Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

چوہدری برادران: سیاسی رفاقت سے خاندانی رقابت تک

2018 کے انتخابات کے بعد مسلم لیگ ق نے وفاقی حکومت کی تشکیل میں تحریک انصاف کی حمایت کی۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
’چوہدری پرویز الٰہی کے نام۔ جو میرے عزیز از جان بھائی بھی ہیں، میرے بہترین دوست بھی ہیں اور آغاز سیاست سے میرے سیاسی ہمسفر بھی ہیں۔‘
یہ عبارت مسلم لیگ ق کے سربراہ چودھری شجاعت حسین کی سیاسی سرگزشت ’سچ  تو یہ ہے‘ کے انتساب پر مبنی ہے۔
دہائیوں  سے پنجاب کی سیاست میں معروف چودھری خاندان کے دو چچا زاد بھائی سیاسی طور پر یک آواز اور یکجا سمجھے جاتے تھے۔
حالیہ دنوں میں پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے انتخاب پر جنم لینے والے بحران  نے چوہدری ظہور الٰہی کے خانوادے کی نہ صرف سیاسی راہیں جدا کر دی ہیں بلکہ ذاتی تعلقات میں تلخی بھی بھر دی  ہے۔
رفاقت رقابت میں کیوں بدلی؟        
کیا ساٹھ کی دہائی سے پنجاب کی سیاست میں برادری اور دھڑے کے زور پر ناموری اور قوت حاصل کرنے والے خاندان کی سیاسی طاقت کے خاتمے کا آغاز ہو گیا ہے؟
پنجاب میں برادریوں اور دھڑوں کی سیاست پر نظر رکھنے والے صحافی ماجد نظامی نے اس سوال کے جواب میں اردو نیوز کو بتایا کہ ’چوہدری خاندان میں اس سے پہلے بھی اختلافات سر اٹھاتے رہے ہیں مگر عمران خان کی حمایت پر دونوں بھائیوں کی سیاسی منزل الگ ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔‘
ان کے خیال میں چودھری پرویز الٰہی کی جانب سے پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے لیے پی ڈی ایم کے بجائے تحریک انصاف کا امیدوار بننے کے فیصلے نے ان کے درمیان اختلافات کو انتہا تک پہنچا دیا تھا۔

دھڑے بندی اور برادری کی سیاست کے زیر اثر چوہدری ظہور الہٰی گجرات کے جاٹوں  کے بلا شرکت غیرے لیڈر بن گئے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

ماجد نظامی کے خیال میں دیگر وجوہات کے علاوہ چوہدری خاندان کی تیسری نسل کے نوجوان سیاستدانوں کے درمیان سیاسی اختلافات بھی ان کی خاندانی سیاست کے زوال کا باعث بنے ہیں۔ مونس الہٰی اور حسین الہٰی کی اپنے کزن سالک حسین کے ساتھ ذاتی دوریاں اور سیاسی رقابت بھی ان کے والدین کے درمیان ذاتی اور سیاسی فاصلوں کی وجہ ہیں۔
گجرات کے چوہدری کون ہیں؟
گجرات کے علاقے ’نت وڑائچ‘ سے تعلق رکھنے والے چوہدری ظہور الٰہی کا خاندان گذشتہ چھ دہائیوں سے اقتدار اور سیاست کا حصہ چلا آ رہا ہے۔
ظہور الہٰی کے بیٹے اور مختصر مدت کے لیے وزیراعظم پاکستان رہنے والے چودھری شجاعت حسین مسلم لیگ ق کے سربراہ ہیں۔ چوہدری پرویز الہٰی ان کے تایا چوہدری منظور الہٰی کے بیٹے اور بہنوئی بھی ہیں۔ اس سے قبل سنہ 2002 سے 2008 تک پنجاب کے وزیراعلیٰ رہ چکے ہیں۔
22 جولائی کی شام تک یوں لگ رہا تھا کہ پرویز الہٰی ایک بار پھر پنجاب کی وزارت اعلیٰ پر متمکن ہونے والے ہیں مگر آخری لمحات میں انہیں اس وقت حیرت کا سامنا کرنا پڑا جب انہیں اپنا عزیز بھائی، دوست اور سیاسی ہمسفر قرار دینے والے چوہدری شجاعت  حسین نے ان کی حمایت سے انکار کر دیا۔
دلچسپ بات ہے کہ اپنے بھائی اور سیاسی ہمسفر کو ووٹ دینے سے اعلانیہ انکار کرنے والے چودھری شجاعت حسین نے اپنی کتاب ’سچ تو یہ ہے‘ میں اپنے والد کے قومی اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لینے کے واقعات بیان کیے ہیں۔
چوہدری ظہور الہٰی 1965 میں قومی اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لے رہے تھے اور  نواب آف کالاباغ جانب سے انھیں شدید مخالفت کا سامنا تھا۔

