ہے۔ (فوٹو: ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ)

سمندری حیات کے امور کے ماہر اور ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کے ٹیکنیکل ایڈوائزر محمد معظم خان کے مطابق ’کروکر مچھلی کا گوشت اتنا مہنگا نہیں ہوتا۔
’اصل قیمت اس مچھلی کے اندر پائے جانے والے بلیڈر کی ہوتی ہے جسے بلوچی زبان میں پھوٹو کہتے ہیں۔ اس ایئر بلیڈر کی چین، سنگا پور، ہانگ کانگ اور کئی یورپی ممالک میں بڑی مانگ ہے جہاں اس کا استعمال سرجری، ادویات، کاسمیٹیکس اور خوراک سمیت ایک خاص قسم کے سوپ میں کیا جاتا ہے۔ بعض لوگ اسے جوڑوں کے درد کے افاطے اور جنسی قوت بڑھانے کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ چین میں بعض لوگ مچھلی کے ایئر بلیڈر کو سکھا کر بھی مہنگے داموں فروخت کرتے ہیں۔ ہانگ کانگ یا گوانگ زو کی مارکیٹ میں بلیڈر 50 لاکھ روپے فی کلو گرام تک میں بھی فروخت ہوا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان میں کئی دہائیوں سے گوشت کے اعلیٰ معیار کی وجہ سے اس کا شکار کیا جاتا رہا ہے تاہم اس کے بلیڈر کی پہلی مرتبہ یورپ برآمد ڈیڑھ صدی قبل اس وقت شروع ہوئی تھی جب شراب میں اس کا استعمال کیا جانے لگا۔ تاہم اب یہ زیادہ تر چینی مارکیٹ میں فروخت ہوتا ہے۔
محمد معظم خان کے مطابق تقریباً 20 برس قبل گوادر، جیونی، اورماڑہ، سونمیانی اور انڈس ڈیلٹا کے ساحلی پانیوں میں یہ مچھلیاں کثرت سے پائی جاتی تھیں تاہم اب بڑھتی ہوئی قیمت اور چین میں مانگ کی وجہ سے یہ نایاب ہوتی جا رہی ہیں۔ چین میں اس کروکر مچھلی کی کئی اقسام پہلی ہی ختم ہوچکی ہیں۔
جیونی میں محکمہ ماہی گیری کے انسپکٹر عبدالخالق نے اردو نیوز کو بتایا کہ جیونی اور گنز کی مارکیٹ میں ان دنوں روزانہ کی بنیاد پر ایک سے دو کروکر مچھلیاں فروخت ہو رہی ہیں۔
’مادہ کے مقابلے میں نر اور زیادہ وزن والی مچھلیوں کی قیمت زیادہ ہوتی ہے کیونکہ ان کا ایئر بلیڈر بڑا ہوتا ہے۔‘

ڈبلیو ڈبلیو ایف کے سدھیر احمد کے مطابق گزشتہ چار برسوں میں کروکر مچھلی کا بے دریغ شکار شروع ہوا ہے۔  (فوٹو: ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ)

ان کا کہنا ہے کہ مادہ کروکر مچھلی دو ہزار سے تین ہزار روپے فی کلو جبکہ 10 سے 15 کلو وزنی اور نر مچھلی چھ سے سات ہزار روپے کلو میں فروخت ہوتی ہے۔ 20 کلو سے زیادہ وزن والی نر مچھلیوں کی قیمت بہت زیادہ ہوتی ہے۔ گزشتہ برس ایک مچھلی 80 لاکھ روپے میں بھی فروخت ہوئی تھی۔
جیونی میں ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کے انفارمیشن سینٹر کے ریسرچ ایسوسی ایٹ سدھیر احمد کے مطابق ’کروکر مچھلی عام طور پر کھلے سمندر میں پائی جاتی ہیں لیکن اپریل، مئی اور جون میں یہ افزائش نسل کے لیے جیونی کے ساحلی علاقوں کا رخ کرتی ہیں جہاں ماہی گیر ان کے لیے مخصوص بڑے پلاسٹک والے جال بچھا لیتے ہیں۔ عام دنوں میں ماہی گیر چھوٹے جال استعمال کرتے ہیں جن میں کروکر مچھلیاں نہیں پھنستی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ چار برسوں میں اس مچھلی کا بے دریغ شکار شروع ہوا ہے جس سے اس کے معدوم ہونے کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔
انہوں نے مطالبہ کہ سمندری حیات کے تحفظ کے لیے اس علاقے کو میرین پروٹیکٹڈ ایریا قرار دیا جائے۔

شیئر:

متعلقہ خبریں