ضیاالحق کے ساتھ غیر معمولی قربت اور پیپلز پارٹی کی مخالفت چوہدری ظہور الہی کی حادثاتی موت پر منتج ہوئی۔ فائل فوٹو: اے پی پی

چوہدری شجاعت لکھتے ہیں کہ ایک ووٹر کو میرے والد کے خلاف ووٹ ڈالنے پر مجبور کیا گیا تو اس نے کہا کہ وہ کسی صورت ایسا نہیں کرے گا۔ ووٹ کی پرچی ہی لے کر بھاگ گیا مبادا اس سے زبردستی ووٹ نہ ڈلوا دیا جائے۔
چودھری ظہور الہٰی جوڑ توڑ  اور دھڑے بندی کی سیاست کے بادشاہ مانے جاتے تھے۔ قیام  پاکستان سے قبل پولیس کی نوکری سے فراغت حاصل کر کے اپنے بھائی چوہدری منظور الہٰی کے ساتھ مل کر کاروبار کا آغاز کیا۔ تقسیم ہند کے بعد میلا رام مل کی الاٹمنٹ نے ان کی معاشی اور سماجی حیثیت دو چند کر دی۔ جس کے بعد ان کی اگلی منزل ضلع گجرات کی سیاست میں نمایاں ہونا تھا ۔
دھڑے بندی اور برادری کی سیاست کے زیر اثر چوہدری ظہور الہٰی گجرات کے جاٹوں  کے بلا شرکت غیرے لیڈر بن گئے۔
جب ریپبلکن پارٹی بنی تو انہوں نے فضل الہٰی سمیت اپنے دھڑے کی تقویت اور مخالفین کی زد میں اس میں شمولیت اختیار کر لی۔
محقق سید عقیل عباس جعفری اپنی کتاب ’پاکستان کے سیاسی وڈیرے‘ میں لکھتے ہیں کہ ان دونوں شخصیات نے ریپبلکن پارٹی میں شمولیت کے بعد گجرات مسلم لیگ کے دفتر پر قبضہ کرکے اس پر ریپبلکن پارٹی کا بورڈ آویزاں کر دیا ۔
اس شمولیت نے چوہدری ظہور الہٰی کے لیے گجرات ڈسٹرکٹ بورڈ کی چیئرمین شپ کا راستہ ہموار کر دیا ۔
انیس سو باسٹھ کے انتخابات میں انہوں نے اپنے روایتی حریف نوابزادہ اصغر علی کو پچھاڑ ڈالا ۔یہاں سے ان کی قومی سطح پر جاندار اور جوڑ توڑ کی سیاست کا آغاز ہوا ۔وہ ان سیاستدانوں میں شامل تھے جنہوں نے مل کر ممتاز دولتانہ کے نامزد سپیکر قومی اسمبلی افضل چیمہ کی سپیکر کے انتخابات میں ہار میں اہم کردار ادا کیا ۔

ق لیگ کے چوہدری برادران عمران خان کی وفاقی حکومت میں اتحادی رہے۔ فوٹو: اے پی پی

یہیں سے حکمران  جماعت کنونشن لیگ کے ساتھ ان کی سیاسی رفاقت کا آغاز ہوا۔ وہ قومی اسمبلی میں پارٹی کے جنرل سیکریٹری قرار پائے مگر یہ ساتھ زیادہ دیر برقرار نہ رہ سکا ۔ انیس سو پینسٹھ کے انتخابات میں انہوں نے آزاد امیدوار کی حیثیت سے حصہ لیا۔ اس بار انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا ۔ اس ناکامی کی سب سے بڑی وجہ گورنر مغربی پاکستان نواب آف  کالاباغ کے ساتھ ان کی سیاسی چپقلش تھی۔
سنہ 1970 کے انتخابات میں انہوں نے کونسل مسلم لیگ کے ٹکٹ پر کامیابی حاصل کی۔
بھٹو دور میں وہ مسلسل زیر عتاب رہے۔ اس دور میں ان پر بھینس کی چوری کا مشہور زمانہ مقدمہ قائم ہوا۔
ذوالفقار علی بھٹو کے مقابلے میں اب ظہورالہٰی اپوزیشن کے اہم رہنما تھے ۔ انہوں نے حکومت مخالف سیاسی قوتوں کو یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ کے پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا ۔اسمبلی کے اندر اور باہر حکومت کو آڑے ہاتھوں لینے لگے ۔اس شعلہ نوائی کا نتیجہ ان کے گھر سے عراقی اسلحے کی برآمدگی کے کیس کی صورت صورت میں نکلا۔
ضیاالحق کے ساتھ غیر معمولی قربت اور پیپلز پارٹی کی مخالفت چوہدری ظہور الہی کی حادثاتی موت پر منتج ہوئی۔
چوہدری برادران کا سیاسی سفر    
2018 کے انتخابات کے بعد مسلم لیگ ق نے وفاقی حکومت کی تشکیل میں تحریک انصاف کی حمایت کی۔ اس کے بدلے میں خواہش اور طلب کے باوجود انہیں پنجاب کے وزارت اعلیٰ نہ مل سکی البتہ پرویزالہٰی پنجاب اسمبلی کے سپیکر منتخب ہو گئے۔

چوہدری شجاعت حسین کی سابق وزیراعظم شوکت عزیز کے ہمراہ۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے دوران چوہدری شجاعت حزب اختلاف کے کیمپ میں جبکہ پرویز الہٰی عمران خان کی حمایت میں پیش پیش تھے۔ یہیں سے دونوں میں سیاسی دوریوں اور خاندانی رنجش کا آغاز ہوا۔
چودھری شجاعت حسین اور چودھری پرویز الہٰی نے  ذوالفقار علی بھٹو کے دور سے سیاسی سفر کا آغاز  ایک ساتھ کیا ۔اس دور میں چودھری ظہور الٰہی ڈپٹی اپوزیشن لیڈر تھے ۔آئین میں چوتھی ترمیم کے معاملے پر جب ان کے حکومت سے تعلقات میں کشیدگی  پیدا ہوئی تو اس کا نتیجہ دونوں بھائیوں کی گرفتاری کی صورت میں نکلا ۔
چودھری شجاعت حسین لکھتے ہیں کہ انہیں گرفتار کر کے لاہور کے سول لائن تھانے میں رکھا گیا ۔انہیں تنگ کرنے کے لیے ایک نشہ کرنے والے شخص  کو بھی اسی کوٹھڑی میں بند کر دیا گیا ۔
سنہ 1977 کے انتخابات میں چوہدری شجاعت حسین اپنے آبائی ضلع گجرات سے صوبائی اسمبلی کے امیدوار تھے ۔ان کی جماعت بی این اے نے قومی اسمبلی کی نشستوں پر  دھاندلی کے الزامات لگا کر  احتجاجاً صوبائی انتخابات کا بائیکاٹ کر دیا ۔
یوں ان کے مدمقابل چودھری اعتزاز احسن بلامقابلہ ممبر صوبائی اسمبلی بن گئے ۔
ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف قومی اتحاد کی تحریک کے دوران لاہور کے چیرنگ کراس  پر خواتین کے ایک جلوس کی قیادت کرتے ہوئے چوہدری شجاعت حسین کی بہن اور چودھری پرویز الٰہی کی اہلیہ قیصرہ الہٰی پولیس لاٹھی چارج سے زخمی بھی ہوئی ۔
ضیاالحق کے دور سے دونوں بھائیوں نے پنجاب کی سیاست میں اپنے دھڑے کے رسوخ کو اور مضبوط کیا ۔انیس سو پچاسی کے غیر جماعتی انتخابات کے بعد ان کی نظریں پنجاب کی وزارت اعلیٰ پر تھی۔

چوہدری شجاعت نے ماضی میں چوہدری پرویز الہیٰ کو پنجاب کا وزیراعلیٰ بنانے کی کوشش کی۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

نیرنگی سیاستِ دوراں کا کمال        
پاکستانی سیاست کے بدلتے معیارات اور نشیب و فراز کا کمال دیکھیں کہ آج چوہدری شجاعت حسین میاں نواز شریف اور شہباز شریف کے ساتھ مل کر پرویز الہٰی کو وزارت اعلیٰ سے دور رکھنے کی سعی کر رہے ہیں۔
ماضی میں چوہدری شجاعت حسین کے میاں برادران سے سیاسی اختلاف اور ذاتی رنجش کی سب سے بڑی وجہ پرویز الہٰی کو پنجاب کا وزیر اعلی نہ بنانا تھا ۔اسی ردعمل اور انتقام کے زیراثر انہوں نے نہ صرف پرویز مشرف کی حمایت کی بلکہ اپنی علیحدہ مسلم لیگ بھی قائم کر لی ۔
اس بار چوہدری پرویز الہٰی  کے وزیر اعلیٰ پنجاب بننے کا معاملہ اب عدالت عالیہ سے ہی طے ہوگا ۔مگر ماضی میں تین بار ایسا ہوا کہ چوہدری شجاعت حسین کی بھرپور کوشش کے باوجود وہ اس منصب پر فائز نہ ہو سکے ۔
انیس سو پچاسی کے غیر جماعتی انتخابات کے بعد گجرات کے چوہدری ظہور الٰہی کے بیٹے چودھری شجاعت حسین اپنے کزن اور بہنوئی چودھری پرویز الہی کے لیے پنجاب کی وزارت اعلی کے طلبگار تھے ۔
وہ اپنی سیاسی آپ بیتی ’سچ تو یہ ہے‘ میں لکھتے ہیں کہ  وزارت اعلیٰ کی دوڑ میں سب سے زیادہ ارکان اسمبلی ہماری میٹنگ میں آتے تھے ۔جن میں خواجہ سعد رفیق کی والدہ بھی شامل تھی ۔ان سب کا مشورہ یہ تھا کہ پرویز الہٰی کا نام بطور وزیراعلیٰ آنا چاہیے ۔
اس وقت کے گورنر غلام جیلانی اور سابق بریگیڈیئر قیوم کی آشیر باد سے لاہور کے کشمیری خاندان کے نوجوان صنعتکار نواز شریف کے سر صوبے کی وزارت اعلیٰ کا تاج سج گیا ۔
چوہدری شجاعت حسین کے مطابق نواز شریف نے انہیں دھوکا دیا ۔ان کے گروپ کے لوگوں کو مختلف مراعات  کی لالچ سے ساتھ ملانے کی کوشش کی۔

مسلم لیگ ق کے سربراہ چوہدری شجاعت اور سابق وزیراعظم شوکت عزیز ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے کھڑے ہیں۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

چوہدری پرویز الہٰی بارسوخ سیاستدانوں کی آشیرباد کی وجہ سے تحریک عدم اعتماد کے ذریعے نواز شریف کو وزارت اعلیٰ سے ہٹانے کی کوشش کی ۔اس ناکام کوشش کی وجوہات کے بارے میں چوہدری شجاعت حسین کہتے ہیں کہ نواز شریف نے جنرل حمید گل کی مدد سے ضیا الحق کو یہ باور کروا دیا تھا کہ اگر چوہدری پرویز الہٰی وزیراعلی بن گئے تو پنجاب میں چودھری بہت مضبوط ہو جائیں گے۔ یوں وہ جونیجو حکومت کے لیے مشکلات پیدا کریں گے۔ اسی کے بعد ضیاالحق لاہور آئے اور مشہور جملہ بولا کہ ’نواز شریف کا کلہ مضبوط ہے۔‘
دوسری بار پرویز الٰہی کے لیے پنجاب کی وزارت اعلیٰ کی امید اپریل 1993 میں نواز شریف حکومت کی برطرفی اور بحالی کے بحران کے دوران پیدا ہوئی۔
نواز شریف کی وزارت عظمی کے خاتمے کے بعد پنجاب میں مسلم لیگ کے دو تہائی اکثریت سے منتخب ہونے والے وزیراعلی غلام حیدر وائیں کے خلاف اس وقت کے سپیکر اسمبلی میاں منظور وٹو نے بغاوت کر دی تھی ۔ وہ 157 ممبران کی حمایت سے عدم اعتماد کے ذریعے صوبے کے وزیراعلیٰ بن گئے۔
مگر محض ایک ماہ کے بعد سپریم کورٹ کی جانب سے نواز شریف حکومت کی بحالی نے پنجاب میں ایک نیا سیاسی طوفان کھڑا کر دیا۔
نواز شریف نے پرویز الہٰی کو پنجاب میں سیاسی کردار ادا کرنے اور منحرف مسلم لیگی ممبران اسمبلی کی واپسی میں کامیابی کی  عوض وزارت اعلیٰ کا یقین دلایا ۔بقول چودھری شجاعت پرویز الہٰی نے وزارت اعلیٰ کے لیے اسمبلی میں اکثریت ثابت کردی ۔ ادھر بغاوت کر کے وزیراعلیٰ بننے والے منظور وٹو نے اکثریت کھو جانے کے ڈر سے اسمبلی توڑنے کی سفارش کر دی ۔
نواز شریف حکومت کی بحالی کے بعد مسلم لیگ کے باغی پنچھی وٹو سے پرویز الہٰی کی منڈیر پہ آنا شروع ہو گئے۔ 29 مئی 1993 کو وزیراعلی منظور وٹو نے گورنر چوہدری الطاف کو اسمبلی توڑنے کی سفارش کی۔
اسی روز پرویز الہٰی نے وزیر اعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد سپیکر اسمبلی کے دفتر میں جمع کروادی ۔جس کے نتیجے میں آئینی بحران پیدا ہوگیا اور معاملہ لاہور ہائیکورٹ جا پہنچا ۔
عدالت میں اسمبلی کی تحلیل کی دیگر آئینی وجوہات کے ساتھ ساتھ اس بات پر بھی بحث ہوتی رہی کہ پرویز الہٰی نے تحریک  عدم اعتماد پہلے جمع کروائی یا منظور وٹو نے گورنر کو اسمبلی توڑنے کی سفارش پہلے کی۔اپنے موقف کی تائید  میں دونوں فریقوں نے عدالت کے سامنے اپنے اپنے مخصوص وقت کا دعوی بھی پیش کیا ۔

چوہدری شجاعت حسین قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے، عمر ایوب اور شیرافگن بھی تصویر میں نظر آ رہے ہیں۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

ہائی کورٹ میں وقت کے تنازعے کا فیصلہ کرنے کے لیے مختلف لوگوں کی شہادتیں ریکارڈ کی گئی ۔ کچھ حلقوں کی جانب سے مسلم لیگ کے حامیوں پر سیکریٹری پنجاب اسمبلی حبیب اللہ  گورایہ کے اغوا کا الزام بھی لگایا گیا تاکہ وہ عدالت کے سامنے شہادت نہ دے سکیں۔
لاہور ہائی کورٹ کی طرف سے پنجاب اسمبلی کی بحالی نے پرویز الہٰی کے لیے بظاہر سازگار حالات پیدا کر دیے ۔ مگر شومیِ قسمت کہ  اس دن وہ اپنے ارکان اسمبلی کی اکثریت کے ساتھ اسلام آباد کے میریٹ ہوٹل میں مقیم تھے ۔اس طرح  منظور وٹو کو ایک مرتبہ پھر اسمبلی توڑنے  سے روکنے کے لیے ایک اور تحریک عدم اعتماد  پنجاب اسمبلی میں جمع نہ ہو سکی ۔
گورنر پنجاب کی طرف سے اسمبلی کی دوبارہ تحلیل اور پھر قومی اسمبلی توڑنے کے صدارتی حکم نامے سے چوہدری پرویز الہٰی کے لیے دوسری بار بھی پنجاب کی  وزارت اعلیٰ کا خواب تشنہ  تکمیل  رہا۔
چوہدری پرویز الہی  پنجاب میں 10 ممبران اسمبلی کی قلیل تعداد کے ساتھ وزارت اعلیٰ کے حصول کے لیے کوشاں ہیں ۔
پنجاب کی سیاست میں اس طرح کی انہونی پہلے بھی ہو چکی ہے ۔ 93  کے انتخابات کے بعد مسلم لیگ جونیجو گروپ کے منظور وٹو 18 ایم پی ایز کی مدد سے پیپلزپارٹی سے پنجاب کی وزارت اعلی لینے  میں کامیاب ہوئے تھے۔
منظور وٹو  کے دور میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف تھے  ۔چودھری شجاعت حسین کے مطابق وہ کمر کے درد کے علاج کا بہانہ کرکے لندن چلے گئے ۔یہ پرویز الہٰی تھے جنہوں نے مشکل حالات میں اپوزیشن لیڈر کا کردار نبھایا۔
شاید اسی سبب وہ انیس سو ستانوے کے الیکشن میں  پنجاب سے  دو تہائی اکثریت حاصل ہونے کے بعد اپنے آپ کو ایک بار پھر وزارت اعلیٰ کی مسند کا جائز حق دار گردانے لگے تھے۔
مگر اس بار وزیراعظم نواز شریف کے چھوٹے بھائی شہباز شریف کے انتخاب نے ان کی امیدوں کی فصل اجاڑ دی۔
چودھری شجاعت حسین پرویزالٰہی کے تخت لاہور سے محرومی کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انیس سو ستانوے کے الیکشن سے قبل میاں محمد شریف ان کی والدہ سے ملنے گھر آئے۔ اس ملاقات میں انہوں نے میری والدہ سے کہا کہ آئندہ انتخابات میں کامیابی کے بعد پرویز الہٰی پنجاب کے وزیر اعلیٰ ہوں گے مگر انہوں نے وعدہ خلافی کی ۔ یوں اس بار پرویز الہٰی کو پنجاب کی سپیکر شپ پر گزارا کرنا پڑا۔
اب اگر چوہدری پرویز الہٰی عدالتی فیصلے کے نتیجے میں پنجاب کے وزیراعلیٰ قرار پاتے ہیں تو قومی سیاست پر اس کے اثرات اپنی جگہ مگر  یہ حیرت انگیز اتفاق بھی ہوگا کہ ماضی میں وہ چوہدری شجاعت کی سر توڑ کوششوں کے باوجود جس منصب کے حصول میں ناکام رہے تھے اس بار ان کی کھلی اور اعلانیہ مخالفت کے باوجود وہ حصول مراد میں کامیاب ہو جائیں گے۔
ایک گھر کے مکینوں کا سیاسی مستقبل
’آج بھی ہمارا مشترکہ خاندانی نظام ہے ۔گلبرگ لاہور میں ،جہاں ہم پچاس کی دہائی سے رہے ہیں ۔میں، پرویز الہٰی اور دوسرے بہن بھائی سب ایک کنبے  کی صورت میں اکٹھے رہتے ہیں اور سب کا آپس میں اتفاق مثالی ہے ۔‘
چوہدری شجاعت حسین اپنی کتاب کے لیے جب مذکورہ بالا سطور لکھ رہے ہوں گے تو شاید ان کے وہم و گمان میں آج کا سیاسی منظر نامہ نہ ہو ۔جب دونوں بھائیوں کے درمیان سیاسی علیٰحدگی  اور دوری کی دیواریں حائل ہو جائیں گی۔
ماجد نظامی کے خیال میں شاید اب مسلم لیگ قاف اپنا وجود برقرار رکھنا مشکل ہو جائے ۔یہ عین ممکن ہے کہ دونوں بھائی اپنے اپنے حمایتیوں سمیت مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف میں ضم ہو جانے کے بارے میں سوچ بچار کریں ۔ ان کے لیے الگ الگ سیاسی جماعتیں بنا کر سیاست میں زندہ رہنا مشکل ہو ہو گیا ہے ۔ان کے آبائی ضلع گجرات میں چوہدری مونس الٰٰہی اور ان کے کزن حسین الہٰی سیاسی اور اقتصادی طور پر چوہدری سالک حسین سے مضبوط ہیں ۔
مسلم لیگ کی تاریخ بتاتی ہے کہ مختلف ادوار میں اس کے بطن سے مختلف  طرح کی مسلم لیگیں جنم لیتی رہی ہیں ۔حالات کے زیراثر سیاسی منظر نامے سے غائب بھی ہو جانے کی ایک طویل تاریخ ہمارے سامنے ہے۔
کیا مسلم لیگ ق بھی کنونشن لیگ جیسے انجام کی جانب بڑھ رہی ہے؟ آئندہ انتخابات شاید اس سوال کا بہتر جواب دے سکیں۔

شیئر: